Tuesday, 7 September 2021

بانو قدسیہ !

پیارے مظفر علی کی وال سے بانو قدسیہ کی غلامانہ ذہنیت کو آشکار کرتی ہوئی ایک تحریر

قارئین ملاحظہ کیجیے کہ بانو قدسیہ نے کس چالاکی سے عورت کو اس پدر سری نظام کے سامنے غلام اور اس غلامی کو گلوری فائی کرتے ہوئے رہنے کی تلقین کی ہے۔ لکھتی ہیں
"شادی کے بندھن میں جو سب سے بڑا چیلنج پیش آتا ہے وہ فری ول کی آزادی ہے‎۔ شادی میں مکمل سرور اسی وقت ملتا ہے جب اپنے فیصلے کو ساتھی کی خواہشPublished from Blogger Prime Android App پر قربان کرنے کا شوق، ولولہ اور جوش ہو۔ اپنی فری ول چھوڑنی ہوگی، پھر رشتہ محمود و ایاز کا بن جائے گا، عاشق و معشوق کا نہیں رہے گا”
محبت کی شادیاں عموماَ Disillusion پر ختم ہوتی ہیں اور ساتھی توقعات لگانے کے بعد اپنا اپنا خیمہ اکھاڑ کر طلاق کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ غلطی تو انسان کی اپنی شخصیت اس کے اپنے مرکز میں ہوتی ہے" (راہ رواں، صفحہ نمبر 10‎)
(فری ول چھوڑنے کی نصیحت صرف عورت کے لیے تھی اس کا جواب بھی انہی کی تحریروں سے ملتا ہے)
"اتنی روئی کات لو کہ تمہارے کھیس تیار ہو جائیں اور تم اپنے شوہر کو دکھا سکو کہ تم سلیقہ شعار بھی ہو اور پڑھی لکھی بھی" 
(راہ رواں، صفحہ نمبر 11)
"میری والدہ کا خیال تھا کہ عورت جب مالی طور پر خود مختار ہو جاتی ہے تو پھر شادی کے قابل نہیں رہتی"
(راہ رواں، صفحہ نمبر 118)‎
(والدہ تو خود انسپکٹرس آف سکولز تھیں، جنہوں نے بیوگی میں بانو قدسیہ اور ان کے بھائی کی پرورش کی۔ کیا یہ ممکن تھا اگر وہ مالی طور پہ خود مختار نہ ہوتیں)
"میں بھی آہستہ آہستہ اس فیصلے پر پہنچی کہ شاید مجھے اپنی خود معاملگی اور خود ساختہ آزادی کو خدا حافظ کہہ کر ہی اشفاق صاحب کے گھر میں داخلے کی ٹکٹ مل سکتی ہے"
(راہ رواں، صفحہ نمبر 167)‎
(اپنی ماہیت قلب کی اصل وجہ بانو قدسیہ نے خود بیان کر دی، پدرسری نظام کے سامنے سر تسلیم خم)‎“
مرد کی ذات ایک سمندر سے مشابہ ‎ہے۔ اس میں ہمیشہ پرانے پاپی بھی رستے بستے ہیں اور نئے دریا بھی آ کر گلے ملتے ہیں۔ سمندر سے پرانی وفا اور نیا پیار علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن عورت اس جھیل کی مانند ہے جس کا ہر چشمہ اس کے اندر ہی سے نکلتا ہے۔
(توجہ کی طالب،صفحہ نمبر 11‎)
بانو قدسیہ نے اشفاق احمد کی زیر نگرانی کس خوبصورتی سے مرد کے ہرجائی پن کی توجیہ تراشی ہے اور عورت کو وفا کی پتلی بنا کے ایک پیڈسٹل پہ کھڑا کر دینا بانو آپا کا فن کمال ہے‎
بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ عورت کی ظاہری شکل وصورت کا انتہائی ظالمانہ طریقے سے مذاق اڑایا گیا ہے جس کے لئے ہم ایک جہان حیرت میں ڈوبے جاتے ہیں کہ ایسی نامی گرامی ادیبہ کا قلم اور یہ الفاظ
"اشفاق خان صاحب کے دادا بے ‎انتہا خوبصورت، ذہین اور دھن کے پکے تھے۔ بدقسمتی سے ان کی شادی ایک کریہہ صورت سانولی بدہیت لڑکی سے کر دی گئی. بیوی کا گھونگھٹ اٹھاتے ہی انہیں ابکائی آئی"
(راہ رواں، صفحہ نمبر چود‎ہ)
(مذہب اور انسانیت کا اتنا پرچار کرنے والا خاندان اور ایک عورت کی شکل پہ اس قدر رکیک جملے؟ وہ بھی ایک ایسے مرد کے حوالے سے جو خود عالم اور اپنے یونانی حسن پہ نازاں تھا۔لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ ابکائیاں لینے کے باوجود یونانی دیوتا وظیفہ زوجیت قائم کرکے ایک مرد کو دنیا میں لانے میں کامیاب رہا جو اپنی “بدصورت ماں کی گود میں پلنے لگا۔)
"بابا جی (اشفاق احمد کے والد ) کا خیال تھا، اعلیٰ نسل کی بیوی، اعلی نسل کا کتا اور اعلیٰ نسل کا گھوڑا اعلیٰ نسل کے اشراف کی نشانی ہے"
(راہ روں، صفحہ نمبر سولہ )‎
یقین کیجیے! اس اعلان کے بعد لفظ اعلیٰ نسل سے بے انتہا گھن آئی جس نے عورت کا مقام اور فضیلت کتے اور گھوڑے کے برابر متعین کر دی۔ سوال یہ ہے کہ اشفاق احمد کے خاندان کے مردوں کی سوچ اگر ایسی تھی بھی تو بانو قدسیہ کے قلم نے ایسے رویوں کو قدرے فخریہ انداز میں کیوں قلم بند کیا
معاف کیجئے گا، بانو قدسیہ کی بتائی اور سمجھائی ہوئی عورت اشفاق احمد اور ان جیسوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن معاشرے کے بہت سے ان مردوں کی نہیں، جنہیں با اعتماد، اپنے خیال اور اپنی رائے رکھنے والی آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے والی عورت بھاتی ہے۔ ایسے مرد جنہوں اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو اظہار رائے سے نہیں روکتے ترقی کے دروازے بند نہیں کرتے، اپنی مرضی اور اپنی بات کرنے پہ قادر عورت کو اپنا فخر جانتے ہیں۔
Muzaffar Ali

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry