اس
وقت پاکستان کی قومی اسمبلی کی کل 33 اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہیں، 2 سپیشل
کمیٹیاں ہیں، 7پارلیمانی کمیٹیاں ہیں، 5 نان منسٹریل سٹینڈنگ کمیٹیاں ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کی 34 اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہیں، 4 فنکشنل کمیٹیاں ہیں، 4
دیگر کمیٹیاں ہیں، 6سپیشل کمیٹیاں ہیں، 4ڈومیسٹک کمیٹیاں ہیں، 36 سیکریٹری
کمیٹیاں ہیں۔ گویا کل ملا کر 131 کیمیٹیاں ہیں۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر
کمیٹیوں کے ممبران اور ان کے چیرپرسنز کے اخراجات کی کوئی تفصیل موجود
نہیں ہے۔ تاہم سینیٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر ایک کمیٹی کے چیئرمین کو
درجہ ذیل مراعات ملتی ہیں۔
Salary Rs. 27,377
Sumptuary Allowance Rs. 5,000
Office Maint. Allowance Rs. 8,000
Telephone Allowance Rs. 10,000
Honorarium Rs. 12,700
Adhoc Relief (2010) Rs. 11,903
15% Adhoc Relief (2011) Rs. 3,571
20 % Adhoc Relief (2012) Rs. 5,475
10% Adhoc Relief (2013) Rs. 2,738
10% Adhoc Relief (2014) Rs. 2,738
Total: Rs. 89,502
اس کے علاوہ ماہانہ 360 لیٹر پٹرول، گریڈ 17 کا ایک پرائیویٹ سیکریٹری، گریڈ 15 کا ایک اسٹینو گرافر، ایک ڈرائیور اور ایک نائب قاصد۔ سالانہ تین لاکھ کے سفری واوچرز، سلانہ بیس بزنس کلاس ریٹرن ائیر ٹکٹس، سینیٹ کے سیشن اور کمیٹی کی میٹنگ پر 1750 روپے ڈیلی الاوئنس، 3000 روپے ڈیلی الاونس سپیشل، 2000روپے کنوینس الاونس، 2000 ہاوسنگ الاونس۔ مفت ٹیلی فون، مفت میڈیکل کی سہولت بمعہ بیگم یا شوہر، اور 1300 کی ایک گاڑی۔ سال میں 130 دن کے سیشنز لازمی ہیں۔ گویا اس طرح کل ملا کر ایک چیرمین کمیٹی پر سالانہ تقریباََ 3800000 خرچ ہوتے ہیں۔ بطور ممبر ایک سینیٹر کی تنخواہ 76802 ( سالانہ921624)، تین لاکھ کے سفری واوچرز، اور 130 دنوں کا 137500 کا الاونس بھی شامل کر لیجیے۔اس میں مہیا کیا گیا سٹاف کی تنخواہ شامل نہیں، میڈیکل بلز کا کوئی تخمینہ نہیں شامل نہیں ہے اور نہ ہی دفتر کی تزئین و آرائش، فرنیچر، اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔ یوں کل ملا کر ایک سٹینڈنگ کمیٹی کا چئیرمین تقریباََ سالانہ 5000000 سے 6000000 میں عوام کو پڑتا ہے۔ دیگر کمیٹیوں کے اخراجات کی تفصیل موجود نہیں تاہم قرین قیاس یہی ہے کہ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹییوں کے چئیرمینوں کی مراعات بھی اتنی ہی ہوں گی۔ گویا کمیٹی ممبران کی مراعات سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر صرف 67اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چئیرمینوں کی مراعات کا سالانہ تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم 335000000 سے 402000000 سالانہ بنتی ہے۔ یوں قومی اسمبلی کے 342 ممبران اور سینیٹ کے 104 ممبران کی مراعات کا تخمینہ بھی لگا لیجیے۔ اب اس میں اگر اس میں سدگر قائمہ کمیٹیاں ان کے اخراجات، 50 وزیروں اور مشیروں کے اخراجات شامل کر لیں، ان کے مراعات اور وزیراعظم ہاوس کے اخراجات، پروٹوکول، سیکیورٹی روٹس، خصوصی طیارہ، بیرونی دوروں کے اخراجات بھی شامل کر کے اندازہ لگائیں کہ کتنا مزید ٹیکس عوام پر لگنا چاہیے۔
اب ایسا نہیں ہے کہ مراعات صرف موجودہ حکومت کی دین ہیں۔ یہ نظام ایسا ہی چلتا رہا ہے اور موجودہ حکومت بھی بالکل ایسا ہی چل رہا ہے۔ یہ اخراجات سالانہ اربوں میں ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس صورتحال میں جب ملک کے ہینڈسم کا ہیلی کاپٹر 55 روپے کلومیٹر میں چلتا ہے، دس بھینسیں نیلام کی جاتی ہیں، صدر کی رہائش کی آرائش و زیبائش کے لئے کروڑوں روپے کے ٹینڈر دئیے جاتے ہیں تو ” عمران خان دے جلسے وچ نچنے دا دل کرن والے“ ننھے انقلابی تبدیلی کا راگ الاپتے ہیں یا ملک کی دیگر جماعتوں کے سربراہان کو گالیاں دیتے تو تکلیف ہوتی ہے۔ دس ماہ میں قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ خان صاحب وہی معاشی اور سیاسی ٹیم لے کر آئے جس پر چوری کے علی اعلان الزامات لگایا کرتے تھے۔ ایسے میں دس ماہ سے انتقامی سیاست کر کے عوام کو جس چوری اور احتساب نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، اس میں سے اگر زرداری اور نوازشریف پر اتنا بھی پیسہ ثابت ہو جائے جتنا پارلیمانی مراعات و الاونسس پر خرچ ہوتا ہے تو تاریخ یاد رکھے گی۔ مگر یہ ہو کر نہیں دے گا۔ آپ لکھ لیجیے کہ زرداری اور نوازشریف نہ صرف پہلے جیسے چھوٹ کر آئیں بلکہ صاف شفاف ہو کر اسی پارلیمان کی زینت بنیں گے۔ اس لئے ازراہ کرم اس تبدیلی نامی ناسور کو بلاک ماریئے اور سکون کرئیے۔ تبدیلی کی پہلی اور آخری واری ہے۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ ایک میاں اظہر بھی ہوا کرتا تھا؟ برساتی مینڈکوں کی عمریں اتنی ہی ہوتی ہیں۔
Salary Rs. 27,377
Sumptuary Allowance Rs. 5,000
Office Maint. Allowance Rs. 8,000
Telephone Allowance Rs. 10,000
Honorarium Rs. 12,700
Adhoc Relief (2010) Rs. 11,903
15% Adhoc Relief (2011) Rs. 3,571
20 % Adhoc Relief (2012) Rs. 5,475
10% Adhoc Relief (2013) Rs. 2,738
10% Adhoc Relief (2014) Rs. 2,738
Total: Rs. 89,502
اس کے علاوہ ماہانہ 360 لیٹر پٹرول، گریڈ 17 کا ایک پرائیویٹ سیکریٹری، گریڈ 15 کا ایک اسٹینو گرافر، ایک ڈرائیور اور ایک نائب قاصد۔ سالانہ تین لاکھ کے سفری واوچرز، سلانہ بیس بزنس کلاس ریٹرن ائیر ٹکٹس، سینیٹ کے سیشن اور کمیٹی کی میٹنگ پر 1750 روپے ڈیلی الاوئنس، 3000 روپے ڈیلی الاونس سپیشل، 2000روپے کنوینس الاونس، 2000 ہاوسنگ الاونس۔ مفت ٹیلی فون، مفت میڈیکل کی سہولت بمعہ بیگم یا شوہر، اور 1300 کی ایک گاڑی۔ سال میں 130 دن کے سیشنز لازمی ہیں۔ گویا اس طرح کل ملا کر ایک چیرمین کمیٹی پر سالانہ تقریباََ 3800000 خرچ ہوتے ہیں۔ بطور ممبر ایک سینیٹر کی تنخواہ 76802 ( سالانہ921624)، تین لاکھ کے سفری واوچرز، اور 130 دنوں کا 137500 کا الاونس بھی شامل کر لیجیے۔اس میں مہیا کیا گیا سٹاف کی تنخواہ شامل نہیں، میڈیکل بلز کا کوئی تخمینہ نہیں شامل نہیں ہے اور نہ ہی دفتر کی تزئین و آرائش، فرنیچر، اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔ یوں کل ملا کر ایک سٹینڈنگ کمیٹی کا چئیرمین تقریباََ سالانہ 5000000 سے 6000000 میں عوام کو پڑتا ہے۔ دیگر کمیٹیوں کے اخراجات کی تفصیل موجود نہیں تاہم قرین قیاس یہی ہے کہ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹییوں کے چئیرمینوں کی مراعات بھی اتنی ہی ہوں گی۔ گویا کمیٹی ممبران کی مراعات سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر صرف 67اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چئیرمینوں کی مراعات کا سالانہ تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم 335000000 سے 402000000 سالانہ بنتی ہے۔ یوں قومی اسمبلی کے 342 ممبران اور سینیٹ کے 104 ممبران کی مراعات کا تخمینہ بھی لگا لیجیے۔ اب اس میں اگر اس میں سدگر قائمہ کمیٹیاں ان کے اخراجات، 50 وزیروں اور مشیروں کے اخراجات شامل کر لیں، ان کے مراعات اور وزیراعظم ہاوس کے اخراجات، پروٹوکول، سیکیورٹی روٹس، خصوصی طیارہ، بیرونی دوروں کے اخراجات بھی شامل کر کے اندازہ لگائیں کہ کتنا مزید ٹیکس عوام پر لگنا چاہیے۔
اب ایسا نہیں ہے کہ مراعات صرف موجودہ حکومت کی دین ہیں۔ یہ نظام ایسا ہی چلتا رہا ہے اور موجودہ حکومت بھی بالکل ایسا ہی چل رہا ہے۔ یہ اخراجات سالانہ اربوں میں ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس صورتحال میں جب ملک کے ہینڈسم کا ہیلی کاپٹر 55 روپے کلومیٹر میں چلتا ہے، دس بھینسیں نیلام کی جاتی ہیں، صدر کی رہائش کی آرائش و زیبائش کے لئے کروڑوں روپے کے ٹینڈر دئیے جاتے ہیں تو ” عمران خان دے جلسے وچ نچنے دا دل کرن والے“ ننھے انقلابی تبدیلی کا راگ الاپتے ہیں یا ملک کی دیگر جماعتوں کے سربراہان کو گالیاں دیتے تو تکلیف ہوتی ہے۔ دس ماہ میں قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ خان صاحب وہی معاشی اور سیاسی ٹیم لے کر آئے جس پر چوری کے علی اعلان الزامات لگایا کرتے تھے۔ ایسے میں دس ماہ سے انتقامی سیاست کر کے عوام کو جس چوری اور احتساب نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، اس میں سے اگر زرداری اور نوازشریف پر اتنا بھی پیسہ ثابت ہو جائے جتنا پارلیمانی مراعات و الاونسس پر خرچ ہوتا ہے تو تاریخ یاد رکھے گی۔ مگر یہ ہو کر نہیں دے گا۔ آپ لکھ لیجیے کہ زرداری اور نوازشریف نہ صرف پہلے جیسے چھوٹ کر آئیں بلکہ صاف شفاف ہو کر اسی پارلیمان کی زینت بنیں گے۔ اس لئے ازراہ کرم اس تبدیلی نامی ناسور کو بلاک ماریئے اور سکون کرئیے۔ تبدیلی کی پہلی اور آخری واری ہے۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ ایک میاں اظہر بھی ہوا کرتا تھا؟ برساتی مینڈکوں کی عمریں اتنی ہی ہوتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment