جنرل باجوہ کی جنرل قمر کے ساتھ کھل کر بات چیت:
جنرل باجوہ: یار قمر کہیں اس بندے کی سلیکشن میں ہم نے غلطی تو نہیں کر لی؟
جنرل قمر: سر آپ غلطی کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ کو یاد نہیں کہ F.A میں آپکے کتنے اچھے مارکس تھے؟
جنرل باجوہ: یہ بات تو تمہاری بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن یہ تشویشناک اقتصادی حالت؟
جنرل قمر: تو اس میں آپ کا کیا قصور ہے؟ آپ کا کام سلیکشن تھا اس میں آپ نے کوئی کسر چھوڑی ہو؟ اب سب کچھ آپ نے تو نہیں کرنا نا؟ آپ کو بجٹ ہی کتنا ملتا ہے؟ اتنے کم بجٹ میں تین سرحدوں پر جنگ کا ماحول بنا کر رکھنا، ملک میں اندرونی جنگ کو مینیج کرنا، سیاست کو دیکھنا، میڈیا کو قابو میں رکھنا۔ ججوں کو ضابطے کے مطابق چلانا۔ خارجہ پالیسی تک کی ذمہ داری تو آپ نے اٹھا رکھی ہے۔ کیا اب اکانومی کا ذمہ بھی آپ کو اٹھانا پڑے گا؟
جنرل باجوہ: یار قمر جس طرح کے حالات ہیں لگتا ہے کہ یہ کام بھی مجھے ہی دیکھنا پڑے گا۔
جنرل قمر: سر مجھے آپ کی صلاحیتوں پر کبھی بھی شک نہیں رہا۔ لیکن میری صلاح ہے کہ اگر یہ کام بھی آپ نے دیکھنا ہے تو بجٹ بڑھوانا پڑے گا۔ اتنے کم بجٹ میں آپ نہ مانئے گا۔
جنرل باجوہ۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن پھر لوگوں نے پوچھا کہ اس گدھے کو کیوں سلیکٹ کیا تو کیا کہوں گا؟
جنرل قمر: سر لوگ خود گدھے ہیں ان کو آپ جلال میں کچھ بھی کہہ لیں وہ مان جائیں گے۔ آپ کی سلیکشن ضیاء الحق کی سلیکشن سے تو بہرحال بہتر ہے۔ یاد ہے جب ضیاء الحق نے سلیکشن کی تھی؟ بات نہیں کر سکتا تھا بیچارہ۔ آجکل فل انقلابی لیڈر بنا ہوا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں۔ آپ اکانومی کو سنبھالیں مگر اتنے کم بجٹ کے ساتھ نہیں۔ پیسے بڑھوائیں۔
جنرل باجوہ: ویری گڈ ڈسکشن۔ مجھے یقین تھا کہ میری اوپن ڈسکشن والی تجویز کامیاب ہو گی۔
راجہ محسن
No comments:
Post a Comment