کچھ برس ہوئے میں امریکہ کی کئی ریاستوں سے اپنی کار میں سفر کرتا تھا۔ چار ہزار کلومیٹر کے سفر میں ایک پولیس کار نظر نہیں آئی۔ نیویارک، لاس ویگاس، سان فرانسسکو اور لاس اینیجلیس جیسے شہروں میں ایک ناکہ نہیں ملا۔ ڈزنی لینڈ اور یونیورسل اسٹوڈیو کے باہر کسی نے میری کار کا ٹرنک اور انجن نہیں کھلوایا۔ کسی شاپنگ سنٹر کی پارکنگ میں گارڈ نہیں تھا کہ گاڑی کے نیچے شیشہ پھراتا اور بارود کی بو سونگھ لینے والی جادو اثر نالی کے ساتھ چہار طرف طواف کرتا۔ بذریعہ سڑک سفر کا یہی تجربہ یورپ کے دس بارہ ملکوں میں بھی دہرایا۔ پھر وہی ناکوں کے بغیر سڑکیں، گارڈ کے بغیر پارکنگ، پولیس کی تلاش میں کئی کئی دن بھٹکتی نظریں۔ اسلام کے نام لیوا شدت پسندوں سے خطرہ انہیں بھی ہے اور ہم سے بڑھ کر ہے پر وہ جانتے ہیں کہ خود کش حملہ آور ناکے سے نہیں رکتا، وارننگ کے خطوط جاری کرنے سے دہشت گردوں کی راہ کھوٹی نہیں ہوتی اور واک تھرو گیٹ منصوبہ بندی نہیں پکڑ سکتے۔
دنیا بدل گئی ہے۔ ایک چیز ہوتی ہے انٹیلی جنس جو فون ٹیپ کرنے، لوگوں کا تعاقب کرنے، مخبر پالنے اور گروہوں کو باہم پیکار کرنے سے آگے نکل آئی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا ہے۔ ڈیٹا بیس اور سیٹلائٹ کی دنیا ہے۔ ہم ناکوں پر کھڑے ٹرک اور موٹر سائیکلیں روکتے رہے۔ ویلنٹائن ڈے پر پھولوں کی دکانوں پر چھاپے مارتے رہے اور بسنت کے دن سیڑھیاں لگا کر گھروں کی چھتیں سر کرتے رہے تو پھر وہی ہوتا رہے گا جو ہوتا آ رہا ہے۔ ذہن بدلنے میں ابھی وقت ہے۔ ابھی ہمارے رہنما فیصلہ نہیں کر پائے کہ دہشت گرد ان کے دوست ہیں یا دشمن، حریف شہید ہے یا مقتول، ملزم کو گرفتار کرنا ہے یا نظر بند، کتابوں میں درس جہاد دینا ہے کہ محبت کے سبق پڑھانے ہیں۔ سانپ پالتے ہی رہنے ہیں یا کبھی مارنے بھی ہیں، جنگ کرنی ہے کہ معاہدہ امن، ووٹ اہم ہیں کہ اصول، کافر کافر کا نعرہ اچھا ہے یا امن کی آشا۔
ابھی ذہن بدلنے میں دیر ہے بھیا۔ تب تک کچھ تو کرو سجن۔ زندگی کا معاملہ ہے۔ فوج، پولیس اور ایجنسیوں کو پچاس سال پرانے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنا پڑے گا۔ یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی۔ فارنسک تجزیے، معلومات کی کوڈنگ، نئے سوفٹ ویر، سیٹلائٹ مانیٹرنگ، انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی جامع ایپلیکیشنز اور سائنسی بنیادوں پر تربیت کے ساتھ ساتھ ایک فعال اور جدید اینٹی ٹیررسٹ ادارے کی تشکیل، تعلیم کے نام پر واقعی تعلیم، برساتی مدارس کی بندش اور ریاست اور دین کی دائمی جدائی کے بغیر ہم سیکیورٹی کا ہر بیانیہ ہارتے چلے جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment