ہمارے دوستوں نے افغانستان میں طلباء کرام کی فتوحات پر بغلیں بجا بجا کر سرخ کر لی ہیں، انہیں افغانستان میں اسلامی خلافت کی نشاۃِ ثانیہ نظر آنے لگی ہے.
اور میں سوچ کر ہی پریشان ہو جاتا ہوں کہ خدانخواستہ خلافت قائم ہو گئی تو کیا بنے گا. فرض کریں پاکستان میں دیوبندی حقانی ٹالیبانی خلافت قائم ہو جاتی ہے. اگلے دن اہلِ تشیع کا نان نفقہ بند کر دیا جائے گا. گستاخ صحابہ قرار دے کر اکثریت قتل کر دی جائے گی. بریلویوں پر پابندی لگا دی جائے گی. تمام مزارات اور عرس ختم کر دئیے جائیں گے. بارہ ربیع الاول اور محرم الحرام کے جلوسوں پر مکمل پابندی ہو گی. آذان سے پہلے درود شریف اور آذان کے درمیان علی کا نام لینے پر سزا دی جائے گی.
توبہ توبہ..
مذہب مسلک کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور کھیلتے کھیلتے پیسہ بنانا ہماری قومی عادت ہے اور جو پیسہ بنانے اس فیلڈ میں نہیں آتا اس کے اغراض و مقاصد مزید بھیانک ہوتے ہیں. ہمارے علمائے کرائم کو ہی دیکھ لیں..
مولانا صاحب نے ہر قسم کی غیر نصابی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دے رکھا ہے. ان کے نزدیک تمام کھیل کود، فنون لطیفہ وقت کا ضیاع ہیں اور لہو و لعب کے زمرے میں آتے ہیں. شعر و شاعری ہو یا نظم و نثر، کہانی ہو یا افسانہ نگاری، موسیقی ہو یا ناچ گانا، فلم ہو یا ڈرامہ سیریل، پینٹنگ ہو یا سکلپچر غرض یہ کہ وہ تمام علوم و فنون جو انسان کے نفسی و جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث بن سکتے ہیں سختی سے ممنوع ہیں۔
میں تو سوچ کر ہی بیزار ہو جاتا ہوں کہ مولوی صاحب کا نفاذ شریعت ہو جاتا تو دنیا کیسی ہوتی؟؟؟
کوئی کھیل نہ ہوتا، کیونکہ یہ تو وقت کا ضیاع ہے کرکٹ، فٹبال، ہاکی، والی بال، ٹینس، سنوکر وغیرہ کچھ نہ ہوتا صرف پہلوانی، گھڑ سواری اور تیر اندازی ہوتی.. کھیل کے میدان ختم کر دئیے جاتے ان کی جگہ خانقاہیں تعمیر کر دی جاتیں..
شعر و شاعری نہ ہوتی، میر و غالب نہ ہوتے، اقبال و حالی نہ ہوتے، قمر جلالوی ہوتے نہ ہی جون ایلیاء ہوتے، خوشحال خان خٹک نہ ہوتے، بُھلے شاہ نہ ہوتے، لطیف بھٹائی نہ ہوتا وارث شاہ نہ ہوتا..
نظم و نثر نہ ہوتی، طنز و مزاح نہ ہوتا ابن انشا نہ ہوتا پطرس بخاری نہ ہوتا، مستنصر حسین تارڑ ہوتا نہ مشتاق احمد یوسفی ہوتا، کرشن چندر ہوتا نہ منشی پریم چند ہوتا، سعادت حسن منٹو ہوتا نہ بانو قدسیہ اور عصمت چغتائی ہوتیں...
فلمیں نہ ہوتیں ہیرو ہیروئین نہ ہوتے، نہ دلیپ کمار ہوتا نہ مدھوبالا ہوتی، نہ امیتابھ بچن ہوتا نہ ہیمامالنی ہوتی، نہ محمد علی ہوتا نہ وحید مراد ہوتا..
میوزک نہ ہوتا، گانے نہ ہوتے غزلیں نہ ہوتیں، تان سین نہ ہوتا، امیر خسرو نہ ہوتا، نصرت فتح علی خان نہ ہوتا، لتا ہوتی نہ مُکیش ہوتا، جگجیت سنگھ نہ ہوتا مہدی حسن نہ ہوتا..
ہمارے ہاں تو بچوں کو بچپن سے ہی سکھا دیا جاتا ہے کہ شعر و شاعری، افسانہ نگاری، ڈرائنگ وغیرہ وقت کا ضیاع ہے اس سے بہتر ہے کہ زکر اذکار میں وقت کارآمد بنانا جائے. جبکہ تصویر کشی، میوزک اور رقص تو سراسر حرام اور فحاشی ہے. اداکاروں کو بھانڈ میراثی اور کنجر کہا گیا یوں فن کو زلت کا استعارہ بنا دیا. مٹی اور پتھر سے کچھ بنانا تو ڈائریکٹلی بت پرستی کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا سنگتراشی تو قابلِ گردن زدنی جرم ٹھہرا..
یوں تخلیق کا گلا گھونٹ دیا گیا اور آج پاکستان کے پاس فنون لطیفہ کے زمرے میں کوئی بڑا نام نہیں ہے. ساری قوم انڈین گانے، انڈین فلمیں اور انڈین ڈرامے دیکھ رہی ہے، بلکہ پاکستانی چینلز بھی انڈینز کو کاپی کر رہے ہیں. انڈین فلمیں اور گانے پاکستان سے کروڑوں روپے کا بزنس کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی اپنی انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے.
شکر کہ دنیا پر مسلمانوں کا اسلام نافذ نہیں ہوا ورنہ تو ہم ایک سرد، خشک اور بورنگ دنیا میں سانس لے رہے ہوتے جہاں خوفناک صورت طالبان کی خلافت ہوتی، ہر طرف چیخ و پکار، گستاخ گستاخ، کافر کافر کے نعرے ہوتے اور زبانوں پر تالے ہوتے.
قمر نقیب خان
No comments:
Post a Comment