یہ مرثیہ نہیں ہے
میں لاپتہ ہوں
اور میرے دوست
میرے مرنے کے منتظر ہیں
وہ چائے پیتے ہوئے
میری صفات کے بارے سوچ رہے ہیں
جن کا ذکر
وہ میرے مرثیے میں کریں گے
میں نیک آدمی تھا
میں نے کبھی احتجاج نہیں کیا
احتجاج ادیبوں کے منصب سے فرو تر ہے
اس میں نعرے لگائے جاتے ہیں
جو ادب نہیں ہوتے
حکومت کو انہیں بے ادبی سمجھتی ہے
یوں تو میںں نے پچاس لاپتہ ہونے والوں کے بارے
ساڑھے تین نظمیں بھی کہی ہیں
لیکن وہ اس بارے بحث کریں گے
کہہ ان نظموں کا ذکر مرثیے میں کیا جائے یا نہیں
یہ احتجاج کی طرح
ادب کے منصب سے گرا ہوا کام ہے
انہوں نے چائے منگوا لی ہے
جسے پی کر وہ میرا مرثیہ لکھیں گے
مرثیے پر داد حاصل کی جا سکتی ہے
جو سراسر ادبی ہوتی ہے
انہٰیں کچھ ایکٹوسٹ بھی مل جائٰیں
تو وہ میری گمشدگی پر احتجاج کا ٹھیکہ دے سکتے ہیں
انہوں نے اس ٹھیکے کے اخراجات کے لیے
حکومت کے پاس درخواست جمع کروا دی ہے
حکومتی امداد سے احتجاج کے لیے درکار
کاغذ اور قلم خریدے جائیں گے
اور اس چائے کی قیمت ادا کی جائے گی
جو وہ اس احتجاج کی منصوبہ بندی کے دوران پئیں گے
چائے سے مجھے یاد آیا
کہ وہ اسی میز پر بیٹھے میرے غم میں دبلے ہو رہے ہیں
جس پر میں ان کے ساتھ چائے پیاکرتا تھا
لاپتہ ہونے والوں کا
تعزیتی ریفرنس معقد نہیں کیا جاتا
ورنہ وہ مجھ پر مقالے لکھ چکے ہوتے
اس نہ ہونے والے تعزیتی ریفرنس کے بعد چائے کی رقم
میرے لواحقین ادا کر سکتے ہیں
سو اس کے بارے سوچنے کی ضرورت انہیں نہیں پڑے گی
وہ چائے پی لیں تو خدا کا شکر ادا کریں گے
کہ لوگوں کے مرنے پر انہیں اس کے خلاف احتجاج نہیں کرنا پڑتا
صرف مرثیہ لکھنے اور چائے پینے جیسی ادبی سرگرمیوں میں
ملوث ہونا کافی ہوتا ہے
ویسے چائے کی جگہ اگر کافی مل سکے
تو احتجاج کو ادبی قرار دیا جا سکتا ہے؟
اگر ایسا ہو
تو میرے لواحقین
اس کے لیے بھی پیسے دینے کو تیار ہوں گے۔۔۔
سلمان حیدر
No comments:
Post a Comment