Saturday, 11 September 2021

کیا اخلاقیات کے لیے مذہب ضروری ہے؟  23/08/2020 ڈاکٹر خالد سہیل 





کیا اخلاقیات کے لیے مذہب ضروری ہے؟
 23/08/2020 ڈاکٹر خالد سہیل 

ایک شام مجھ جیسے پاپی کو ایک نیک اور پارسا دوست فاطمہ کا فون آیا۔ موسم کی حرارت اور ڈونلڈ ٹرمپ کی گمراہ کن قیادت کی شکایت کے بعد کہنے لگیں
”آج میں آپ سے ایک سنجیدہ سوال پوچھنا چاہتی ہوں“
”فرمائیں۔ جو سوال چاہے پوچھیں“ میں نے جواب دیا

کہنے لگیں، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں ایک پکی مسلمان ہوں۔ میں خدا، پیغمبروں، آسمانی کتابوں، قیامت اور جنت دوزخ پر ایمان رکھتی ہوں۔ میرا مذہب زندگی کے ہر موڑ اور ہر موقع پر میری رہنمائی کرتا ہے اور میں ایک اچھی مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتی ہوں۔ لیکن وہ تمام لوگ جو کسی خدا اور مذہب پر ایمان نہیں رکھتے وہ نیکی بدی، اچھے برے، خیر و شر میں کیسے تمیز کرتے ہیں؟ آپ کے خیال میں کیا اخلاقیات کے لیے مذہب ضروری ہے؟

میں نے ایک گہری سانس لی اور کافی دیر سوچنے کے بعد کہا، آپ کا یہ سوال اتنا اہم اور سنجیدہ ہے کہ اس پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن میں اس سوال کا مختصر جواب دوں گا۔ میری نگاہ میں ایک بچہ جس خاندان، سکول اور معاشرے میں پرورش پاتا ہے وہ اس معاشرے کی روایت، مذہب اور اخلاقیات پر اندھا ایمان لے آتا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے بچے مسلمان، ہندوؤں کی بچیاں ہندو، یہودیوں کے بیٹے یہودی اور عیسائیوں کی بیٹیاں عیسائی ہوتی ہیں۔

مسلمانوں کے بچے سور کو حرام اور گائے کو حلال سمجھتے ہیں لیکن ہندوؤں کے بچے گائے کو مقدس سمجھ کر اس کا گوشت نہیں کھاتے۔
میں مذہب کے پیروکاروں سے پوچھتا ہوں کہ اگر وہ کسی اور ملک میں، کسی اور معاشرے میں، کسی اور مذہب میں پیدا ہوتے تو کیا پھر بھی وہ اپنے موروثی مذہب کے پیروکار ہوتے؟

مذہب اخلاقیات کے ساتھ گناہ و ثواب اور جنت دوزخ کا تصور بھی جوڑ دیتا ہے۔

 
بہت کم لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہر مذہب کسی کلچر میں آیا تھا اور ہر آسمانی صحیفہ کسی زبان میں لکھا گیا تھا۔ وہ کلچر اس مذہب سے اور وہ زبان اس آسمانی کتاب سے پہلے موجود تھی۔ اس مذہب اور اس آسمانی کتاب نے اس کلچر کی چند اچھی اور بری روایات کو اپنایا اور پھر انہیں مقدس بنا دیا۔ مقدس بنانے کا نقصان یہ ہوا کہ اب اس پر سنجیدہ اور غیرجانبدار مباحثہ نہیں کیا جا سکتا ورنہ فتویٰ لگنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

پچھلے تین ہزار سال میں انسانی شعور کے ارتقا کی وجہ سے انسانیت نے مذہبی روایات سے روحانی روایات اور روحانی روایات سے سیکولر روایات کا سفر طے کیا ہے۔ اس ارتقا کی وجہ سے گناہ کے تصور کی جگہ جرم کا تصور پیدا ہوا۔ مختلف ممالک نے ایسے سیکولر قوانین بنائے جو سب شہریوں کے لیے برابر تھے۔

مختلف مذاہب کا تعلق چونکہ پدر سری نظام سے تھا اس لیے مردوں کے حقوق و مراعات عورتوں سے زیادہ تھے اسی طرح مذہبی اکثریت کے حقوق دوسرے مذاہب کی اقلیتوں سے زیادہ تھے۔ سیکولر ممالک نے انسان دوستی کی روایت کو اپنایا اور تمام شہریوں کو، جن میں عورتیں اور اقلیتیں بھی شامل تھیں، برابر کے حقوق دیے۔

انسان کے ارتقا کی وجہ سے انسان میں ضمیر کی روشنی پیدا ہوئی اور اس میں انفرادی شعور کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور بھی پیدا ہوا جن کی روشنی میں اس نے انسان دوستی کی روایت کو پہلے جنم دیا اور پھر اپنایا۔ اس کی ایک مثال اقوام متحدہ کا CHARTER OF HUMAN RIGHTS۔ ہے۔ پچھلی نصف صدی سے اقوام متحدہ کا سب ممالک کے رہنماؤں کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے قوانین ان انسانی حقوق کی روشنی میں بنائیں۔

مروجہ مذاہب عالم سے بہت پہلے چین کے انسان دوست فلاسفر کنفیوشس نے انسانیت کو GOLDEN RULE کا تحفہ دیا تھا۔ سنہری اصول کے مطابق ہمیں دوسرے انسانوں سے ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں۔

اگر ہم اکیسویں صدی کے سات ارب انسانوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ چار ارب انسان مذہبی روایات کے، دو ارب انسان روحانی روایات کے اور ایک ارب انسان سیکولر، سائنسی اور انسان دوستی کی روایات کے پیروکار ہیں۔ اس گروہ میں پچھلی دو صدیوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ وہ جدید سیکولر اور انسان دوست فلاسفر ہیں جنہوں نے سائنس، طب نفسیات اور فلسفے کے جدید علوم کا مطالعہ کیا اور انسانی زندگی کے راز جانے۔ ایسے فلاسفروں میں چارلز ڈارون جیسے ماہرین بشریات، سگمنڈ فرائڈ جیسے ماہرین نفسیات، کارل مارکس جیسے ماہرین معاشیات، اور یووال ہراری جیسے ماہرین سماجیات شامل ہیں۔

انسان دوستی کی روایت میں ابراہم ماسلو، وکٹر فرینکل اور کارل روجرز جیسے ماہرین نفسیات بھی شامل ہیں جنہوں نے انسانی شعور اور لاشعور، روحانیات اور اخلاقیات کی گتھیوں کو سلجھایا۔ ان کا کہنا ہے
SPIRITUALITY IS PART OF HUMANITY NOT DIVINITY
جدید فلاسفروں اور طبیبوں نے انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے اصول بھی دریافت کیے۔

اس لیے اکیسویں صدی میں ہر انسان کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی زندگی مذہبی روایت کی، روحانی روایت کی یا سیکولر روایت کی روشنی میں گزارے۔

میں نے اپنی مذہبی دوست سے کہا کہ آپ جانتی ہیں کہ نظریاتی طور پر میں انسان دوست ہوں۔ میری نگاہ میں ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے ضمیر، اپنی عقل اور اپنے اعتقاد کے مطابق گزارے۔ میری نگاہ میں ہر انسان کا مذہب اس کا ذاتی مسئلہ ہے لیکن کسی بھی ملک یا قوم کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے عقائد اپنے شہریوں پر مسلط کریں۔

مذہب انسانوں کا ہوتا ہے ممالک کا نہیں۔ ہر ملک کے قانون کی نگاہ میں سب انسان برابر ہونے چاہئیں کیونکہ وہ سب اس قوم کے شہری اور دھرتی ماں کے بچے ہیں۔ یہی انسان دوستی کے فلسفے اور اخلاقیات کی اساس ہے۔

اس مکالمے کے بعد میری مذہبی اور پارسا دوست نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ اگر وہ مسلمان گھرانے میں نہ پیدا ہوتی تو اس کا مسلک اور مذہب کیا ہوتا؟ اور اس کی انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد کیا ہوتی؟

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry