ودھو ونود چوپڑا کی شکارا ہو، وشال بھردواج کی حیدر یا اعجاز خان کی حامد۔۔۔ بہت سے ہندوستانی فلمکاروں نے کشمیر کے انسانی المیے پر بات کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بارڈر کے دونوں جانب اور بالخصوص میڈیا میں اکثریت ان سنگ دلوں کی ہے جو کشمیر کی زمین اور پانی سے آگے کچھ دیکھ نہیں پاتے۔ ستر سالوں میں کشمیر طرفین کے سیاستدان اور ملٹری جنتا کے لیے ایک منافع بخش کاروبار رہا ہے اس لیے کوئی نہیں چاہتا کہ وحشت اور درد کا یہ کاروبار ٹھہر جائے۔ کچھ برس پہلے یہ کچھ خون کی بوندیں منٹو کی یاد میں کاغذ پر ٹپکی تھیں۔ دل کرے تو پھر سے پڑھ لیجیے گا ۔ ہم لوگ رو ہی سکتے ہیں اور تو کچھ بس میں نہیں ہے۔
ٹیٹوال کے پل پر قید کتے
حاشر ابن ارشاد
ٹیٹوال کے پل کے نیچے سے وقت کا بہت سا نیلم گزر گیا ہے پر کتے ابھی بھی پل پار نہیں جا سکے ۔ انہیں اس سے مطلب نہیں کہ کس پار اترنا ہے ۔ انہیں تو بس کنارا چاہئے۔ ہر پل کی طرح ٹیٹوال کے پل کے بھی دو سرے ہیں۔ ایک پر ترنگا لہرا رہا ہے۔ دوسرے پر چاند تارا روشن ہے۔ کتوں کو رنگ صاف نظر نہیں آتے۔ انہیں دھانی اور گیروے میں فرق پتہ نہیں چلتا ۔ ایک کتے نے ایک دفعہ چاول کی فصل دیکھی تھی ۔ اسے یاد ہے کہ زردی کیسے دن گزرنے پر سبز ہوتی تھی پھر اس سے سرمئی رنگ کیسے پھوٹتا تھا پر یہ سارے رنگ ایک ہی ڈنٹھل پر ٹہرتے تھے ۔ کبھی کبھی تو ایک ہی وقت میں۔ رنگوں کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں تھا ۔ پر یہاں تو رنگ بھی نفرت کا استعارہ بنے ڈنڈوں پر لہراتے ہیں ۔ شاید یہ ڈنڈوں کی صحبت کا اثر ہے، بوڑھا کتا سوچتا ہے پر اسے پوری بات سمجھ نہیں آتی۔ سمجھ آتی تو کتا تھوڑی کہلاتا ۔ پل پر کتوں کا ہجوم بڑھ گیا ہے۔ کتے کبھی ایک طرف جاتے ہیں ۔ کبھی تھوتھنیاں اٹھائے دوسری سمت دوڑتے ہیں۔ پر راستہ نہیں پاتے۔ بھاری جنگلے بند ہیں اور ان کے پیچھے صوبیدار اور جمعدار شست باندھے بیٹھے ہیں۔
پل کے دونوں جانب دو لاشے پڑے ہیں ایک کو چپڑ جھن جھن کہتے ہیں ۔ دوسرے کو پٹر سن سن ۔ سنا ہے سعادت حسن منٹو کے وقت میں ایک ہی لاشہ ہوتا تھا پھر دو ہو گئے ۔ شاید ان میں سے ایک دوسرے کا بھوت ہے پر دونوں سے ایک سی بساند اٹھتی ہے۔ اتنے برسوں میں ان کو گل کر پانی ہو جانا تھا پر کتے تھے، ڈھیٹ پنا موت کے بعد بھی قائم رہا ۔ ابھی بھی وہیں پڑے ہیں جہاں ستر برس پہلے گرے تھے ۔ پل کے کتے صرف ان کی نسل سے نہیں ہیں ۔ برسوں میں اتر، دکھن ، پورب ، پچھم اور ان دشاؤں سے جن کے نام ابھی رکھے نہیں گئے ، ان سب سے ہر نسل، ہر رنگ اور ہر قامت کے کتے ٹیٹوال آن پہنچے ہیں۔ سب کتے ایک طرح سے بھونکتے بھی نہیں ہیں ۔ کچھ خاموش طبع کتے ہیں کبھی کبھی اوف اوف کرتے ہیں پھر خود ہی سہم کر خاموش ہو جاتے ہیں ۔ کچھ کتے اونچے سروں میں بھونکتے ہیں پر دوسرے کتوں کے محض گھورنے پر چپ کر جاتے ہیں۔ کچھ کتے مسلسل بین کی کیفیت میں ہیں ۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ بھونک رہے ہیں یا رو رہے ہیں پر دوسرے کتے اس پر کان نہیں دھرتے ۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ جو کتے ایک ساتھ آئے تھے وہ بھی اب مل بیٹھنے سے منکر ہیں۔ان کتوں میں سے کچھ ادھر سے آئے ، کچھ ادھر سے ۔ پل تک تو راستہ صاف تھا ۔ اب بھی ہے۔ پر دونوں جنگلے صرف پل کی طرف کھلتے ہیں۔ پل پر آنے کا رستہ ہے ، جانےکا نہیں ہے۔ سمتوں کے قیدی اب پل کے قیدی ہیں۔
