Thursday, 30 September 2021

ڈبل شاہ اورگیلی دھوپ

ڈبل شاہ اورگیلی دھوپ
یوتھیوں کے لٸے ایک  عبرت ناک اور سبق آموز کہانی
 پانچ سو بندر اور ایک آدمی ساتھہ لئے  وہ ایک گاؤں پہنچ گیا، گاؤں کے باہر رک کر اس نے اپنے کارندے کو تاکید کی کہ وہ وہاں بیٹھ کرفی بندر سو روپے کے حساب سے بیچے۔ اسے بندروں کے ساتھہ گاؤں کے باہر چھوڑنے کے بعد وہ گاؤں میں آیا اور منادی کروا دی کہ جس کے پاس جتنے بندر ہیں وہ دو سو روپے کے حساب سے فی بندرخریدنے کے لئے آیا ہے۔  گاؤں کے لوگ خوش ہوگئے کہ باہر سو روپے میں بندر مل رہا ہے اور یہ بیوقوف ہم سے دو سو میں خریدنے کے لئے تیار ہے، گاوں کے لوگ دھڑا دھڑ اس کے آدمی سے سو روپے میں بندر خرید کراسے دو سو روپے فی بندر کے حساب سے اس شخص کو بیچتے رہے ۔ یوں ایک ہی دن میں تمام بندر بک گئے۔ جاتے ہوئے وہ شخص گاؤں والوں سے کہنے لگا ” تم لوگ دعا کرنا میرے بندر شہر میں اچھے داموں بک جائیں تو اگلی بار میں تم سے چار سو روپے فی بندر کے حساب سے خریدنے آوں گا“۔  یہ کہہ کر وہ  پانچ سو بندر لے کر گاؤں سے چلا گیا۔ کچھہ ہی دنوں کے بعد وہ واپس لوٹا۔ اس بار پھر اس نے اپنے آدمی سے کہا، ”تم بندروں کے ساتھہ گاؤں کے باہر ہی رکو اور اس بار فی بندر دو سو روپے کے حساب سے بیچنا“۔ اسے ہدایت دینے کے بعد وہ گاوں والوں کے پاس پہنچا اوران سے کہا،”آپ کی دعا سے شہر میں بندر اچھے داموں بک گئے ہیں اسلئےمیں دوبارہ لینے آیا ہوں جس کے پاس بھی بندر ہیں وہ لے آئے اس بار میں چار سو روپے فی بندر کے حساب سے خریدوں گا“۔ لوگ دھڑا دھڑ گاؤں کے باہر بیٹھے شخص سے دو سو روپے فی بندر کے حساب سے خرید کر اسے چار سو روپے کے حساب سے بیچنے لگے، اس بار گاوں کے باہر بیٹھے شخص کے چند گھنٹوں میں ہی سارے بندر بک گئے۔ سارے بندر وہ گاؤں والوں سے خرید چکا توجاتے ہوئے وہ ایک بار پھر گاؤں والوں سے مخاطب ہوا، ”آپ لوگ دعا کرنا کہ اس بار بھی شہر میں بندر اچھے داموں بک جائیں تا کہ اگلی بار میں آپ سے آٹھہ سو روپے فی بندر کے حساب سے خرید سکوں ”۔ ۔کچھہ عرصہ تک یونہی یہ سلسلہ چلتا رہا اور وہ ہر بار قیمت بڑھا کر گاؤں والوں سے بندر خریدتا رہا۔ اس دوران صرف ایک تبدیلی آئی کے اب بندر والا ایک دن پہلے گاؤں کے باہر آکر بیٹھہ جاتا اور لوگ ایڈوانس میں ہی بندر خرید کر رکھتے کہ جیسے ہی وہ خریدار آئے گا اسے بیچ دیں گے، اور وہ بھی اگلے ہی روز آجاتا. یوں یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ قیمت دس ہزار فی بندر تک پہنچ گئی، اس بار وہ جاتے ہوئے بولا کہ میرا بہت بڑا سودا طے ہوا ہے اگلی بار میں آپ سے زیادہ تعداد میں بندر لینے آوں گا اور آپ لوگوں سے فی بندر بیس ہزار کے حساب سے خریدوں گا۔ اس بار اس نے ایک دن پہلے اپنے بندے کو دس گنا زیادہ بندر لے کر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ اس بار تم پندرہ ہزار فی بندر کے حساب سے بیچنا، جیسے ہی اس کا آدمی گاؤں کے باہر پہنچا لوگ پہلے سے ہی اس کے منتظر تھے۔ کسی نے اپنی بیٹی کے جہیز کا زیور بیچا، کسی نے گھر گروی رکھہ کر پیسے لئے، کسی نے زیورات بیچ کر پیسے جمع کئے تو کسی نے زمین بیچ کر پیسے اکھٹے کئے غرض یہ کہ ہر شخص نے اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ تعداد میں بندر خرید لئے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ ہزار فی بندر کے حساب سے گزشتہ تعداد سے دس گنا زیادہ بندر چند ہی گھنٹوں میں بک گئے۔ ایک دن گزرا۔ وہ نہیں آیا۔ دو دن گزرے وہ نہیں آیا، تین دن گزر گئے وہ نہیں آیا، یوں دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے مگر وہ  لوٹ کر نہیں آیا، آتا بھی کیسے؟ وہ اپنے ساتھی اور پانچ سو بندروں سمیت ایک نئے گاؤں کا رخ کر چکا تھا جہاں اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اس گاؤں میں اتنے انسان نہیں رہتے جتنے بندر رہتے ہیں، کیوں کہ انسان تو قرض کے بوجھہ تلے دب کر مرچکے تھے، کسی کی بیٹی کا جہیز گیا، تو کسی کی زمین گئی، تو کسی کاگھر۔
 لوگوں کی اکثریت یہ صدمہ برداشت نہیں کر پائی، جو بچ گئے تھے وہ ہر وقت بندروں کواپنے سامنے بٹھا کرخود سے یہ سوال کرتے رہتے تھے کہ ان بندروں اور ہم میں کیا فرق ہے؟
 ”میرے حساب سے تو بندر اور انسان میں یہ فرق ہوتا ہے کہ بندر لالچی نہیں ہوتا“
 (خہ پوہیگم)
ماخوذ از
گیلی دھوپ

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry