"میں ایک شہید کی بیوہ ہوں"
میرا نام ہما بلال ہے
اور میں کیپٹن بلال ظفر شہید کی بیوہ ہوں
جو بھری جوانی میں اپنی دوشیزگی کے ارمان
مرحوم شوہر کے ستارہُ بسالت سے جھاڑ کر سوتی ہے
آئی ایس پی آر کی تصویروں میں باوقار مسکراہٹ
بیچ کر اپنے سفید تکیے سے لپٹ کر روتی ہے
دوسری شادی یا محبت کا تو سوال کیا
مجھ پر تو نہا کے لپ سٹک لگانا بھی حرام ہے
وہ دیکھو شہید کی بیوہ تیار ہو رہی ہے
ضرور یہ کسی سے ملنے جا رہی ہو گی
اور جب تک جنت کے لاوُڈ سپیکر سے
شہوت اور شرارت کے افطار کا اعلان نہیں ہوتا
میں دستر خوان پہ کھجوروں کے ساتھ چنی رہوں گی
ہر سال چھ ستمبر کو میرے شوہر کی شہادت
راشد منہاس کی داستان کے ساتھ بیچی جاتی ہے
اور میں کٹے بازووُں کی جگہ ارمانوں کے ساتھ
سفید چادر سے ریزگاری چن کر سرغنہ کو دیتی ہوں
جس سے سیمنٹ کے کارخانے اور پیزا کی دکانیں
ان جرنیلوں کو دنیا میں جنت کی سیر کرواتی ہیں
جو ہماری دنیا کو جہنم بنا کر جنت بیچتے ہیں
امن کو معیوب اور میرے صبر کو ایوب سمجھتے ہیں
مگر اب نوم چومسکی نے میری آنکھیں کھولی ہیں
جن میں رو رو کر
زندگی خلا میں تیرتا پتھر ہو گئی تھی
کہتے ہیں میں انڈسٹریل ملٹری کمپلیکس کے معبد میں
لاکھوں دیوداسیوں کی طرح فقط ایک داسی ہوں
جو برہمن کی ہر بھوک کا سامان کرتی ہے
دہلی میں ہندوستان پنڈی میں پاکستان کرتی ہے
میرا ہر آنسو جنگ کے راکھشس کا ایندھن ہے
اور اب میں نے مسکرا کر بغاوت کا اعلان کیا ہے
واہگہ بارڈر پہ بیٹھ کر انسان انسان کیا ہے
آج شام مجھ سے کوئی ملنے آئے گا
کئی سالوں بعد
بدن میں بیوہ کی جگہ انسان جاگی ہے
نہا کر لپ سٹک لگائی ہے بال بھی بکھیرے ہیں
گالوں پہ گلابی غازے کا خفیف سا شائبہ بھی ہے
بلال بھی سمجھتا ہو گا اگر ہوا کہیں
اس کے بعد بھی
میری زندگی باقی ہے جن میں تنہائی ڈستی ہے
بلوٹوتھ سپیکر کی آواز کمرے سے باہر جا رہی ہے
ڈانس ود می
لائک آ لیزی اوشن ہگز دا شور
سوے می مور
ریٹا ہے ورتھ زندہ باد
امن آشتی اور محبت پائیندہ باد
اس ابتدائیے کی یاد دہانی کے ساتھ
میرا نام ہما بلال ہے
اور میں کیپٹن بلال ظفر شہید کی بیوہ ہوں
بشکریہ اویس اقبال
No comments:
Post a Comment