کتے بھوکے ہیں ۔ پیاسے ہیں ۔ دریا بہت نیچے ہے۔ پانی نظر تو آتا ہے پر زبان اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ جھنجلائے کتے ایک دوسرے پر غراتے ہیں۔ کچھ لڑ پڑتے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں کہ وہ کیوں لڑ رہے ہیں۔ بھوک ذہن ماوف کر دیتی ہے۔ سورج سوا نیزے پر چمکتا ہے تو دماغ گرم ہوجاتا ہے۔ ٹیٹوال پر ایک ہی موسم ہے برسوں سے ۔ تپتا جلتا موسم ۔ نہ بادل ہیں نہ بارش ہے نہ خنک راتیں ہیں نہ صبا کی سرسراہٹ ۔ ہر طرف سبز پوش پہاڑ تو ہیں پر نارسائی کی خلیج کے پرے ۔ انہیں دیکھ کتوں کا دیوانہ پن اور عود آتا ہے۔ وہ جنگلوں کی طرف لپکتے ہیں ۔ کچھ جنگلوں کو بھنبھوڑنا شروع کر دیتے ہیں پر منہ زخمی کر کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ باقی پھر آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ روز کچھ کتے جان ہار دیتے ہیں۔ کتوں نے اب لاشوں کو نیلم برد کرنا سیکھ لیا ہے۔ وہ مل ملا کر لاش کو پل سے دھکیل دیتے ہیں ۔ لاش پل پر رہے تو یاد رہتا ہے کہ لڑنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے پر دریا میں بہہ جائے تو نئی لڑائیوں کے اکھاڑے اور نئی لاشوں کے ڈھیر کی جگہ بن جاتی ہے ۔ رات لمبی ہوتی ہے۔ ہر رات اندھیرے میں نجانے کہاں سے اور کتے پل پر آ جاتے ہیں۔ پل پر موجود کچھ کتے چاہتے ہیں کہ اور کتے اس پل کے اسیر نہ بنیں پر ساری راتیں اماوس کی ہیں اور کچھ ایسا آسیب ہے ٹیٹوال میں کہ کتے بھی اندھیرے میں دیکھ نہیں پاتے ۔ سو کب اور کتے آجاتے ہیں پتہ ہی نہیں لگتا ۔ رات کی تاریکی میں کتے کبھی اور گھبرا جاتے ہیں ۔ پھر لڑتے ہیں ۔ پھر مرتے ہیں اور قصہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔
پل کے ایک جانب صوبیدار ہمت خان کے خاندان کے جوان کھڑے ہیں تو دوسری جانب جمعدار ہرنام سنگھ کے پریوار کے کڑیل۔ کتوں کو ان کی شکلیں ایک سی لگتی ہیں۔ ہر ہر مہا دیو یا اللہ اکبر کا نعرہ نہ لگے تو الجھن اور بڑھ جاتی ہے۔ دن بھر پل کے چکر لگاتے کتے بھول جاتے ہیں کہ وہ خود کس طرف سے آئے تھے ۔ بہتوں کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ آئے کیوں تھے۔ کڑیل اور جوان دونوں ہمہ وقت اس تماشے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ جس دن لڑائی میں افاقہ ہو ، کسی ایک سمت سے ایک ہڈی اچھال دی جاتی ہے اور پھر وہ رن پڑتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ ۔ ہنستے ہنستے کڑیل اور جوان اپنی مچانوں سے گر پڑتے ہیں ۔
دونوں طرف بندوقیں ہیں ۔ پر بندوقوں کا رخ زیادہ تر کتوں کی ہی طرف رہتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی حوصلہ مند کتا جنگلا پھلاند کرپل کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے پر ایسا کم کم ہوتا ہے ۔ عام طور پر آگے والے کتے کو پیچھے والے خود ہی کھینچ لیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر اس کو گرا لیں گے تو ان کا راستہ بن جائے گا۔ پر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پیچھے والے بھی یہی سوچتے ہیں۔ اس ساری مارا ماری میں پھر بھی کبھی کبھی کوئی کتا آزادی کی جست بھر ہی لیتا ہے پر صوبیدار اور جمعداروں کے پریواروں میں ایک خاموش معاہدہ ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کتا پل کے کس جانب سے آیا تھا۔ وہ جہاں سے جب بھی باہر نکلے گا تو جس کی بندوق کی نال اس کے زیادہ قریب ہو گی وہیں سے گولی چلے گی۔ دونوں جانب سے ایسے کتوں کو ڈھیر کرنے کا اسکور تقریبا برابر ہے . پر صوبیدار ہمت خان کا خیال ہے کہ اب جمعداروں کا نشانہ کمزور پڑ رہا ہے۔
نشانے کمزور ہوں یا تاک کے بیٹھیں ۔ گولیاں کم ہیں ، کتے زیادہ ہیں پر کتوں کو یہ بات پتہ نہیں ہے۔ تو بس یہ قصہ ایسے ہی چلتا رہے گا اور کوئ بعید نہیں کہ ایک دن کتے اتنے بڑھ جائیں کہ پل بوجھ نہ سہار پائے ۔ پل بھی دریا برد ہو جائے اور سب کتے بھی ۔ رہ جائیں گے کناروں پر
No comments:
Post a Comment