Saturday, 18 September 2021

"پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں"

1971 کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ کے  بعد  لکھی ہوئی احمدفرازکی عظیم الشان انقلابی نظم ان کے جنم دن پر پیش کی جارہی ہے۔آج فراز نوّے برس کے ہو

"پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں"

میں نے اب تک تمہارے قصیدے کہے
اور آج اپنے نغموں پہ شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت پہ ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
پا بہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں
اپنے دل گیر پیاروں سے شرمندہ ہوں

جب کبھی بھی مری دل زدہ خاک پر
سایۂ غیر یا دستِ دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر مری جب کبھی رن پڑا
میرا حرفِ ہنر تھا کہ خونِ جگر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا

آنسوؤں سے تمہیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمہیں
تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہے گوارا تمہیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار میں بھی نہ جی سے اتارا تمہیں

سینہ چاکانِ مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے

اس کا انجام جو بھی ہوا سو ہوا
شب گئی، خواب ہائے پریشاں گئے
کس رعونت کے تیور تھے آغاز میں
کس حجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے

یاد ہوں گے تمہیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے

کیا خبر تھی، کہ تم سے شکستہ انا
اپنے زخموں کو بس چاٹنے آئیں گے
جن کے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آئیں گے
قتلِ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آ ئیں گے

آج پشاور سے لاہور و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
کس شہنشاہِ عالی کا فرمان ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو

جیسے برطانوی راج میں گورکھے
باغیوں پر ستم عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
آج تم ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں، وردیاں، نام ان کے بھی تھے

تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
ہونٹوں پر جمی پپڑیاں خون کی
کہہ رہی ہیں کہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمہارے لئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں

آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خول اترا تمہارا تو ظاہر ہوا
پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہئیں
اب فقط مسئلہ تاجِ شاہی نہیں ۔۔۔!
 (احمد فراز)

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry