Sunday, 30 June 2019

These are called Urdu Lovers & Proud of Urdu


مولانا ابوالکلام آزاد ایک دفعہ وائسرائے سے ملنے گئے تو ترجمان کے ذریعے بات ہو رہی تھی، ایک موقع پر ترجمان مولانا کی کوئی بات وائسرائے کو سمجھا نہیں پا رہا تھا تو مولانا نے خود انگریزی میں سمجھادی۔اس پر وائسرائے نے پوچھا کہ مولانا جب اپ کو انگریزی بولنی آتی ہے تو پھر بات کیون نہیں کر رہے۔مولانا نے جواب دیا کہ جب آپ اپنے ملک سےہزاروں کلومیٹردور رہ کر بھی اپنی زبان نہیں چھوڑ رہےتو میں اپنےملک کےاندرکیوں اپنی زبان چھوڑ دوں۔....
(((((((((((((پاکستانی بیانیہ /مقامی بیانیہ)))))))))))))))
انسانی زندگی میں مذاہب ہوں کہ دیو مالا، سائنس ہو کہ سوشل سائنس یا ہومینٹیز، یہ سب حیات اور کائنات کے تعلق کے استعارے ہیں اور یہ تمام استعارے شہادت سے منسلک ہیں۔ ہمیں ہمارے ہر عمل کی گواہی ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ یا گواہی کے ساتھ پیش ہونا پڑتا ہے۔ اس گواہی کے عمل نے انسان کو کہانی کار بنایا اور کہا نی کہنے والے کے موقف نے کہانی کی انفرادیت کو نمایاں کرنے میں بنیاد کاکام کیا ۔ کہانی کار کا یہ موقف جب تک مقامی رہا، کہانی پڑھنے اور سننے والے اسے دل جان سے قبول کرتے رہے اور اپناتے رہے کیونکہ کہانی کی تشبیہات واستعارات، کردار ومحاکات نیز منظر و پس منظر میں انہیں اپنا تشخص زندہ وجاوید نظر آتا تھا۔ بیانیے میں تشخص کے اظہار کا یہ عمل دنیا کی جن اقوام کی زندگی کا حصہ بنتا گیا وہ دنیا میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگیں۔
بیانیے کابے دریغ استعمال ہمیں ترقی یافتہ دنیا میں تاریک عہد(Dark Ages)کے بعد نظر آتا ہے ۔ بات ہم قبل از تاریخ کی بھی کرسکتے ہیں لیکن واضح بیانیے کے جو شواہد ملتے ہیں وہ قبل مسیح کی چھٹی صدی ہے جس میں گو تم بُودھ کی اصلاح مت کی تحریک ہے، زرتشت کے اہر من اور یزداں ہیں اور کنفیوشس کی علم کی تعریف و توجیح کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا جہانِ معانی بھی ہے ۔ جبکہ طالیس کو پہلا سائنسدان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اوریسعیاہ کے گمنام نبی کی بابل و نینوا کے درمیان تعلیمات۔چھٹی صدیق قبل مسیح کو یوں یاد کیا جارہا ہے کہ یہاں سے حیات اور کائنات کے روابط میں بیانیے کا دخل ہونا شروع ہوا۔ بعد ازاں مسلمان مذکورہ علوم وفنون کے وارث قرار پائے اور یوں بیانیے کا عمل ملّی تصورات کے زیر اثر ہوتا چلا گیا جبکہ یورپ کا تاریک عہد میں یہ سلسلہ لاطینی کے زیر اثر جاری رہا۔تاریخ اور سماجی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہے کہ جن قوموں کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا یعنی ان کا اپنا قومی تشخص بیانیہ سے نمایاں نہیں ہوتا وہ اس قوم کے لیے ایک تاریک عہد کادورانیہ ہے۔ اس اعتبار سے تیرہویں صدی تک مسلمانوں کے ملّی تصورنے وہ بیانیہ تشکیل دیا کہ جس کے زیر اثر مجموعی دنیا پر وان چڑھی۔بعدازاں پندرہویں صدی کی نشاۃ الثانیہ (Renaissance)نے پورے یورپ کو بیدار کیا۔پھر واسکوڈی گاما کے ثمرات کے حصول کے لیے مغرب کی تجارتی کمپنیاں پرتگالی، ولندیذی ، فرانسیسی اور ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے نام پر سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان پر غلبے کے حصول میں مصروف کار ہوئیں۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں بیرونی زبانوں کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھی گئی جس کی نمایاں مثالیں سنسکرت، فارسی اور انگریزی ہیں یہ تینوں مقامی زبانیں نہیں ہیں۔گوتم کے پیروکار چند رگپت موریانے چانکیہ کی دانش کے سہارے متحدہ ہندوستان کاتصور پیش کیااور چانکیہ نےچوتھی صدی قبل مسیح میں ارتھ شاستر تصنیف کی .............................................۔......
