Sunday, 30 June 2019

حیرتِ عشق نہیں ذوق جنوں کوش نہیں

حیرتِ عشق نہیں ذوق جنوں کوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤ مجھے ہوش نہیں

خود فراموش ہوں نظارہ فراموش نہیں
بات تو ہوش کی کرتا ہوں مگر ہوش نہیں

میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں

دیکھ کر جلوہِ حق خود کو کیا ہے سجدہ
سمت بھولا ہوں مگر قبلہ فراموش نہیں

کہ گئی کان میں آ کر ترے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جسے ہوش نہیں

محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں

کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

اٹھ کے جس دن سے گیا ہے کوئی پہلو سے جگر
ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرا آغوش نہیں

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry