پاکستان کا آرمی چیف
میں پاکستان کا آرمی چیف ہوں
میرا نام کچھ بھی ہو
مگر میرا کام ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے
میرا نام لیوا ہمیش کامران اور نیک ہی رہتا ہے
میرے دفتر کی دائیں دیوار پر نیرو کی تصویر ٹنگی ہے
جو روم کو جلا کر اور ماں کو مروا کر ناچتا تھا
میں روم کی جگہ موم جلاتا ہوں
آواز اٹھانے والے لاپتہ افراد کی آنکھوں میں
جن میں ناچتے آزادی کے سانپ مر مر کے رینگتے ہیں
پرائیوٹ چینلز میرے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں
اور حکومت کا وضو میرے بغیر ادھورا ہے
ایکسٹینشن میرے پیر کی جوتی ہے
جس میں سنڈریلا کی طرح صرف میرا پیر آتا ہے
میرے قلعے کی فصیل سے اپنا آتا ہے نہ غیر آتا ہے
سوائے امریکہ جاپان اور برطانیہ کے سفیروں کے
جن سے سرخ صوفے پہ میں معاملات طے کرتا ہوں
اور پھر وزیراعظم کو حکم دینے کا حکم دیتا ہوں
سویلین سپرمیسی صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہے میاں
محبت بکارت خوشبو چاندنی اور موتیے کی مہک مانند
مگر میرا اور میری ایمپائر کا مفاد جڑا ہے
بارود،خون،شہادت،جذبے،عزم اور نغموں کی نکسیروں سے
جو ہر جارحیت کے بعد وطن کے ناک سے پھوٹتی ہیں
اور میں صرف خون پونچھنے کے عوض خون نچوڑتا ہوں
افغان جنگجو کے ہاتھوں میں نچڑتے قندھاری انار کی مانند
سیاست میں حلف عدم مداخلت کی تحقیر کی مانند
میرے پیشرو آسڑیلیا امارات سعودیہ اور امریکہ میں
حب الوطنی کے مرتبان سے نکال کر اچار کھاتے ہیں
اور میرے سپاہی لکیروں پہ دل و جاں کی مار کھاتے ہیں
جنھیں میں لکڑی کے تابوتوں میں باجوں کی آوازوں میں
نیم گیلی مٹی کھود کر دفناتا ہوں
اور انکے لواحقین کو تھماتا ہوں
شہادت کا سرٹیفیکیٹ ،پلاٹ کے کاغذ اور پیتل کے ٹکڑے
جنھیں ڈرائنگ روم میں سجا کر لواحقین
تشکر کے آنسووُں سے میرے آگے سربسجود ہوتے ہیں
تقریب یوم دفاع کی چوتھی صف میں موجود ہوتے ہیں
میں ایٹم بم کے بٹن کو گھنٹوں تکتا رہتا ہوں
جس کو دبا کر میں ان غلاموں سے محروم نہیں ہونا چاہتا
جو میری ابروئے جنبش پہ سر تسلیم خم کرتے ہیں
جو خوشیوں کی تلاش میں زخم زخم کرتے ہیں
میرا وجود نفرت کی بنیاد پہ قوی ہے
اور میں اسے کبھی کم ہونے نہیں دیتا
کبھی بھارت سے کبھی انڈیا سے اور کبھی ہندوستان سے
کبھی مکین سے کبھی نظرئے سے اور کبھی مکان سے
امن کے دنوں میں سیلاب سے بھی بچا لیتا ہوں
اپنے سے چھوٹے ہر عذاب سے بھی بچا لیتا ہوں
میرے نو نہیں بارہ رتن ہیں اور ہر کوئی انمول ہے
ٹوئٹر اور جاسوسی کے محاذ میری نگرانی میں چلتے ہیں
میری اجازت سے سیف ہاوُسز میں ایسٹس پلتے ہیں
میری کرسی پر کوئی آئے کوئی جائے
میں مستقل رہتا ہوں
کیونکہ میں جسم نہیں عہدہ ہوں
اور عہدے جسموں کی طرح فنا نہیں ہوتے
صرف کینچلی بدلتے ہیں
تھائی لینڈ اور کیرالہ میں سرسراتے کنگ کوبرا کی مانند
جسکی پرانی کھال نظر آتے ہی
کسان موت کے منتر بڑبڑانے لگتے ہیں
اوکاڑہ،تربت اور میران شاہ میں دم توڑتے باغیوں کی مانند
جن کا واحد جرم میرے خلاف آواز اٹھانا تھا
وہسکی کا نشہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے
جس میں سچ ٹوپی سے زیادہ قریب ہوتا ہے
کیونکہ میں پاکستان کا آرمی چیف ہوں
اور میرا نام کچھ بھی ہو
میرا کام ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے
No comments:
Post a Comment