یہ باتیں اس لیے کی جارہی ہیں کہ اگرگو تم بت کا بیانیہ نہ ہوتا تو ممکن ہے ہندوستان کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔مختصر یہ کہ قومی تشخص کے ساتھ جڑا ہوا بیانیہ کسی بھی قوم کو ترقی سے ہمکنار کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتاہے۔ ہم بیرونی زبانوں کے ضمن میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب سنسکرت کابیانیہ مقامی بیانیے سے ہم آہنگ نہ رہا تو وسط ایشیائے حملہ آوروں کو خاصی سہولت میسر آئی کیونکہ جب قوموں کا بیانیہ مقامی نہیں رہتا تو وہ تقسیم درتقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھا تی ہیں۔ ماضی میں یہ طاقتیں ملکوں پر قبضہ کرلیتی تھیں آج معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں۔پاکستان کے قیام کو71 برس ہوگئے لیکن تا حال پاکستانی بیانیہ ظہور میں نہ آسکا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام ہو کہ معاشی نظام ، سب کچھ تنزل کا شکار ہے کرپشن کی آوازوں سے لے کر ناانصافی ، میرٹ کے فقدان کے نعروں کی گونج میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو مزید تقویت مل رہی ہے۔اب تو حال یہ ہے کہ یہ کہانی ہر گھر کی ہے۔ جوائنٹ فیملی سستم قصہ پارینہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ ایک ہی خاندان کے افراد میں بھی اتفاق و اتحاد کمیاب ہوتا جارہاہے ۔ یہ ماحول اس لیے پیدا ہوا کہ تاحال ہمارا بیانیہ انگریزی کے زیراثر ہے ۔ یقیناًہم ایک تاریک عہد کے باشندے ہیں۔ یورپ اس تاریک عہد سے 600برس میں نکل پایا تھا۔ امریکیوں کو سلام ہے کہ ان کی آزادی میں انکے دانشوروں کا یہ کہنا کہ ہم برطانوی بیانیے کو نہیں مانتے۔ اب ہمارے ہاں امریکی ملٹن (Milton) اور امریکی شیکسپئر (Shakespeare)پیدا ہونگے۔ 1776میں امریکہ آزاد ہوا۔ پہلے صدر جارج واشنگٹن سے لیکر ابراہم لنکن تک بنیادی اصلاحات ہوئیں۔ مگر 1865ابراہم لنکن کو قتل کردیا گیا۔ لیکن اسوقت تک امریکہ کا مقامی بیانیہ اس حد تک مضبوط ہوگیا تھا کہ لنکن کے قتل سے بھی امر یکہ کوکوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کے دانشوروں اور حکمرانوں نے امریکہ کو امریکن بیانیے کی طرف گامزن کئے رکھا۔ یہاں یہ بات بھی محلِ نظر رہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی زبان انگریزی ہی تھی۔تاریخ شاہد ہے کہ بیانیہ کسی قوم کو غلام بناتا ہے اور کسی قوم کو آزاد کرتا ہے مگر قوموں کو یہ آزادی اس وقت میسر آتی ہے کہ جب قوموں کا اپنا بیانیہ مقامی ہو۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ فرانسیسی بیانیہ تشکیل پانے میں بہت وقت لگا۔ یہی معاملہ جرمنی کے بیانیے کارہا اور یہی دیگر اقوام کا ہے۔فن لینڈScandivian Countriesکاایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں کا تعلیمی نظام مثال ہے اور وہ اس لیے مثالی ہے کہ وہاں کی ثقافت سے ہم آہنگ بیانئے نے انہیں مثالی ترقی سے ہمکنار کررکھا ہے۔فن لینڈ میںNokiaایک چھوٹا سادریا ہے اور Nokia Mobileکی ایکسپورٹ سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسکا نام ہی انہوں نے اپنے تشخص پر رکھا۔یہاں یہ بات محل نظر رہے کہ جب تک انگریزی بیانیہ لاطینی کے زیر اثر رہا ، برطانوی سامراج ترقی سے کوسوں دور رہا ۔
پاکستان اور پاکستانی بیانیہ کا معاملہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ پاکستان کی تشکیل میں اردو زبان کو تفوق حاصل رہا کہ اس زبان میں پورے ہندوستان کے رہنے والوں کے ملی تصورات جگہ پاگئے تھے یعنی مسلمانوں ،ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں وغیرہ کے ملّی تصورات گویا ان تصورات نے اردو کو پورے ہندوستان کی زبان بنادیا تھا۔ حالانکہ یہ زبان براہ راست ہندوستان کے کسی بھی خطے سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔1862میں فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر گستاؤلی بان کے مطابق 25کروڑکی آبادی میں سب سے زیادہ یعنی 8کروڑ 25لاکھ اردو بولنے والے پائے جاتے تھے۔ 1877میں بلوچستان کی سرکاری زبان بھی اردو رہی۔یہ اعداد وشمار اس لیے پیش کئے جارہے ہیں جیسا کہ ہم بتا آئے ہیں کہ سنسکر ت بیانئے کے کمزور پڑنے کے بعد فارسی بولنے والے ہندوستان کے حکمران بنے۔ لیکن اورنگزیب کے عہد میں فارسی بیانیہ کمزورپڑ گیا تو نتیجتاً اردو جو سب کی زبان بنتی جارہی تھی ، دربارنے بھی اسے اپنا لیا۔ لیکن جب انگریزوں نے ہندی کو اردو کے مقابل لاکھڑا کیا تو معاملات ایک بار پھر تقسیم در تقسیم کی ڈگر پر چل نکلے ۔جناب !زبان ایک ایسی حقیقت کانام ہے جو مذہب سے بڑی اکائی بناتی ہے۔انگریزوں کی نظر سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان پر تھی۔ انہیں ابھی لاطینی بیانئے سے پیچھا چھڑائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ وہ ہندوستان میں اپنے بیانیے کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویج میں بھی حصہ دار رہے لیکن بعدازاں 1835ء میں یہ اعلان سامنے آیا کہ تعلیم بہ زبان انگریزی ہوگی تو یہ مطلب واضح تھا کہ اردو اور ہندوستان کی دوسری زبانیں انگریزی بیانیے کے زیر اثر ہوں گی۔ اس سلسلے میں سول سروسز بطور خاص تشکیل دیا گیا۔بہرحال معزز صحافی حضرات !!ہم نے طوالت کے ڈر سے اختصار سے کام لیا ورنہ ہم آپ کو تمام دنیا جہاں کے بیانیہ کی سیر کراسکتے ہیں۔یہ بات ہم اسلئے بھی زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پیش نظر امریکہ ہے اور حاکم ومحکوم کی زبان انگریزی ہے۔ پس ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ زبانوں سے اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا کہ اپنا بیانیہ نہ ہونے سے پڑتا ہے۔اگر کسی قوم کے بیانیے میں تشخص نہیں تو پھر کوئی اسے ذلت ورسوائی سے نہیں بچا سکتا قوم اپنے بیانیے کے بغیر متحد نہیں ہوسکتی ہے۔اس کی مثال ہمارے پڑوس میں ہی موجود ہے۔ یعنی ہندوستان میں جہاں سہ لسانی فارمولا ہے۔ وہاں کے لوگ خواہ انگریزی بول رہے ہوں ، گجراتی بول رہے ہوں، مراٹھی بول رہے ہوں، ان کا بیانیہ ہندوستانی ہے۔ جبکہ ہندی بھی وہاں کسی کی ماں بولی نہیں ہے۔ہندوستان کے بیانیے کے مضبوط ہونے سے ان کی معیشت، خارجہ پالیسی اور 22فیصد سافٹ ویئر میں ان کا حصہ یہ بتاتا ہے کہ بیانیہ ترقی کی بنیاد ہوتا ہے۔ہمیں دانش و بینش کی سطح پر تیزی سے پاکستانی بیانئے کی طرف آنا چاہیے۔ یہاں کسی زبان سے کسی زبان کا جھگڑا نہیں۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہماری قومی زبانیں انگریزی کے ساتھ ترقی کرسکتی ہیں یا اردو کے ساتھ؟
کیاپاکستانی بیانیے کے بغیر ہم ایک قوم بن سکتے ہیں؟
کیاپاکستانی بیانیے کے بغیر ہم غربت کا خاتمہ کرسکتے ہیں؟
ہم معزز ارباب اختیار اور وزیراعظم صاحب کی مدد کیلئے حاضرہیں کہ ایسے کیا اقدامات کریں جس سے ہمارا قومی بیانیہ تشکیل پاجائے اوریہی قومیہ بیانیہ دیگراقوام کے بیانیوں سے برابری کی سطح پرتعلق بنائے۔ہُوایہ کہ پاکستان بننے کے بعد اردو اور ہماری قومی زبانوں کووطنی تصور سے واسطہ پڑااور ہم وطنی بیانیے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے نہ نبھاسکے۔لہٰذا ہم چند ہم خیال احباب نے ایک Think Tank ادارہ پاک بیانیہ پاکستان قائم کیا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام پاکستان بالخصوص صاحبان اقتدار و اہل دانش وبینش ہمارا ساتھ دیں۔آپ صحافی حضرات سے درخواست ہے کہ اپنے اخبارات ورسائل اور ٹی وی چینلز میں اس خیال کو آگے بڑھائیں اور جوبات تشنہ محسوس ہوتوا س پر سیر حاصل بحث کریں۔
*پروفیسر ڈاکٹرشاداب احسانی*
ادارہ پاکستانی بیانیہ پاکستان

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry