Sunday, 26 September 2021

بلوچستان ۔۔۔حاشر ابن ارشاد

تاریخ اتنی سادہ نہیں ہے۔ پوچھنا پڑتا ہے کہ جن پر الزام ہے، بیوفائی ان کی سرشت میں تھی کہ مخالف کیمپ میں۔ دھوکا کس نے کس کو دیا اور قیمت کس نے چکائی، یہ بھی جان لیجیے۔ 

"معاہدہ جاریہ‘ کے نام سے سامنے آنے والے معاہدے پر اتفاق گیارہ اگست سنہ انیس سو سینتالیس کے روز دہلی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کی جبکہ خان آف قلات کے نمائندؤں اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔

معاہدے کی رو سے ریاست قلات کی اندرونی خود مختاری کے علاوہ یہ طے کیا گیا تھا کہ مرکزی حکومت کے پاس صرف دفاع، خارجہ اور رسل و رسائل کے شعبے ہونگے جبکہ حکومت برطانیہ کو مستاجری پر دیئے گئے علاقوں کے مستقبل کے بارے میں دونوں فریقین (خان آف قلات اور حکومت پاکستان) کے نمائندؤں پر مشتمل ایک مشترکہ کمیشن فیصلہ کرے گا۔ مزید یہ کہ قلات اور بلوچستان کے باقی حصوں کے بارے کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے خان آف قلات کی اجازت ضروری ہوگی۔

لیکن قیام پاکستان کے کچھ ماہ بعد ہی تیس مارچ انیس سو اڑتالیس کے روز پاکستانی افواج نے قلات پر حملہ کر کے ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا۔ پندرہ اپریل کے روز حکومت پاکستان کے نمائندے نےگورنر جنرل (قائد اعظم) محمد علی جناح کا ایک رقعہ خان آف قلات احمد یار خان کے حوالے کیا، جس کی رو سے انہیں ’خانِ خاناں‘ کے خطاب سے محروم اور صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے خان بہادر رشید زمان خان کو قلات میں پولیٹکل ایجنٹ مقرر کردیا گیا۔ صوبہ سرحد سے ہی تعلق رکھنے والے ظریف خان کو حکومت پاکستان نے ازخود خان آف قلات کا وزیر اعظم مقرر کر دیا۔

خودمختاری کے چند ماہ کے دوران خان آف قلات نے ایوان بالا اور ایوان زیریں بھی تشکیل دیئے تھے، جنہوں نے پاکستان سے الحاق کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ قلات میں ہونے والے فوجی آپریشن میں ریاست کے ایوان بالا اور ایوان زیریں کے نمائندوں اور قلات نیشنل پارٹی کی قیادت کو

جیل میں ڈال دیا گیا تھا"

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry