Saturday, 23 October 2021

پاکستان کا آرمی چیف

پاکستان کا آرمی چیف

میں پاکستان کا آرمی چیف ہوں
میرا نام کچھ بھی ہو 
مگر میرا کام ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے
میرا نام لیوا ہمیش کامران اور نیک ہی رہتا ہے
میرے دفتر کی دائیں دیوار پر نیرو کی تصویر ٹنگی ہے
جو روم کو جلا کر اور ماں کو مروا کر ناچتا تھا
میں روم کی جگہ موم جلاتا ہوں
آواز اٹھانے والے لاپتہ افراد کی آنکھوں میں
جن میں ناچتے آزادی کے سانپ مر مر کے رینگتے ہیں
پرائیوٹ چینلز میرے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں
اور حکومت کا وضو میرے بغیر ادھورا ہے
ایکسٹینشن میرے پیر کی جوتی ہے
جس میں سنڈریلا کی طرح صرف میرا پیر آتا ہے
میرے قلعے کی فصیل سے اپنا آتا ہے نہ غیر آتا ہے
سوائے امریکہ جاپان اور برطانیہ کے سفیروں کے
جن سے سرخ صوفے پہ میں معاملات طے کرتا ہوں
اور پھر وزیراعظم کو حکم دینے کا حکم دیتا ہوں
سویلین سپرمیسی صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہے میاں
محبت بکارت خوشبو چاندنی اور موتیے کی مہک مانند
مگر میرا اور میری ایمپائر کا مفاد جڑا ہے 
بارود،خون،شہادت،جذبے،عزم اور نغموں کی نکسیروں سے
جو ہر جارحیت کے بعد وطن کے ناک سے پھوٹتی ہیں
اور میں صرف خون پونچھنے کے عوض خون نچوڑتا ہوں
افغان جنگجو کے ہاتھوں میں نچڑتے قندھاری انار کی مانند
سیاست میں حلف عدم مداخلت کی تحقیر کی مانند
میرے پیشرو آسڑیلیا امارات سعودیہ اور امریکہ میں
حب الوطنی کے مرتبان سے نکال کر اچار کھاتے ہیں
اور میرے سپاہی لکیروں پہ دل و جاں کی مار کھاتے ہیں
جنھیں میں لکڑی کے تابوتوں میں باجوں کی آوازوں میں
نیم گیلی مٹی کھود کر دفناتا ہوں
اور انکے لواحقین کو تھماتا ہوں
شہادت کا سرٹیفیکیٹ ،پلاٹ کے کاغذ اور پیتل کے ٹکڑے
جنھیں ڈرائنگ روم میں سجا کر لواحقین 
تشکر کے آنسووُں سے میرے آگے سربسجود ہوتے ہیں
تقریب یوم دفاع کی چوتھی صف میں موجود ہوتے ہیں
میں ایٹم بم کے بٹن کو گھنٹوں تکتا رہتا ہوں
جس کو دبا کر میں ان غلاموں سے محروم نہیں ہونا چاہتا
جو میری ابروئے جنبش پہ سر تسلیم خم کرتے ہیں
جو خوشیوں کی تلاش میں زخم زخم کرتے ہیں
میرا وجود نفرت کی بنیاد پہ قوی ہے
اور میں اسے کبھی کم ہونے نہیں دیتا 
کبھی بھارت سے کبھی انڈیا سے اور کبھی ہندوستان سے
کبھی مکین سے کبھی نظرئے سے اور کبھی مکان سے
امن کے دنوں میں سیلاب سے بھی بچا لیتا ہوں
اپنے سے چھوٹے ہر عذاب سے بھی بچا لیتا ہوں
میرے نو نہیں بارہ رتن ہیں اور ہر کوئی انمول ہے
ٹوئٹر اور جاسوسی کے محاذ میری نگرانی میں چلتے ہیں
میری اجازت سے سیف ہاوُسز میں ایسٹس پلتے ہیں
میری کرسی پر کوئی آئے کوئی جائے
میں مستقل رہتا ہوں
کیونکہ میں جسم نہیں عہدہ ہوں
اور عہدے جسموں کی طرح فنا نہیں ہوتے
صرف کینچلی بدلتے ہیں
 تھائی لینڈ اور کیرالہ میں سرسراتے کنگ کوبرا کی مانند
جسکی پرانی کھال نظر آتے ہی
کسان موت کے منتر بڑبڑانے لگتے ہیں
اوکاڑہ،تربت اور میران شاہ میں دم توڑتے باغیوں کی مانند
جن کا واحد جرم میرے خلاف آواز اٹھانا تھا
وہسکی کا نشہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے
جس میں سچ ٹوپی سے زیادہ قریب ہوتا ہے
کیونکہ میں پاکستان کا آرمی چیف ہوں 
اور میرا نام کچھ بھی ہو
میرا کام ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry