Monday, 24 June 2019

دیسی لبرل، لنڈے کے لبرل اور ملحد لبرل

حاشر ابن ارشاد

دیسی لبرل، لنڈے کے لبرل اور ملحد لبرل جیسی اصطلاحات تو ہمارے پسندیدہ بیانیے کے نقیبوں کی نوک زبان پر یوں بھی دھری ہیں۔ گرد اتنی اڑائی گئی ہے کہ اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ لبرل ہے کون۔ لبرل فلسفہ اور بیانیہ اصل میں کیا ہے، اس پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی تعریف ایجاد کر لی ہے اور ہر نئی تعریف پچھلی سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ اور کچھ نہیں سوجھتا تو لکیر کے دونوں جانب پیر رکھے دانشور ایک ہی سانس میں مذہبی شدت پسند کو ایک خود ساختہ لبرل شدت پسند کے ساتھ کھڑا کر کے چاند ماری کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مقصود محض یہی ہے کہ لوگ اعتدال پسندی کا شاہکار صرف انہی کو سمجھیں جو ایک سانس میں شدت پسندی کو لبرلز اور ملا پر چسپاں کر سکیں۔ کوئی یہ پوچھے کہ شدت پسندی کس چڑیا کا نام ہے تو جواب عنقا ہے۔

ملا کی شدت پسندی کے مظاہر ہم دیکھ چکے ہیں۔ ستر ہزار لاشوں کا تحفہ لبرلزم نے عنایت نہیں کیا ہے۔ سرکاری اور نجی املاک کو نذر آتش کرنے والے کون سے لبرل ہیں۔ لڑکیوں کے سکول بم سے اڑانے والے بھی اپنے آپ کو لبرل نہیں کہتے۔ بینظیر کی موت ہو، ملالہ پر حملہ ہو یا اے پی ایس میں لہو ہوئے بچے ہوں، کوئی بندوق کسی لبرل کے ہاتھ میں نہیں پائی گئی۔ ابھی کچھ دن پہلے پورے پاکستان کو بند کرنے والے بھی لبرل نہیں تھے۔ تو ان شدت پسندوں کے مقابل، جن کے پاس ڈنڈا بھی ہے، تلوار بھی، بندوق بھی اور بم بھی، جو جب چاہیں قتل کا فتویٰ دے سکتے ہیں، ہر شاہراہ بند کر سکتے ہیں، سر عام کسی کو سنگسار کر سکتے ہیں، آگ میں جلا سکتے ہیں، گولیوں سے بھون سکتے ہیں، ان کے مقابل آپ جانتے ہیں لبرل شدت پسند کیا کر سکتا ہے۔

وہ بیچارہ ڈرتے ڈرتے ایک کالم لکھ سکتا ہے جسے کوئی چھاپتا نہیں ہے۔ وہ ایک تقریر کر سکتا ہے جس کے بعد نامعلوم افراد اسے گھر سے اٹھا سکتے ہیں۔ وہ بہت ہمت کرے تو پندرہ بیس لوگ اکٹھے کر کے پریس کلب کے باہر ایک مظاہرہ کر سکتا ہے جس کو کوئی میڈیا کا نمائندہ کور نہیں کر سکتا۔ وہ انتخابات میں اپنا بیانیہ سنانے کی پاداش میں اپنے پر کفر کے فتوے لگوا سکتا ہے۔ وہ سچ کی تفہیم کے جرم میں اورتوہین کے الزام میں اپنی جوانی جیل میں کاٹ سکتا ہے۔

وہ صرف اپنا فرض نبھانے کی کوشش میں اپنے سینے میں بتیس گولیاں کھا سکتا ہے۔ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے پاس نفرت میں جھلستا ہوا ہجوم نہیں ہے۔ بم اور بندوق تو دور، اس کے پاس تو ایک چھوٹا چاقو بھی نہیں۔ ہے۔ اس کے پاس فتوے نہیں ہیں۔ اس کے پاس منبر نہیں ہے۔ اس کے سر پر دستار نہیں ہے۔ اس کی زبان پر مہر لگی ہے، اس کے الفاظ پر صاحب اختیار روز سیاہی پھیرتے ہیں۔ لیکن صاحب پھر بھی وہ شدت پسند کہلاتا ہے۔ عوام کی آنکھ میں اسے فاشسٹ بنا دیا گیا ہے۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ قلم کو تلوار سے بڑا ہتھیار کیوں کہتے ہیں۔ دانشوران ملت یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ شدت پسند کی تلوار سے زیادہ تباہی لبرل کے قلم میں ہے۔

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry