پیر بابا پتر شاہ اور چوہدری کے اختیارات
ہمارے گاوں میں ایک پیر آتا تھا ۔ یہ پاکپتن شریف سے آتا تھا ۔ اُس کا نام بابا پُتر شاہ تھا ۔ اِس نام کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ بانجھ عورتوں کو بیٹے دیتا تھا ۔ خود اُس کے ہاں کوئی اولاد اور گھر گھاٹ نہیں تھا ۔ اِس کا سبب وہ یہ بتاتا کہ ساری اولادیں وہ دوسروں کو بانٹ چکا تھا حتیٰ کہ اپنے حصے کی اولاد بھی۔ البتہ اُس سے کبھی کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ اب اگر آپ کی اپنی زنبیل خالی ہو چکی ہے تو مزید عورتوں کو بیٹے کہاں سے دیتے ہو ۔
یہ پیر بابا اپنے ساتھ دو مریدنیاں اور دو مرید رکھتے تھے جو اُس کی کرامات لوگوں تک پہنچاتے تھے ۔ ایک میردنی بہت ہوشیار تھی اُس کا خاوند بھی مریدنی کا مرید تھا ۔ یہ مریدنی تو اب اُس کی خلیفہ بھی بن چکی تھی ۔ اور اکثر معجزے اب وہ مریدنی ہی دکھاتی تھی ۔ ہاں اگر کہیں اُس کی طاقت سے کوئی چیز باہر ہو جاتی تو پیر بابا آگے بڑھتا ۔ رفتہ رفتہ اُس مریدنی کو بھی لوگوں نے پیرنی کہنا شروع کر دیا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ پیرنی پیر بابا سے آزاد ہو گئی ۔ اور لوگوں کو خود ہی مرادیں دینے لگی ۔ اُنھی دِنوں کی بات ہے جب یہ پیرنی ابھی پیر بابا سے الگ نہیں ہوئی تھی لیکن کرامات دکھانا شروع کر دی تھیں۔ ہوا یہ ایک عورت اور مرد پیر پتر شاہ کے ہاں آئے اور ایک بیٹا پیدا ہونے کی التجا کی ۔ پیر بابا نے پیرنی سے کہا ، اٹھ کر عورت کو کمرے میں لے جا ۔ وہ اُسے کمرے میں لے گئی ۔ اور تھوڑی دیر بعد وآپس آئی اور بولی تین دن بعد دعا قبول ہو گی ۔ پیر بابا نے عورت کے خاوند سے کہا ، اِسے تین دن بعد لانا ۔ تین دن بعد پیرنی اور پیر دونوں اُسے کمرے میں لے گئے اور تھوری دیر دم درود کرنے کے بعد عورت کو وآپس لے آئے اور خاوند کو اُس کا بازو تھما دیا ۔ قدرت خدا کی کچھ اوپر چالیس دنوں بعد عورت کے ہاں اُمید پیدا ہو گئی ۔ اتنے عرصے میں پیر اور پیرنی کی راہیں بھی جدا ہو گئی تھیں ۔ پیرنی نے موقع غنیمت جان کر پیر بابا پتر شاہ کے مرید اور مریدنیاں بھی بانٹ لیں ۔ اور دونوں میں اچھی خاصی دوری پیدا ہو گئی ۔ پیرنی کی دعائیں زیادہ قبول ہونے لگیں ۔ پیر صاحب تو صرف بیٹے دیتا تھا ۔ پیرنی کی کرامات میں سوائے پیغمبری کے سب ظاہر ہونے گا ۔ یعنی رفتہ رفتہ کسی کو کونسلر بننا ہوتا تو وہ پیرنی کے پاس جاتا اور دعا کراتا ، وہ کونسلر بن جاتا ۔ کسی کو ملازمت لینا ہوتی تو وہ بھی پیرنی کے ہاں جاتا اور مراد پاتا ۔ کوئی فراڈ اور کرپشن میں پھنس جاتا ۔ وہ پیرنی جی کے ہاں جا کر دعا کراتا اور اُس کے کہنے پر میلاد وغیرہ مناتا ، کرپشن کے کیس سے بری ہو جاتا ۔ آہستہ آہستہ پیرنی کا دائرہ بڑھتا گیا ۔ اب بڑے بڑے وڈیرے بھی پیرنی کے پاس آنے لگے اور گوہرِ مقصود پانے لگے ۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے کہا مَیں پورے گاوں کا چوہدری بننا چاہتا ہوں۔ حالانکہ وہ آدمی چپراسی بننے کے قابل نہیں تھا ۔ پیرنی نے کہا تیرے ستارے بہت کمزور ہیں ، تو چوہدری نہیں بن سکتا ۔ آدمی نے کہا چوہدری تو مَیں ہر صورت بننا چاہتا ہوں ، کوئی اُپائے بتاو ضرور ۔ پیرنی نے جواب دیا ۔ ہاں مَیں دیکھ رہی ہوں اگر تیرے ستارے کے ساتھ میرا برج حمل مل جائے تو تُو چوہدری بن جائے گا ۔ اُس کی ایک یہی صورت ہے ۔ اُس نے کہا پھر یہ برج میرے ستارے سے کیسے ملے گا ۔ پیرنی نے کہا ، ہم دونوں شادی کر لیں گے ۔ اُس آدمی نے کہا تو تھمارا پہلا خاوند کیا کرے گا ؟ پیرنی نے کہا آپ فکر نہ کرو وہ مجھے آپ کے لیے ڈونیٹ کر دے گا ۔ لیجیے صاحب پیرنی کے خاوند نے ہنسی خوشی پیرنی کو ڈونیٹ کر دیا ۔ اور قدرت خدا کی وہ چپراسی کی قابلیت والا آدمی پیرنی مل جانے کے بعد ہمارے گاوں کا چوہدری بن گیا ۔
اِسی اثنا میں ایک واقعہ پیش آ گیا ۔ جس عورت کے لیے پیر بابا نے بیٹے کی منظوری دی تھی ۔جب اُس کے حمل کو آٹھ مہینے ہو گئے تو دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا پیدا ہو گیا ۔ مرد نے کہا تیرا یہ حمل پیر بابا پتر شاہ کی دعا سے ٹھہرا ہے ۔ جبکہ عورت نے کہا نہیں یہ تو پیرنی کی دعا سے ہوا ہے ۔ جھگڑا طول کھینچ گیا تو مرد بھاگتا ہوا پیر بابا کے پاس آیا اور بولا بابا جی میری بیوی کہتی ہے اُس کا حمل پیرنی کی دعا سے ٹھہرا ہے ۔ پیر بابا نے جلالت میں آ کر جواب دیا ، اچھا اگر یہ بات ہے تو عورت سے کہنا کہ اب بچہ پیدا کر کے دکھائے ۔ لیجیے حضرت کئی ماہ نکل گئے ، بچہ پیدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ عورت کو آخر دوبارہ پیر با با کے پاس جانا پڑا ۔ بابا جی نے بچے کے پیدا ہونے کی منظوری دیتے ہوئے کہا ، ٹھیک ہے بچہ پیدا ہو جائے گا لیکن اپنی پیرنی سے کہنا مَیں نے سارے گُر اُسے نہیں سکھائے ، وہ لوگوں کو گاوں کا چوہدری تو بنا سکتی ہے مگر چوہدری کے اختیارات میرے ہی پاس رہیں گے ۔
اور یہ بھی یاد رکھ مَیں تھماری پیرنی کے خاوند کو جلد ہی اپنی کرامت کے ذریعے چوہدراہٹ سے الگ کر دوں گا پھر تمھاری پیرنی کدھر جائے گی ۔ عورت نے کہا ، وہ وآپس اپنے سابقہ کے پاس ۔
یہ کافی عرصہ پہلے کا واقعہ ہے ۔ میں تو گاوں چھوڑ کر اسلام آباد آ گیا ۔ اب پتا نہیں اُن سب کا کیا بنا ؟
علی اکبر ناطق
No comments:
Post a Comment