ہمارے یہاں دائیں بازو، مذہب پرست، عسکریت پسند اور آمرانہ سوچ کے حامل
ذہن نے اپنے لیے ایک خود ساختہ ولن بنایا۔ اس کی صفات کا فیصلہ کیا پھر اس
ولن کا نام لبرل رکھ دیا۔ اس کے بعد اس ذہن نے جہاں بھی اپنے سے متصادم سوچ
دیکھی اسے لبرلزم کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ان میں سے کسی نے جان لاک، جان
سٹیورٹ مل یا رچرڈ پرائس کا نام نہیں سنا۔ کسی کو قدیم یونان میں جنم لینے
والی لبرل روایات کا علم نہیں ہے۔ کوئی یہ نہیں جانتا کہ آج جس پارلیمانی
نظام کے باعث عام آدمی کو آواز ملی ہے وہ اسی لبرلزم کی دین ہے۔
عجب معاملہ ہے کہ لوگ باگ پرویز مشرف کو لبرل کہتے ہیں۔ بھلا کوئی آمر
لبرل کیسے ہو سکتا ہے۔ لبرلزم تو آمریت کے خلاف سب سے مضبوط استعارہ ہے۔
ایک دوست لبرل پارٹی کی مثال دیتے ہیں تو سب سے پہلے ایم کیو ایم کا نام
لیتے ہیں۔ کون ان کو بتائے کہ فاشزم اور لبرلزم کے ہجے مختلف ہوتے ہیں۔ فرق
سمجھیے۔ عبدالستار ایدھی، راشد رحمان اور ملالہ یوسفزئی لبرل ہیں پر پرویز
مشرف، الطاف حسین اور یحیی خان لبرل نہیں ہیں۔
ذرا زحمت کیجیے، لبرلزم کے بارے میں دو چار صفحات پڑھ لیجیے۔ کچھ لبرل اقدار پر نظر ڈال لیجیے۔ کلاسیکل اور جدید لبرلزم کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ آمریت اور جمہوریت کی کشمکش کو اس کے درست تناظر میں دیکھیے۔ مذہبی استحصال اور مذہبی اخلاقیات کو الگ کرنا سیکھ لیجیے۔ پھر آئیے۔ لبرلزم پر بات کرتے ہیں۔ پھبتیاں کسنا، بے ہودہ مفروضے بنانا اور بے بنیاد طنز و تشنیع کا دفتر کھولنا محض اس امر کا اظہار ہے کہ آپ کے پاس علمی اور تحقیقی سطح پر کہنے کو کچھ نہیں ہے اور آپ صرف کچھ ایسے خطیبوں کے مقلد ہیں جن کے منہ میں زبان تو ہے پر کاسہ سر میں دماغ نہیں ہے
ذرا زحمت کیجیے، لبرلزم کے بارے میں دو چار صفحات پڑھ لیجیے۔ کچھ لبرل اقدار پر نظر ڈال لیجیے۔ کلاسیکل اور جدید لبرلزم کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے۔ آمریت اور جمہوریت کی کشمکش کو اس کے درست تناظر میں دیکھیے۔ مذہبی استحصال اور مذہبی اخلاقیات کو الگ کرنا سیکھ لیجیے۔ پھر آئیے۔ لبرلزم پر بات کرتے ہیں۔ پھبتیاں کسنا، بے ہودہ مفروضے بنانا اور بے بنیاد طنز و تشنیع کا دفتر کھولنا محض اس امر کا اظہار ہے کہ آپ کے پاس علمی اور تحقیقی سطح پر کہنے کو کچھ نہیں ہے اور آپ صرف کچھ ایسے خطیبوں کے مقلد ہیں جن کے منہ میں زبان تو ہے پر کاسہ سر میں دماغ نہیں ہے
No comments:
Post a Comment