افغانستان کی صورتحال گھمبیر اور پیچیدہ ہوچکی ہے۔ جس طریقے سے طالبان نے فتوحات حاصل کی ہیں، اس پر امریکی میڈیا میں کافی بحث مباحثہ ہورہا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ امریکہ جس افغان آرمی کی تربیت کرتا رہا ہے وہ کسی کام نہ آسکی۔ یہ بتایا جارہا ہے کہ افغان آرمی میں زیادہ تر لوگ اچھی تنخواہوں کےلیے بھرتی ہوئے تھے۔ ان میں لڑائی کا جذبہ بالکل نہیں ہے اور وقت آنے پر ہتھیاروں اور اسلحے سمیت فرار ہوگئے اور یہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ بڑی تعداد میں پاکستانی طالبان افغانستان پہنچ چکے ہیں ۔ گو پاکستانی ریاست پاکستانی طالبان کی مدد نہیں کررہی مگر ان پر پابندیاں بھی نہیں لگا رہی اور انہیں سرحد پار آنے جانے کی کھلی اجازت ہے۔ ذرائع کے مطابق جیش محمد، لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کے خیبر پختونخواہ ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں جتنے بھی مدرسے ہیں ان کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد افغانستان کے ان علاقوں میں موجود ہے۔طالبان کے ساتھ نہ صرف پاکستانی طالبان بلکہ القاعدہ اور داعش کے ارکان بھی جاملے ہیں۔
کچھ صحافیوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ چند ایک جگہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستانی طالبان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے تو فورسز پر حملے بھی ہوئے ہیں۔ چینی انجنئیر پر حملے بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے وہ بے بس ہیں۔
امریکہ یا مغرب کو طالبان سے زیادہ القاعدہ اور داعش کے دوبارہ ایکٹیو ہونے کی تشویش ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ، برسلز اور برطانیہ میں مختلف سطحوں پر اجلاس ہورہے ہیں ۔ اس کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔امریکہ نے یواین او کو کہا ہےکہ اگر طالبان کابل پر قبضہ کرتے ہیں تو ان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ طالبان کابل کا محاصرہ کرکے جنگ بندی کا اعلان کرکے اپنی ٹرمز پر کابل حکومت سے مذاکرات کا اعلان کریں گے۔ ان کا پہلا مطالبہ تو یہ ہے اشرف غنی استعفیٰ دے۔ طالبان کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی جائے اور پھر طالبان فیصلہ کریں گے کہ کسی کو کتنی نمائندگی دی جائے۔
ایک اہم بات اور ہے کہ چونکہ اس وقت لڑائی جاری ہے اور طالبان کے بےشمار گروہ اس میں حصہ لے رہے ہیں اور اس وقت متحد ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق طالبان لڑائی کے وقت ہی متحدہوتےہیں جب امن قائم ہوتا ہے تو پھر یہ آپس میں لڑائی شروع کردیتے ہیں۔ جب جنگ بندی ہوگی تو پھر طالبان کے اندر اقتدار میں کتنا حصہ لیا جائے کی لڑائی بھی لڑی جائے گی۔
امریکہ اور یورپی ادارے پاکستان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔امریکہ نے آئی ایس آئی کے چیف اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کے حالیہ دورے میں ان کو ایک ڈوزئیر دیا ہے کہ آپ کی ریاست طالبان کی بھرپور امداد کررہی ہے۔ کئی پاکستانی فوجی افسر جذبہ جہاد سے سرشار طالبان کی بھرپور رہنمائی کررہے ہیں ۔ افغانستان کے ساتھ جتنے بھی ممالک کی سرحد ملتی ہے انھوں نے اپنے بارڈر بند کر دیئے ہیں لیکن پاکستان نے بند نہیں کیا۔
پاکستانی ریاست دفاعی گہرائی حاصل کرتے کرتے اب اس لڑائی میں سینڈوچ بن چکی ہے۔طالبان جتنی بھی فتوحات حاصل کرلیں جب تک اقوام متحدہ اسے تسلیم نہیں کرے گی پاکستان کی مشکلات کم ہونے والی نہیں۔
شعیب عادل
No comments:
Post a Comment