" ہم نے بزرگوں سے سنا ہے "
رحم مادر سے لاشعور اور لاشعور سے شعور کے سفر میں مظاہر قدرت اور وجہُ وجود کی توجیہہ کے مظہر میں ہم نے بزرگوں سے سنا ہے .
چاند پہ چرخہ کاتتی ہوئی بڑھیا رہتی ہے
جنت میں دودھ اور شہد کی نہر بہتی ہے
کسی گزرے وقت کے طاق میں حوا آدم کی پسلی میں ہنستی رہتی ہے
جن محل بھی تعمیر کرتے ہیں
اور بطخ عبرانی گرامر پہ عبور بھی رکھتی ہیں
اڑتے قالینوں کے آگے کشش ثقل سر جھکاتی ہے
لاٹھی بحیرہُ اسود میں راہ بناتی ہے
ہم نے بزرگوں سے سنا ہے ....
عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے
درختوں میں توحید کی منادی ہوتی ہے
انسانوں کا قتل جہاد ہوتا ہے
جو نہ ہو تو ارض خدا پہ فساد ہوتا ہے
دودھ کیطرح پیغمبر بھی زائدالمعیاد ہوتا ہے
قابیل بھی ابن آدم کاداماد ہوتا ہے
ہم نے بزرگوں سے سنا ہے ......
سیف الملوک کی گہرائی کسی کو نہیں معلوم
جن دوشیزاوُں پہ عاشق ہوتے ہیں
اور ماہواری چاند کی شرارت ہے
مرد کی غیرت عورت کا پردہُ بکارت ہے
بخار دوزخ کی حرارت ہے
روا لونڈیوں کی تجارت ہے
دشمنی کا دوسرا نام بھارت ہے
ہم نے بزرگوں سے سنا ہے ...
زمان و مکان خدا کی تخلیق ہیں
اور خدا نے خود کو ہی پیدا کر رکھا ہے
مرنے کے بعد انسان جی بھی اٹھتے ہیں
اس حساب کتاب کی خاطر
جو پیدائش سے قبل لوح تقدیر پہ محفوظ ہے
عقل مجبور ہے ایمان کی مقروض ہے
ہم نے بزرگوں سے سنا ہے .....
سوال کفر تک لے جاتا ہے
کافروں کے دل پہ مہر ہوتی ہے
اور وہ مہر بھی خدا خود ہی لگاتا ہے
تو جب سوال کا ماُخذ خدا کا دیا دماغ ہے
پھر کیوں ستارہ آسمان سےلٹکا چراغ ہے
ایسے سوالوں پہ بزرگ چراغ پا ہوتے ہیں
احترام کی لاٹھی سے ہانکتے ہیں
نسلوں کے ریوڑ کو تشکیک کے تیور کو
سجاتے ہیں ایمان کی ردا کو تقلید کے زیور کو
رحم مادر سے لاشعور اور لاشعور سے شعور کے سفر میں
مظاہر قدرت اور وجہ وجود کی توجیہہ کے مظہر میں
ہاں ہم نے بزرگوں سے یہی سب سنا ہے...
اویس اقبال
No comments:
Post a Comment