آج میرے ایک ایسے دوست کی سالگرہ ہے جسے میرے امریکہ پہنچنے کی خبر ملی تو
آدھا درجن ریاستیں پھلانگتا چار دن ڈرائیو کرتا گاڑی میں رات بسر کرتا وہ
میرے پاس پہنچا تو اس کی گاڑی کی ڈگی اس کے پاس دستیاب ہر چیز سے بھری ہوئی
تھی۔ بقول اس کے میں شیمپو کی وہ بوتل بھی اٹھا لایا ہوں جو ایک ہفتے سے
الٹی کر رکھی تھی۔ شیمپو سے لیکر ٹیلی ویژن اور لیپ ٹاپ سے لیکر ہوا بھرنے
والے میٹرس تک جو کچھ اس کے پاس تھا وہ میرے لیے لے آیا تھا۔ اس کے بعد اس
نے اپنی جیب سے کچھ پیسے نکالے اور مجھے تھمائے کہ میں نے اپنے وظیفے میں
سے پیسے بچائے ہیں تو جلدی میں گھر سے نکلا ہے تجھے ضرورت ہو گی یہ رکھ
لے۔ وہ آدمی سفر کے بیچ وال مارٹ کی پارکنگ میں گاڑی لگا کر اس لیے گاڑی
میں سوتا رہا کہ وہ دو تین سو ڈالر جو ان راتوں میں ہوٹل پر خرچ ہونے ہیں
انہیں ان پیسوں میں شامل کر سکے جو وہ مجھے دینا چاہتا تھا۔ کہنے کو وہ
پاکستان کی بیوروکریسی کا حصہ تھا۔ افسر تھا۔ ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں ڈپٹی کمشنر
تھا اور خدا خبر کیا کیا تھا۔ لیکن دوستوں کے ساتھ وہ صرف دوست تھا۔ کمال
کا شاعر تھا اگرچہ اس نے جو کچھ لکھا کبھی سنبھال کر نہیں رکھا۔ کشور کے
گانے گانے کا شوقین تھا اور کمال گاتا تھا۔ جو تھوڑا بہت فلسفہ میں پڑھا اس
میں میرا استاد تھا۔ دوستوں کا دوست تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پیسے اور
سٹیٹس سے ایسا لاپرواہ تھا جیسا لاپرواہ ہونے کا حق ہے۔
اپنی اس سالگرہ پر وہ ہمارے ساتھ نہیں۔ موت نے ہم دوستوں میں لیجانے کے لیے سب سے پہلے اسے چنا۔ کیوں اس کا جواب کسی کے پاس نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ کہیں نا کہیں بیٹھا کشور کا گانا گنگناتا انگلیوں سے میز پر تھاپ دیتا۔ چائے کی پیالی اٹھائے منتظر ہے کہ ہم سب اکھٹے ہوں اور وہ ہمیں بتائے کہ ٹینشن نہ لو یار۔ یہاں کچھ بھی ایسا نہیں جو ہم وہاں دیکھ نہیں آئے۔
سالگرہ مبارک تیمور۔۔۔
اپنی اس سالگرہ پر وہ ہمارے ساتھ نہیں۔ موت نے ہم دوستوں میں لیجانے کے لیے سب سے پہلے اسے چنا۔ کیوں اس کا جواب کسی کے پاس نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ کہیں نا کہیں بیٹھا کشور کا گانا گنگناتا انگلیوں سے میز پر تھاپ دیتا۔ چائے کی پیالی اٹھائے منتظر ہے کہ ہم سب اکھٹے ہوں اور وہ ہمیں بتائے کہ ٹینشن نہ لو یار۔ یہاں کچھ بھی ایسا نہیں جو ہم وہاں دیکھ نہیں آئے۔
سالگرہ مبارک تیمور۔۔۔
No comments:
Post a Comment