یہ تیس اکتوبر 2009ء کا دن تھا اور مجھے جاوید احمد غامدی کے ساتھ جیو نیوز کے لئے یوتھ شو کی ریکارڈنگ کروانی تھی۔علامہ اقبال روڈ لاہور پہ واقع بظاہر خستہ حال عمارت کے اندر واقع اس سٹوڈیو میں اس سے پہلے میں اس شو کی پچپن اقساط ریکارڈ کروا چکا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ آج کی ریکارڈنگ اس شو کی آخری ریکارڈنگ ثابت ہو گی ۔
اس دن میرا موضوع یہ تھا کہ کیا جبلت سماج اور مذہب سے زیادہ قوی ہے۔معمول کے ابتدائیے کے بعد میں غامدی صاحب کی جانب مڑا اور ان سے دریافت کیا کہ اگر ریس کورس پارک لاہور میں ایک جوان لڑکی کا ریپ ہو جاتا ہے تو معاشرہ اسکے ریپسٹ کو زیادہ سے زیادہ سزائے موت دے سکتا ہے ،خدا چاہے تو اسکے ریپسٹ کو اپنے حتمی مغفرت کے وعدے کے بر خلاف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کا ایندھن بنا سکتا ہے مگر اگر خدا خود بھی چاہے تو کیا اس لڑکی کی عزت واپس لا سکتا ہے ۔غامدی صاحب کے مسکراتے چہرے پہ سنجیدگی عود آئی۔ایک توقف کے بعد انھوں نے ایک مختصر تقریر کر ڈالی جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس لڑکی کو روز قیامت خدا بخشش عطا کریگا اور اسے جنت میں بہت اعلی درجہ ملے گا ۔یہ جواب سن کہ میں زیر لب مسکرانے لگا۔ان کی اس بات پہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی ایک مہمان طالبہ کہنے لگی کہ پھر تو وہ بھی ہیجان انگیز لباس زیب تن کر کے اپنا ریپ کروائے تو کیا وہ بھی جنت میں پہنچ جائیگی ۔جنت کسی محنت کا ثمر ہے یا پھر compensation میں حاصل ہونے والی جگہ ہے ۔
اس پر غامدی صاحب فرمانے لگے کہ اس لڑکی کو خدا کی اوور آل سکیم سمجھنے کی ضرورت ہے۔یہاں پر میں نے لقمہ دیا کہ جس بد قسمت لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی ،وہ پہلے قریبی جھاڑی سے ڈھونڈ کے اپنی شلوار پہنے،اپنی پھٹی قمیض پہ چادر لپیٹے ،پھر رکشہ کروا کے شادمان تھانے جائے اور اپنے ریپ کی ایف آئی آر کٹوائے ۔پھر وہی رکشہ لیکر باغ جناح میں قائداعظم لائبریری جائے اور آپ کی تصانیف میں بیان کردہ خدا کی گرینڈ سکیم کو سمجھنے کی کوشش کرے جس سے دیگر علماء کی اکثریت اتفاق بھی نہیں کرتی تو اس لڑکی کے لئے ریپ والے دن یہ مصروفیات کچھ زیادہ نہیں ہو جائینگی اور کیا آپ اپنے بیٹے کی شادی کسی ایسی لڑکی سے کرینگے اور کیوں مذہب ایسی خواتین کی نفسیاتی اور سماجی rehabilitation کے لئے خاطر خواہ اقدامات تجویز نہیں کرتا ۔
یہ سب سن کہ غامدی صاحب بپھر ہو گئے۔غصے سے انکا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔انھوں نے اپنا مائک اتارا اور سٹوڈیو سے باہر چل دیئے ۔انھیں ہماری پروڈکشن ٹیم نے بہت روکنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔بلٹ پروف پجارو کے اندر ایک اور بلٹ پروف کیبن میں بیٹھے اور ایلیٹ فورس کی دو حفاظتی گاڑیوں کے ہمراہ واپس ڈیفینس ہاوُسنگ اتھارٹی میں واقع اپنے پر شکوہ بنگلے کی جانب روانہ ہو گئے ۔مجھے ایگزیکٹو پروڈیوسر عبدالروُف صاحب سے ہومیو پیتھک ڈانٹ پڑی اور اگلے اڑھائی ماہ میں جیو نیوز کے مارننگ شو جیو پاکستان میں بطور پروڈکشن ایسوسی ایٹ تیس ہزار روپے ماہانہ پر کام کرتا رہا جب تک کہ مجھے دنیا نیوز نے بطور نیوز اینکر ہائر نہیں کر لیا.
نومبر 2009ء کے وسط میں جیو لاہور کے انفوٹینمینٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک فیکس آیا جسے فیکس مشین سے میں نے نکالا۔یہ فیکس تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھیجا گیا تھا اور اس میں دو لوگوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ایک نجم سیٹھی صاحب تھے جو ایک ملحد ہیں اور دوسرے غامدی صاحب تھے ۔اس دھمکی کے بعد وجود خدا کا منکر نجم سیٹھی تو پاکستان ہی میں رہا مگر جو غامدی صاحب خدا کو حفیظ اور غفوروالرحیم مانتے تھے ،وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر خدا کی پناہ کی تلاش میں ملائیشیا روانہ ہو گئے اور تادم تحریر وہیں مقیم ہیں۔
دیگر علماء کے مقابلے میں غامدی صاحب بہت زیادہ ریشنل ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر میں خداناخواستہ مسلمان ہوتا تو شاید انھی کے کیمپ میں ہوتا۔اگر عمومی علماء کی گاڑی 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پہ کانپتی ہے تو غامدی صاحب کی گاڑی 220 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پہ کانپتی ہے مگر۔۔۔۔۔کانپتی ہے۔وہ صحیح بخاری اور حدیث کی دیگر کتابوں سے منتخب کردہ احادیث کو درست مانتے ہیں اور انھی احادیث کے راویوں کی دیگر احادیث کو ضعیف قرار دیکر مسترد کر دیتے ہیں ۔جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے۔وہ نتیجے پہ پہلے پہنچتے ہیں اور اس کے حق میں دلائل مذہبی اور دیگر سورسز سے بعد میں تلاشتے ہیں جو یقیناً علمی بد دیانتی کے مترادف ہے۔علم الکلام کے ماہر ہیں اور زبان کی فصاحت و بلاغت پہ عبور رکھتے ہیں ۔ان کا ایک جملہ آج بھی مجھے کوچہ لکھنئو کی چاشنی سے متعارف کرواتا ہے”جب بابل میں سحر و ساحری کا غلغلہ ہو گیا تو خدا نے ہاروت اور ماروت کو بھیجا”۔لوگ غامدی صاحب کی روانی کو انکی منطقیت سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ انکی روانی میں موجود دلائل اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں ۔انکا کہنا ہے کہ آپ پہلے خدا کی ذات پہ ایمان لائیے اوراسکے بعد اسکے احکامات کی ریشنیلیٹی پہ سوال اٹھائیے۔حالانکہ ریشنیلیٹی سوالوں کے جواب پانے کے بعد خدا کی ذات پر ایمان لانے میں پنہاں ہے ۔
اسی کے اوائل میں جب وحیدمراد کا ستارہ روبہُ زوال تھا تو نشے کی حالت میں انکا ایکسیڈینٹ ہو گیا تو وہ آغا خان ہسپتال کراچی میں زیر علاج تھے۔ایک فلم پروڈیوسر انکی عیادت کرنے انکے پاس چلے گئے اور ان سے کہا کہ وحید تم جلدی سے ٹھیک ہو جاو پھر میں تمھیں فلم میں کام دے دونگا ۔وحید مراد نے جواب دیا کہ آپ مجھے فلم میں کام دے دیں ،مِیں جلدی سے ٹھیک ہو جاوں گا ۔کچھ یہی غامدی صاحب بھی کرتے ہیں اور اس خدائی دانش پہ ایمان کو مذہب کی ریشنیلیٹی سمجھنے کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں جو خود بقول انکے انسانی دانش کی محدودیت میں سمانے سے قاصر ہے۔اگر آپ ماضی کی کسی تحریر یا تقریر کا انھیں حوالہ دیں کہ جناب اب تو آپ کا موُقف کچھ اور ہے تو انکے ترکش میں ایک اور تیر بھی ہے۔کہیں گے کہ انسانی عقل ارتقائی مراحل سے گزرتی ہے۔جب مجھ پہ اپنی غلطی واضح ہو گئی تو میں نے اپنی اصلاح کر لی ۔اس کو بھول جائیں کہ ماضی کے پیروکار ہدایت پانے میں کامیاب ہوئے یا موجودہ یا مستقبل کے ہونگے ،نکتہ صرف ایک ہے کہ حتمی الہامی دانش بھی علمائے دین کی رائے کو constant نہیں رکھ پاتی ۔
نظریہُ تقدیر پر ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔خدا مستقبل کاحال جانتا ہے مگر آپ مجبور محض نہیں ہیں کیونکہ اسکے علم کا آپ کے عمل پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ۔میں نے عرض کی کہ حضور لیکن میرے عمل سے اگر اسکا علم تبدیل نہیں ہوتا تو پھر میں مجبورمحض ہی رہتا ہوں۔غامدی صاحب نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ تقدیر میں لکھا ہی یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ گھر سے باہر محنت کرنے کے لئے نکلیں گے تو دس روپے کمائیں گے ۔اگر نہیں نکلیں گے تو نہیں کمائیں گے۔میں نے کہا کہ اسکا مطلب ہے کہ خدا نے کنڈیشنل تقدیر لوح محفوظ پہ لکھی ہے اور حتمی نتیجہ اسے بھی نہیں معلوم مگر اسکے باوجود غامدی صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ خدا مستقبل کاحال تو جانتا ہے مگر انسان اپنے اعمال میں مکمل طور پہ خود مختار ہے یعنی اسے پتہ ہے کہ آپ دوزخ یا جنت میں سے کس میں جائینگے مگر پھر بھی وہ آپ کا امتحان لے رہا ہے ۔جانی جانی یس پاپا ایٹنگ شوگر نو پاپا ٹیلنگ لائز نو پاپا اوپن یور ماوتھ ہاہاہا ۔اسی پروگرام میں جوش خطابت میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ اگر آپ قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے مگر خدائی دانش نے اپنی کسی مصلحت کے تحت اس قتل کو روک دیا تو بھی قتل کے مجرم آپ بارگاہُ خداوندی میں قرار پا جائینگے ۔جی ہاں دوبارہ پڑھئے اور سردھنئے۔
آج مِیں سوچتا ہوں کہ پاکستان میں ہونے والے دھماکوں میں جب ہزاروں افراد عزرائیل کی وساطت سے عالم ارواح کے ٹرانزٹ لاونج میں قیامت کی فلائٹ اناونسمنٹ کا انتظار کر رہے ہیں تو خدائی دانش کی کیا کسی بھی مصلحت کو خون ناحق نظر نہیں آیا اور جن ہلاک شدگان کی جوان بیٹیاں سورج نکلنے پہ منہ چھپائے گھر پہنچتی ہیں تو کیا انکا مستقبل مختلف نہیں ہو سکتا تھا تو اس کے جواب میں اسلام حکم دیتا ہے کہ نماز قائم کرو اور زکوٰة دو۔غامدی صاحب کی کتاب میزان کے دیباچے میں درج ہے کہ وہ شیخ افضال کے ممنون ہیں جنھوں نے اس علمی کام کے دوران انھیں فکر معاش سے بے نیاز رکھا اور جیو کے سی ای او میر ابراہیم رحمان نے بھی غامدی صاحب کے صاحبزادے معاذ احسن کو جیو نیٹ ورک کا ڈائریکٹر پروگرامنگ اور پروڈکٹ ڈیویلپمینٹ ہیڈ تعینات کر رکھا ہے اور یوں میڈیا،بزنس اور مذہب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اہلیان پاکستان کی راہنمائی کا کٹھن فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔
ایک اور غامدی پروگرام ہم نے عیدالاضحیٰ کی مناسبت سے ریکارڈ کیا۔اس میں میں نے پوچھا کہ اگر سوُر کے گوشت میں وٹامن بی ون ،بی ٹو ،بی سکس ،بی ٹویلو کے علاوہ زنک اور سیلینیم جیسے معدنیات ہوتے ہیں جن کو کھانے سے دل کی بیماریوں اور جوڑوں کے درد osteoporosis کا خطرہ بیف کی نسبت سولہ گنا کم ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ بیف حلال اور سوُر حرام ہے ۔غامدی صاحب نے فوراًجواب دیا کہ چونکہ سئور اپنی محرمات سے اختلاط کرتا ہے اس لئے وہ حرام ہے۔جبکہ گائے حلال ہے ۔مِیں نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں پائی جانیوالی گائیوں اور بیلوں کے باقاعدہ نکاح پڑھائے جاتے ہیں تو اس پر وہ جز بز ہو گئے ۔جون 2015ء میں مجھے امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چھوٹے سے قصبے بلنٹس ٹاون جانے کا اتفاق ہوا ۔لنچ میں برگر کنگ کی آوٹ لیٹ سے بیکن برگر کھانے کا نادر موقع ملا۔بالکل بیف جیسا ذائقہ تھا اور اسکے بعد میری ماں یا بہن کے خیال نے میرے اندر کوئی شہوت بھی پیدا نہیں کی البتہ ایک گوری کے شبستاں سے متصل بہشت نے مجھے ضرور کچھ دیر کو بے چین کئے رکھا۔ عیدالاضحیٰ سپیشل کی ریکارڈنگ کےدوران پھر میں نے پوچھا کہ کیا مردار حرام ہے ۔غامدی صاحب نے فرمایا بے شک ۔تو پوچھا کہ مچھلی کیوں حلال ہے تو اس پر صدارتی استثنیٰ کی طرح قرانی استثنیٰ کو بیچ میں لے آئے۔پھر کہنے لگے کہ تمام گوشت خور درندے حرام ہیں ۔پوچھا کہ گینڈا تو سبزی خور ہونے کے باوجود حرام کیوں ہے ۔چلیں چھوڑیں اسکا خیال احکامات خوراک مرتب کرتے وقت خالق کائنات کو آیا نہیں ہو گا۔ یہ پروگرام جیو کے سنسر بورڈ نے کبھی آن ائیر نہیں جانے دیا جس کے اراکین میں اس وقت ارشاد احمد عارف اور نذیر لغاری شامل تھے۔
ایک اور پروگرام میں غامدی صاحب سے پوچھ بیٹھا کہ جناب حضرت آدم زبان کون سی بولتے تھے ۔ذہین آدمی ہیں۔ایک دم چونک گئے ۔مصنوعی بے اعتنائی سے کہنےلگے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔میں نے کہا جناب فرق یہ پڑتا ہے کہ جب کوئی کہانی بنائی جاتی ہے تو اس میں بہت سے لوپ ہولز رہ جاتے ہیں اور زبان آدم کا علم نہ ہونا بھی آپ کی کہانی کے لوپ ہول کی جانب اشارہ کرتا ہے۔آپ کو یہ علم ہے کہ آدم کی پسلی سے حوا پیدا ہوئیں۔شجر ممنوعہ کھانے جیسے مضحکہ خیز جرم پہ دونوں جنت سے نکالے گئے۔ان کے دو بیٹے تھے۔ایک کا نام ہابیل اور دوسرے کا نام قابیل تھا۔آپ کو یہ بھی علم ہے کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا۔آپ کو یہ بھی علم ہے کہ قابیل کو ایک کوے نے تدفین کی راہ سجھائی۔مگر آپ کو یہ علم نہیں ہے کہ حضرت آدم زبان کون سی بولتے تھے ۔
How Convenient
اسلام کے اقتصادی نظام پہ پروگرام کا پہلا سوال یہ تھا اگر زکوٰة قیامت تک مسلمانوں پہ فرض ہے تو کیا اس فرض کی ادائیگی کے لئے اسلام کو غریبوں کی ایک کثیر تعداد درکار ہے ۔یعنی اسلام غربت کو ختم نہ کر سکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے ۔غامدی صاحب فرمانے لگے کہ زکوٰة ریاست کا ٹیکس ہے۔پوچھا کہ اب تک اسلامی جمہوریہُ پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کو اس بات کا ادراک کیوں نہیں ہوا تو کہنے لگے کہ ہمیں پرفیکشن کے لٙئے کوشش کرنی چائیے تو میں نے کہا کہ اگر چودہ سو سال کی کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ہم راستہ بدل کہ دیکھیں۔غامدی صاحب نے خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھورا اور ریکارڈنگ کا وقت ختم ہو گیا۔چونکہ یہ پروگرام ریکارڈڈ ہوتا تھا لہذا اسے ایڈٹ ایسے کیا جاتاتھا کہ غامدی صاحب فاتح نظر آتے تھے مگر اسکے باوجود پوری دنیا سے مجھے ہیٹ میلز آتی تھیں اور خاص طورپہ یورپ ،امریکہ اور کینیڈا کے مسلمان مجھے ابلیس کا ایجنٹ قرار دیتے تھےاور ہر دوسری ای میل میں چینل انتظامیہ سے پرزور مطالبہ ہوتا تھا کہ اس ناہنجار کو فی الفور پروگرام ہوسٹنگ سے الگ کیا جائے۔
اسی طرح نیو ٹی وی پہ جب اوریا مقبول جان کے ساتھ حرف راز کرنے کا فروری تا جون 2016ء اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ ان کا اسلام غامدیت کو کفر سمجھتا ہے۔سکندریہ کی لائبریری آٹھویں صدی عیسوی میں قائم تھی۔پاکستان شرابی جناح نے اسلام کے نام پہ بنایا تھا۔لونڈیاں تب پاکستانی فوج کے لئے جائز ہونگی جب نظام عمر پاکستان میں قائم ہو گا ۔عرض کی کہ تب تک شہادت کے درجات اور نشان حیدروامتیاز جیسے اعزازات کی تقسیم بند کیوں نہیں ہوتی۔اس پر انھوں نے پاکستانی معاشرے کی مذہب سے دوری پر اظہار افسوس کرنا شروع کر دیا۔سنڈریلا کی فحاشی اوریا صاحب کی آنکھوں میں کھٹکھتی ہے مگر مفتوح عورتوں کی جانوروں کی طرح تقسیم کو وہ برحق سمجھتے ہیں۔آئی فون پکڑ کے امریکہ کو کوستے بڑے کیوٹ لگتے ہیں اور عینک پہن کر خدا کو پرفیکٹ creator بھی مانتے ہیں ۔انٹرنیٹ پہ جو مشہورکلپ ہے اس میں اوریا صاحب مخلوط نظام کی خامیاں گنوا رہے تھے۔عرض کی کہ جناب مقامات مقدسہ پر بھی تو مخلوط نظام exist کرتا ہے۔اس پر وہ آگ بگولہ ہوگئے ۔قیصر و کسریٰ کے ایوان لرز گئے اور انھوں نے مجھ پہ توہین مذہب کا الزام تک عائد کر ڈالا ۔اس واقعےکے کچھ عرصے بعد میں چینل مینجمنٹ سے درخواست کر کے اس پروگرام سے الگ ہو گیا اور لوگوں کو دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد بتا بتا کر روزی روٹی کا سلسلہ آگے بڑھایا ۔
مندرجہ بالا واقعات سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ صرف دلیل ہی زہر مذہب کا تریاق ہے اور اگر مجھے مولانا مسعود اظہر کی طرح جان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے تو میں دنیا کے کسی بھی عالم دین سے مذہب کی حقیقت پر لائیو مناظرہ کرنے کو تیار ہوں اور اپنے معزز اساتذہُ کرام حضرت ول ڈیورانٹ رحمة اللہ علیہ ،سبط حسن،علی عباس جلالپوری،کارل سیگن،رچرڈ ڈاکنز،برائن کاکس اور نیطشے کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی میں اس بات کی قوی توقع رکھتا ہوں کہ مناظرے کے دوران دلائل سانسوں کی رفتار سے آتے رہیں گے مگر ایسا کوئی مناظرہ اول تو اہل مذہب کرنےپہ آمادہ نہیں ہونگے اور اگر ہوئے تو بعد میں توہین کے فتوے صادر کر کے اپنی مذہبی انانیت کی تسکین میں سرگرداں ہو جائینگے۔ایک بہی خواہ نے خوامخواہ مشورہ دیا کہ آپ احتیاطاً خدا کو مان لیجئے۔اگر مرنے کے بعد نہ نکلا تو ٹھیک مگر اگر نکل آیا تو آپ فائدے میں رہ جائینگے۔مجھے یہ مشورہ کسی اور سے ارینجڈ میرج سے پہلے محلے کی محبوبہ کی آخری بوسے کی درخواست معلوم ہوا۔میں نے جواب دیا کہ مذہب کا مقدمہ اگر اگر پہ ٹکا ہے تو پھر ہر دلہے کو اپنی دلہن کو باکرہ تصور کر لینا چائیے۔سہاگ رات پہ سفید چادر سرخ ہوئی تو ٹھیک نہیں تو کالج سپورٹس کے دوران پردہُ بکارت کے پھٹ جانے کی تسلی سے کاروان حیات آگے بڑھتا رہے گا۔اطیمنان سچائی پہ مقدم ہے اور مذہب لوگوں کو اطیمنان دیتا ہے۔سچ speculation سے بڑا ہوتا ہے اور جھوٹ دلیل کی مار نہیں سہہ سکتا اور یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی فرقوں کے پھیلنے کی دو وجوہات ہیں۔ایک افزائش نسل اور دوسری کنورٹس کا کم آئی کیو۔اگر گورے کی گواہی اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے تو مولوی صاحب زیادہ گورے اسلام کو نہیں مانتے مگرلوگوں کے ملحد ہونے کی صرف ایک وجہ ہےاور وہ ہے عقل کا استعمال جس کے بعد ارتداد عقل کو پکارتے ہوئے وحید مراد کے دور عروج کا عکاس بن جاتاہے کہ اکیلے نہ جانا ہمیں
No comments:
Post a Comment