اقرار الحسن اور یاسر شامی کی تصویر لاہور کا کلچر یاد دلاتی ہے۔
عورتوں، بوڑھوں کو آوازے کسنا، سکول جاتی لڑکیوں کے سامنے خصیوں پر خارش کرنا اور ویگن میں پیچھے سے ہاتھ لگانے کی کوشش کرنا۔ ایک خاتون دوست جب فٹ پاتھ پہ چل کر سکول جاتی تھی تو ایک ملنگ راستے میں بیٹھا ہوتا اور کہتا، ’’اگے پاواں، پچھے پاواں۔‘‘ اپنی طرح کی ایک واحد عورت شیما مجید جب نیم پاگل ہو گئی اور اردو بازار میں پبلشروں کے پاس جایا کرتی تھی تو اس کے ساتھ جو ٹھٹھہ بازی ہوتی تھی بیان نہیں کی جا سکتی۔
ہاتھ پھیرنا، چپے چڑھا، انگل کروانا، چٹکی کاٹنا، بس میں چڑھتی ہوئی لڑکی کے کولھوں یا سینے کو چھونا، سبھی کچھ ہمیشہ سے رائج رہا ہے۔ ویگن کے ڈرائیوروں کا ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھی عورت کے سینے یا کمر کو کہنی سے سہلاتے رہنا بھی عام بات ہے۔ سینے کو بمپر/ہیڈلائٹس اور کولھوں کو ٹائر ٹیوب کہنا ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔
اگر کوئی عورت یا لڑکی بپھر جاتی اور جوتی اتار لیتی تو یہ بھی باعث اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ پھر کوئی ایک دو لڑکے لڑکی کی مدد کرنے آگے آتے اور کسی اور کردار میں وہی ٹھرک جھاڑتے۔ اصل میں لڑکوں کی لڑائیوں میں بھی چھڑوانے والوں کا بھی بہت کردار ہوتا تھا۔ جس فریق کے ساتھ اپنی ہمدردی ہوتی چھڑوانے کے عمل اُس کی بجائے حریف کو پکڑ لیتے تاکہ وہ آخری ایک دو مکے مار لے۔
فلموں نے بھی یہی سکھایا۔ ہیرو کسی بارش میں بھیگتی لڑکی کو رات کے وقت اوباش اور بدصورت بدمست غنڈوں سے بچاتا اور دس پندرہ منٹ بعد وہ لڑکی اُسی نجات دہندہ کے ساتھ ’’پھنس‘‘ چکی ہوتی۔
اب ہمارے معاشرے میں کوئی کھیل کے میدان، کوئی تفریح، جذبات کی نکاسی کی اور کوئی راہ نہیں رہی۔ اوپر سے حکمران گروہ واشگاف طور پر عورت سے نفرت کرنے والا ہے۔ لہٰذا فرسٹریشن عروج پر ہے جس میں ہندوستانی/مقامی فلموں، ڈراموں اور تفریحی مواقع کی کمی کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔
جب آپ جی ٹی روڈ پر یا شہر کے اندر بھی سفر کریں تو 90 فیصد سے زائد شلواروں قمیضوں والے، پان تھوکتے، سیگریٹ پیتے، خصیوں پہ خارش کرتے، غذائی قلت کا شکار مرد ہی دکھائی دیتے ہیں جن کے لیے ہر راہ چلتی عورت ’’گشتی‘‘ اور ہر ممی ڈیڈی لڑکا گ ہے۔ اگر آج بھی ہنگامی بنیادوں پر اس ذہنیت کی اصلاح کرنے کی کوشش شروع کی جائے تو تب بھی ایک نسل سے زائد عرصہ لگ جائے گا۔ عورت سے کھیلنا اور اُسے محض تفریح کا ذریعہ سمجھنا ہمارا، بالخصوص لاہور کا کلچر بن چکا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر رویے حد سے بڑھی ہوئی مذہبیت، مرد کی فضیلت کے تصورات، عورت کی کمتر حیثیت اور
قانونی عدم نفاذ کا نتیجہ ہیں۔
یاسر جواد
No comments:
Post a Comment