اردو میں کیا پڑھنا چاہیے اور کیا نہیں؟
اگر آپ مہینے میں ایک دو کتابیں پڑھیں اور پندرہ سولہ سال کی عمر میں پڑھنا شروع کریں تو ستر سال کی عمر تک ایک ہزار کے قریب کتابیں ہی پڑھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے بیش تر لوگوں کے لیے یہ تسلسل اور تواتر قائم رکھنا مشکل ہے اور فون بھی استعمال کرنا ہوتا ہے، لہٰذا 500 کتابوں کا ہی تصور کرنا چاہیے۔ ان پانچ سو میں انگلش کی کتب بھی شامل ہوں گی۔
ہندوستان اور پاکستان: سرسید سے اقبال تک از قاضی جاوید، تاریخ اور آگہی از ڈاکٹر مبارک علی، نوید فکر از سبط حسن، تاریخ پاکستان از ایان ٹالبوٹ، پاکستان بھنور کی زد میں از اوون بینیٹ جونز اور دیگر ترجمہ کردہ کتب۔ (پاکستانی کالم نگاروں کی ’’کتب‘‘ سے بچیں۔ نیز یحییٰ امجد اور اعتزاز احسن جیسوں کی کتب سے دامن بچائیں۔ پاکستان کی تاریخ پر طبع زاد کتب قلیل اور غیر مستند ہیں۔)
قدیم تاریخ: ماضی کے مزار از سبطِ حسن، عرب از ول ڈیورانٹ، یورپ کی بیداری از دل ڈیورانٹ، ہندوستان از اے ایل باشم۔
’’اسلامی‘‘ تاریخ: اسلام سے پہلے از لیسی ڈی اولیری، سیرت النبی از ابن اسحق (بہتر ہو گا کہ انگلش ورژن کے حاشیوں کو بھی سامنے رکھیں)، تاریخِ طبری، تاریخ ابن خلدون، الفتنۃ الکبریٰ از طہٰ حسین، اسلام پر کیا گزری، احمد امین مصری، خلافت اور ملوکیت از مودودی، اسلام ، تاریخ عرب از فلپ کے حِتی۔ (فرقہ وارانہ تشریحات و مباحث پر مبنی کتب سے دور رہنا چاہیے۔)
فلسفہ تاریخ: مقدمہ تاریخِ ابن خلدون، تاریخ کے اسباق از ول ڈیورانٹ۔
فلسفہ: عورت از سیمون دی بووا، سارتر کے مضامین، انتخابِ زندگی (مکالمہ ٹائن بی اور اکیدا)، 20 عظیم فلسفی از قاضی جاوید، روایاتِ فلسفہ اور عام فکری مغالطے از علی عباس جلالپوری، کارل پوپر، نشاط فلسفہ، داستانِ فلسفہ از ول ڈیورانٹ، تیسری لہر از ایلون ٹوفلر۔ (اگر آپ فرار پسندی اور تھکی ہوئی روحانیت میں مبتلا ہیں اوشو وغیرہ کا مزہ لیں۔ اقبالیات کی کتب بھی فلسفہ نہیں اور ذہن و وقت کا زیاں ہیں۔)
مذاہب: شاخِ زریں، راماین، مہابھارت، گیتا، مکالماتِ کنفیوشس، یہودی اور یہودیت، سوانح حضرت ابراہیم، انسان خدا اور تہذیب، رسومِ اقوام از علی عباس جلالپوری مفید رہیں گی۔ کیرن آرم سٹرانگ بھی اہم ہے۔ (ڈاکٹر ذاکر نائیک، موٹیویشنل سپیکرز کی بکواسیات، اللہ ماورا کا تعین از عکسی مفتی، بائبل اور قرآن وغیرہ کے علاوہ جو کچھ دستیاب اور فرصت ہو تو ضرور پڑھیں۔ تقابل صرف تبھی ہو سکتا ہے جب اپنے کے علاوہ دیگر مذاہب کو باقاعدہ پڑھا ہو۔)
سوانحات: سو عظیم فلسفی، سو عظیم عورتیں، سو عظیم شخصیات، مشرق کے عظیم مفکر، سو عظیم ہم جنس پرست، سو عظیم جرنیل، انسانی تہذیب کے معمار وغیرہ اچھا آغاز ہے۔ (نسیم حجازی، ہیرلڈ لیم اور غیر اکیڈمک لوگوں کی لکھی ہوئی کتب وغیرہ چسکے والی سہی مگر گمراہ کن ہیں۔ مذہبی بنیاد پر لکھی گئی ’’عظیم‘‘ شخصیات والی کتب بھی صحت کے لیے اچھی نہیں، جیسے عظیم مسلم خواتین، عظیم مسلم جرنیل، وغیرہ۔ اکادمی ادبیات کی مختلف شخصیات پر لکھوائی ہوئی پیلی کتب سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔)
شاعری: غالب، فیض احمد فیض، ن م راشد۔ طبیعت رومانوی اور ناستلجیا کا شکار ہو تو منیر نیازی اور احمد فراز، باقیوں کی گائی ہوئی غزلیں نظمیں سن لیں۔ (80ء کی دہائی اور بعد میں چھپنے والے زیادہ تر شعرا سے بچیں، بالخصوص اُن سے جو اپنی کتاب تحفے میں دیں اور جلد میں فوم بھی ہو۔)
افسانہ اور ناول: منٹو، بیدی، بلونت سنگھ، کرشن چندر، نیر مسعود، خوشونت سنگھ، عبداللہ حسین، عصمت چغتائی، جمیلہ ہاشمی اور زیادہ تر ترجمہ شدہ ادبی تحریروں کو پڑھنا چاہیے۔ مارکیز، بورخیس، کافکا، ٹالسٹائی، دستوئیفسکی، موپساں، گورکی، اردو دھتی رائے، امرتا، اجیت کور، ارنسٹ ہیمنگوے، جارج آوریل، ستاں دال، بودلیئر، فلوبیئر، سارتر، کامیو، آسٹن، ماسوجی ایبوسے، ٹیگور، میلان کنڈیرا، ڈی ایچ لارنس، اور دیگر۔ حکایات سعدی شیرازی، حکایاتِ رومی، الف لیلہ و لیلہ اور طلسم ہوشربا ضرور پڑھنی چاہیے۔ (ابن صفی، عمیرہ احمد اور قبیل، نیز جنگی و ایمانی ناولوں سے بچنا بہت ضروری ہے۔)
نفسیات: ایڈلر، یُنگ، فرائیڈ کا زیادہ تر کام ترجمہ نہیں ہوا۔ دہشت گردی کی نفسیات از انتھونی سٹیونز ایک اچھی کتاب ہے۔ (مسلم نفسیات اور نفسیات کے نام پر ایلف شفق، اولیا کے ملفوظات، ون منٹ مینجر ٹائپ کتب وغیرہ نقصان دہ ہیں۔)
بشریات: ہمارے معاشرے میں بشریات اور آثاریات پر زیادہ تر کام انگریز مصنفین نے ہی کیا ہے۔ بالخصوص ضلعی گزیٹیئرز میں ذاتوں قبیلوں اور رسم و رواج کے حوالے سے کافی کچھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کی ذاتیں مفید ہے اور آپ کا اپنی ذات پر غرور ختم کرنے میں مددگار ہو گی۔ آج کل جو راجپوتوں، جٹوں، سندھ کی اقوام وغیرہ کے بارے میں کتب شائع ہو رہی ہیں وہ انھی کتب کا بھونڈا چربہ ہیں۔
سائنس: کارل ساگاں اور سٹیفن ہاکنگ، آئزک ایسی موف کی کتب، مسلمان اور سائنس از پرویز ہود بھائی۔ (مذہب/عقیدے سے سائنس کو یا سائنس سے مذہب کو ثابت کرنے کی غرض سے لکھی گئی تمام کتب دماغ کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں اور یہ مرض تاحیات رہتا ہے۔)
یہ فہرست یا تجاویز مرتب کرنے کا خیال ربیعہ باجوہ کے مشورے پر آیا۔
غور کریں کہ اگر آپ ٹیری ایگلٹن اور رسل اور ہیگل و کانٹ جیسوں کی کتب کی طرف نہ بھی جائیں تو آپ کی زندگی گزر جائے گا۔ اور زندگی کتنی مختصر ہے.....۔ لہٰذا ’’کیا نہیں پڑھنا‘‘ بھی مساوی اہمیت رکھتا ہے۔
No comments:
Post a Comment