یہ حق افغانستان کے عوام کا ہے کہ وہ کس کو اپنا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ حق ہتھیاروں کے زور پر امریکا کا نہیں تھا تو یہ حق ویسے ہی ہتھیاروں کے زور پر کابل کا اب محاصرہ کیے ہوئے بھاری پگڑی والوں کا بھی نہیں ہے۔
لیکن یہ حق ہم نے دہائیوں سے نہیں ، صدیوں سے غصب ہوتے دیکھا ہے۔ افغانستان میں صرف طاقت کی کرنسی چلتی ہے۔ لوگ کیا کہتے اور کیا سوچتے ہیں، یہ اہم نہیں ہے اور نصف آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے، اس کی رائے اسی برقعے میں دم توڑ دیتی ہے جس میں گھٹا ہوا سانس لینا ہی اس کی زندگی ہے۔ افغانستان کی عورت کی رائے اور شناخت دونوں بے نشاں ہیں ، بے چہرہ ہیں۔ کبھی کبھی اس دشت ادبار میں کچھ بارشوں کے وقفے آئے ہیں لیکن پھر وہی باد سموم اپنا ڈیرہ جما لیتی ہے جس کا ایک روپ آج کابل کے بازاروں میں پھر رہا ہے۔
سقوط کابل ووٹ کی پرچی پر نہیں ، بندوق کی نوک پر ہوا ہے اور اسکی خوشیاں منانے والے بھی دلیل سے نہیں ، بندوق سے ہلاک ہونے کو ترجیح دینے والے ہیں۔ کس کس کا نام لیں۔
یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ اے پی ایس کو خون سے پینٹ کرنے والے بھی انہی کے ہم نام تھے۔ جس نظام کے وہ نام لیوا تھے، کل سے وہ افغانستان کا مقدر ہو گا۔ اپنی صفوں میں موجود ان لوگوں کو پہچان لیجیے۔ یقین رکھیے کہ ان کا بس چلتا اور انہیں اپنی بوٹیاں نوچ لیے جانے کا ڈر نہ ہوتا تو یہ بھی قاتلوں کے ترجمان کی طرح اے پی ایس سانحے کی بھی تاویلیں پیش کرنے سے ذرا نہ چوکتے۔ یہ قاتلوں کے مداح، آزادی رائے کے ناقد، جنس زدہ، وحشی قلم اور میڈیا سنبھالے ہوئے طے شدہ امور کے نقیب آفت گر آج خوش ہیں۔ اور اس دن تک یہ خوش رہیں گے جب ان کے بچے ذبح ہوں گے، جب ان کی عورتوں کو کھلے میدان میں سنگسار کیا جائے گا۔
افغانستان میں لاشوں کے اوپر ایک اور شیطانی قصر حکومت تعمیر ہو رہا ہے۔ ہمارے دانشورانِ امت اپنی مزدوری یہیں بیٹھے انجام دے رہے ہیں۔ وحشت کا رقص برہنہ ادھر دیکھ لیجیے، جہالت کا ننگا ناچ تو ہماری اپنی گلیوں میں ہو رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment