عید سے دو چار روز پہلے دفتر نے ڈیوٹی لگائی کہ صارم برنی کے یہاں کوئی ماں
اپنے دو بچے چھوڑ گئی ہے اس پہ رپورٹ بنانی ہے موضوع بھی حساس تھا سو سبزی
منڈی یونیورسٹی روڈ پہ واقع صارم برنی کے اس دفتر پہنچ گیا جہاں بلڈنگ سے
بڑا انکا بینرز چسپاں تھا اور انکے عکس کیساتھ تحریر تھا " آو نیکی کریں "
بہرحال عمارت کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پہنچا دروازہ بجایا تو اندر سے
چوکیدار برآمد ہوا اس سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان بچوں سے ملنے آیا
ہوں جنہیں انکی ماں یہاں چھوڑ گئی ہے ۔۔ چوکیدار بولا یہاں ایسا کچھ نہیں
یہ دفتر تو ابھی بن رہا ہے ۔۔۔ میں نکل پڑا اگلی منزل بندر روڈ پہ واقع
صارم برنی کا دوسرا دفتر تھا ، گھنٹی دبائی دروازہ کھلا اوپر چلا گیا
وہاں آنکھیں ملتا ہوا ایک شخص ملا ، اسے کہا کہ صحافی ہوں ان بچوں سے ملنا
ہے جنہیں ماں چھوڑ گئی تھی وہ حیرت سے مجھے تکنے لگا اور کہا مجھے نہیں پتہ
آپ اندر آجائیں کھولی نما دفتر کے اندر گھسا تو استقبالیہ پہ گرمی سے
پریشان قمیض اتارے کچھ ملازمین سو رہے تھے انہیں پھلانگ کر مزید آگے بڑھا
تو ایک لمبا سا کمرہ تھا جہاں کچھ کمپیوٹرز رکھے تھے وہاں بھی دو تین لوگ
سو رہے تھے {یہ اتوار کا دن تھا }انہیں جگایا اور ٹیپ ریکارڈر کی طرح وہی
بات دھرادی مجھے تو اس نے طریقے سے خوش آمدید کہا لیکن اندر لانے والے
ملازم پہ ضرور برسا کہ اسے یوں کیسے لے آئے ۔۔۔۔
بہرحال اس شخص نے بھی کہا کہ اسے اس بابت کوئی علم نہیں لیکن ادارے کے شلٹر ہوم فون کرکے پتہ کرتا ہوں شاید وہاں ہوں بچے ، وہ فون ملاتا رہا لیکن اگلوں نے اٹھانا تھا نہ کوئی جواب دینا سو خاموشی ملی ۔۔
وہاں سے مایوس ہوکر ناظم آباد میں واقع اس بڑے بنگلے پہنچا جو صارم برنی والوں کا شلٹر ہوم تھا دروازہ بجایا اندر سے ایک بزرگ نکلے وہی رام کہانی انہیں بھی سنائی جو پہلے دو دفاتر میں سنا چکا تھا ۔۔۔ وہ بیچارہ سادہ سا آدمی تھا کہنے لگا آپکی بھابھی سے بات ہوئی ہے ؟؟؟ کون بھابھی میں نے پوچھا ، جی وہ عالیہ بھابھی صارم صاحب کی بیگم ۔۔۔۔
میں نے کہا انہیں نہیں جانتا ، خیر اتنی دیر میں نے اس نے عالیہ بی بی سے بات کی اور پھر موبائل مجھے پکڑا دیا دوسری طرف عالیہ بھابھی تھیں جنہوں نے مجھ سے تحقیقات شروع کردیں کہ کیا کیوں کون کیسے ؟؟ عرض کیا فیض اللہ خان نام ہے رپورٹر ہوں ادارے نے اس اسٹوری کے لئِے اسائن کیا ہے جو بچے آپکے پاس ہیں ان پہ کام کرسکوں اور انکی ماں کی تلاش کے لئِے صارم برنی نے اشتہار دے رکھا تھا کہ معاونت کی جائے سو اسی مدد کے لئِے حاضر ہوا ہوں ۔۔۔
بھابھی نے پھر تفتیش شروع کردی کہ کیا آپ کو اقرار الحسن نے بھیجا ہے یا کسی اور نے وغیرہ وغیرہ ؟ بولا ، میڈم ادارے نے بھیجا ہے صارم برنی نے تلاش کا اشتہار لگا رکھا ہے یہ کل کہانی ہے ۔۔۔ روزہ گرمی سفر اوپر سے بے تکے سوالات اور انکے دفاتر کی حالت زار سے اب میرا ضبط ختم ہوتا جارہا تھا لیکن پرسکون رہا ۔۔۔۔
میڈم پھر بولیں ، اپنے بڑوں کو بتادیں اس شلٹر ہوم کو صرف میں چلاتی ہوں تو یہاں جو بھی آئے مجھے اطلاع دے ، عرض کیا یہی تو کر رہا ہوں کونسا اندر گھس گیا ۔۔۔ نہیں میری موجودگی کے بغیر نہیں جاسکتے آپ ، یہ حساس جگہ ہے آپ شام چار بجے یا رات آجائیں ۔۔۔ میڈم اسوقت تک میری چھٹی ہوچکی ہوگی پھر جسے دفتر چاھے بھیج دے بہرحال بات نہیں بنی اور میں وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
لب لباب اس ساری کہانی کا یہ ہے کہ چیرٹی کے نام پہ بس دھندے چل رھے ہیں کمانے کھانے کے بہانے ہیں ذاتی تشہیر کے مواقع کوئی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا میڈم کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ میرے بغیر کیسے یہ انٹرویوز ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ صدقات خیرات احتیاط سے کریں اور سب سے بہتر و اعلی یہی ہے کہ پہلے اپنے عزیز و اقارب کو دیں اسکے بعد کسی اور کو پھر ضرورت محسوس ہو تو مستند ادروں کو چندہ دیں جیسا کہ اخوت ، الخدمت ، ایس آئی یو ٹی ، دعا، انڈس وغیرہ وغیرہ یا جس تنظیم کو اسکے کام کو آپ ذاتی حیثیت میں جانتے ہوں ۔۔۔ ورنہ تو کہانیاں ہی ہیں ساری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال اس شخص نے بھی کہا کہ اسے اس بابت کوئی علم نہیں لیکن ادارے کے شلٹر ہوم فون کرکے پتہ کرتا ہوں شاید وہاں ہوں بچے ، وہ فون ملاتا رہا لیکن اگلوں نے اٹھانا تھا نہ کوئی جواب دینا سو خاموشی ملی ۔۔
وہاں سے مایوس ہوکر ناظم آباد میں واقع اس بڑے بنگلے پہنچا جو صارم برنی والوں کا شلٹر ہوم تھا دروازہ بجایا اندر سے ایک بزرگ نکلے وہی رام کہانی انہیں بھی سنائی جو پہلے دو دفاتر میں سنا چکا تھا ۔۔۔ وہ بیچارہ سادہ سا آدمی تھا کہنے لگا آپکی بھابھی سے بات ہوئی ہے ؟؟؟ کون بھابھی میں نے پوچھا ، جی وہ عالیہ بھابھی صارم صاحب کی بیگم ۔۔۔۔
میں نے کہا انہیں نہیں جانتا ، خیر اتنی دیر میں نے اس نے عالیہ بی بی سے بات کی اور پھر موبائل مجھے پکڑا دیا دوسری طرف عالیہ بھابھی تھیں جنہوں نے مجھ سے تحقیقات شروع کردیں کہ کیا کیوں کون کیسے ؟؟ عرض کیا فیض اللہ خان نام ہے رپورٹر ہوں ادارے نے اس اسٹوری کے لئِے اسائن کیا ہے جو بچے آپکے پاس ہیں ان پہ کام کرسکوں اور انکی ماں کی تلاش کے لئِے صارم برنی نے اشتہار دے رکھا تھا کہ معاونت کی جائے سو اسی مدد کے لئِے حاضر ہوا ہوں ۔۔۔
بھابھی نے پھر تفتیش شروع کردی کہ کیا آپ کو اقرار الحسن نے بھیجا ہے یا کسی اور نے وغیرہ وغیرہ ؟ بولا ، میڈم ادارے نے بھیجا ہے صارم برنی نے تلاش کا اشتہار لگا رکھا ہے یہ کل کہانی ہے ۔۔۔ روزہ گرمی سفر اوپر سے بے تکے سوالات اور انکے دفاتر کی حالت زار سے اب میرا ضبط ختم ہوتا جارہا تھا لیکن پرسکون رہا ۔۔۔۔
میڈم پھر بولیں ، اپنے بڑوں کو بتادیں اس شلٹر ہوم کو صرف میں چلاتی ہوں تو یہاں جو بھی آئے مجھے اطلاع دے ، عرض کیا یہی تو کر رہا ہوں کونسا اندر گھس گیا ۔۔۔ نہیں میری موجودگی کے بغیر نہیں جاسکتے آپ ، یہ حساس جگہ ہے آپ شام چار بجے یا رات آجائیں ۔۔۔ میڈم اسوقت تک میری چھٹی ہوچکی ہوگی پھر جسے دفتر چاھے بھیج دے بہرحال بات نہیں بنی اور میں وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
لب لباب اس ساری کہانی کا یہ ہے کہ چیرٹی کے نام پہ بس دھندے چل رھے ہیں کمانے کھانے کے بہانے ہیں ذاتی تشہیر کے مواقع کوئی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا میڈم کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ میرے بغیر کیسے یہ انٹرویوز ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ صدقات خیرات احتیاط سے کریں اور سب سے بہتر و اعلی یہی ہے کہ پہلے اپنے عزیز و اقارب کو دیں اسکے بعد کسی اور کو پھر ضرورت محسوس ہو تو مستند ادروں کو چندہ دیں جیسا کہ اخوت ، الخدمت ، ایس آئی یو ٹی ، دعا، انڈس وغیرہ وغیرہ یا جس تنظیم کو اسکے کام کو آپ ذاتی حیثیت میں جانتے ہوں ۔۔۔ ورنہ تو کہانیاں ہی ہیں ساری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment