Sunday, 30 June 2019

40 Percent of Children in Pakistan are Malnourished,

According to UNICEF, 40 percent of children are malnourished, resulting in a high rate of stunted growth.
Children are dying of preventable diseases because their bodies are too weak to fight the infections.

اپوزیشن کا باپ بھی حکومت نہیں گرا سکتا

عمران خان حکومت کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کبھی بھی اپنے بل بوتے پر اسے نہیں گرا پائے گی۔یہ کوئی پیش گوئی نہیں بلکہ تہتر برس کا پیٹرن یہی ہے کہ حزبِ اختلاف استعمال تو ہو سکتی ہے، اپنی قیمت تو لگوا سکتی ہے، پر حالات کا دھارا اپنے حق میں نہیں موڑ سکتی۔
پچاس کی دہائی میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سات برس میں چھ وزرائے اعظم عوام نے نہیں بلکہ گورنر جنرل غلام محمد ، کمانڈر انچیف و وزیرِ دفاع جنرل ایوب خان اور سیکرٹری دفاع و گورنر جنرل و صدر اسکندر مرزا اور ان کے سیاسی کاسہ لیسوں نے تبدیل کئے۔
اس عرصے میں اٹھنے والی طلبا تحریکیں، لسانی ایجی ٹیشن، مذہبی دنگے اور بائیں بازو کی طاقت کو طالع آزماؤں نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے نہائیت زیرکی سے استعمال کر لیا۔
اس دور میں بھارت میں مسلسل وزیرِ اعظم رہنے والے پنڈت جواہر لال نہرو کا یہ طنز بے جا نہیں تھا کہ میرے پاس جتنی شیروانیاں ہیں ان سے زیادہ پاکستان میں حکومتیں بدل چکی ہیں۔
سن چونسٹھ کے صدارتی انتخابات میں ایک طرف فیلڈ مارشل ایوب خان اور دوسری جانب متحدہ اپوزیشن تھی۔ مگر وہ قائدِ اعظم کی ہمشیرہ کو اپنا چہرہ بنانے کے باوجود ایوب خان کا بال بیکا نہ کر سکی۔
پینسٹھ کی جنگ میں کشمیر پروجیکٹ کی ناکامی، تاشقند میں ہزیمت اور پھر اڑسٹھ کی طلبا تحریک بھی سویلین بالادستی کا خواب پورا نہ کر سکی۔ یہ خواب یحییٰ خان نے ایوب خان سے استعفی رکھوا کے راستے میں ہی اچک لیا۔
اکہتر کی جنگ میں شکست کے بعد بھٹو حکومت کو جو انتقالِ اقتدار ہوا وہ کسی سویلین دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ فوج کے اندرونی دباؤ نے یحیی خان کو ترکِ اقتدار پر مجبور کیا۔

ستتر میں بھٹو کے خلاف تحریک بے ساختہ نہیں انجینرڈ تھی لہذا یہ تحریک بھی پکے ہوئے پھل کی طرح جنرل ضیا الحق کی جھولی میں جا گری۔ ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے ضیا حکومت کے خاتمے کے لئے دو بھرپور سویلین کوششیں ہوئیں مگر چونکہ ان کوششوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی دھڑے کی حمائیت حاصل نہیں تھی لہذا ان کا مقدر ناکامی ٹھہرا۔
ضیا دور سے مشرف کے آنے تک یکے بعد دیگرے جن تین وزرائے اعظم کی پانچ حکومتیں آئیں اور گئیں وہ سڑک کے ایجی ٹیشن نے تبدیل نہیں کروائیں بلکہ محلاتی منصوبہ بندی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئیں۔
پرویز مشرف کا کوئی سویلین تب تک بال بیکا نہ کر سکا جب تک انہوں نے خود عدلیہ سے جھگڑا مول کے سیاسی و انتظامی ہارا کاری نہیں کر لی۔ تین وزرائے اعظم مشرف دور میں آئے اور چلے گئے ۔چوتھے سے بھی معاملہ پٹ جاتا مگر حالات نے مشرف کو پیٹ ڈالا۔
زرداری نے تنے ہوئے رسے پر چلتے ہوئے اور ممنون حسین نے نہایت ممنونیت کے ساتھ بطور سویلین صدر پانچ برس ضرور پورے کئے۔ مگر کوئی وزیرِ اعظم آج تک یہ جادوئی لکیر عبور نہ کر سکا۔ نواز شریف عمران خان کے دھرنے سے نہیں بلکہ دھرنے، پانامہ اور ڈان لیکس کے لیف رائٹ سنٹر پنچ منہ پر پڑنے سے ناک آؤٹ ہوئے ۔
لہذا جب تک چھوٹی بیگم پیا کی منظورِ نظر ہے۔ حزبِ اختلاف جتنا بھی بدبدا لے یا بھوت بن کے ڈرا لے چھوٹی بیگم کی جوتی کی نوک پر۔
حزبِ اختلاف کو عوام کا درد تھوڑا ہے۔ حزبِ اختلاف کا مسئلہ بس اتنا ہے کہ چھوٹی بیگم پر ہی سارا کرم کیوں؟ آخر ہم بھی تو کبھی جوان تھے حسین تھے اور کل تک آپ ہم پر بھی جان چھڑکتے تھے۔ آج کیا ہم اتنے برے ہو گئے؟
حزبِ اختلاف کے پاس ویسے بھی کیا ہے سوائے دوپٹہ پھیلا کے ’سلیکٹڈ‘ کو کوسنے دینے کے؟
جب تک موجود حکومت اسی طرح خود کو چوکی چولہے تک محدود رکھے گی اور دن بھر حزبِ اختلاف سے پچھلی گلی کے دروازے پر کھڑی ہو کر ہاتھ لمبے کر کر کے لڑنے کے بعد بھی شام کو بناؤ سنگھار کر کے ’ان کا‘ انتظار کرتی رہے گی اور منہ سے ’ان کا‘ نام لینے کے بجائے ’اجی سنئے‘ پکارتی رہے گی تب تک حزبِ اختلاف کا باپ بھی اس من چاہی حکومت کی راہ کھوٹی کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
سدا سہاگن رہو سدا سکھی رہو ، دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔۔۔

شہید ساز

شہید ساز

سعادت حسن منٹو
میں گجرات کاٹھیاواڑ کا رہنے والا ہوں۔ ذات کا بنیا ہوں۔ پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان کا ’ٹنٹا‘ ہوا تو میں بالکل بیکار تھا۔ معاف کیجئے گا میں نے لفظ ٹنٹا استعمال کیا۔ مگر اس میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ اردو زبان میں باہر کے لفظ آنے ہی چاہیں۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہوں۔
جی ہاں میں بالکل بیکار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا ساکاروبار چل رہاتھا۔ جس سے کچھ آمدن کی صورت ہی ہو جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا تو اِدھر کے آدمی ا دھراور ا دھر کے اِدھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے۔ تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں۔ کوکین کا نہ سہی کوئی اور کاروبار شروع کر دوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔
میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ کوئی موٹا کاروبار کروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الاٹمنٹوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مسکہ پالش مجھے آتا ہی تھا، چکنی چپڑی باتیں کیں، ایک دو آدمیوں کے ساتھ یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرا لیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تومیں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرنے لگا۔
کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کر نا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹمنٹوں کے سلسلے میں کافی تگ ودو کرنی پڑی۔ کسی کو مسکہ لگایا، کسی کی مٹھی گرم کی، کسی کو کھانے کی دعوت دی، کسی کو ناچ رنگ کی، غرضیکہ بے شمار بکھیڑے تھے، دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔
انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی۔ چنانچہ ایک برس کے اندر اندرمیں نے لاکھوں روپے پیدا کر لیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کے لیے کوٹھی، بینک میں بے انداز مال پانی۔۔۔ معاف کیجئے گا میں کاٹھیاواڑ گجرات کا روز مرہ کا لفظ استعمال کر گیا۔ مگر کوئی داندہ نہیں اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہیں۔۔۔ جی ہاں اللہ کا دیا سب کچھ تھا رہنے کے لیے بہترین کوٹھی، نوکر چاکر، پیکارڈ موٹر، بینک میں ڈھائی لاکھ روپے، کارخانے اور دوکانیں الگ۔۔۔ یہ سب تھا۔ لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا، لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہیے کہ بوجھ اتنا آن پڑا تھاکہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟
آدمی ذہین ہوں، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہو جائے تو میں اسکا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں، ٹھنڈے دل سے (حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا) میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑ بڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟
عورت؟۔۔۔ ہو سکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں۔ جو تھی وہ کاٹھیاواڑ گجرات ہی میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے، سچ پوچھئے تو عورت جوان ہونی چاہیے اور یہ ضروری نہیں کے زیادہ پڑی لکھی ہو۔ اپن کو تو ساری جوان عورتیں چلتی ہیں(کاٹھیاواڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اردو میں نعم البدل موجود نہیں)عورت کا تو سوال ہی اٹھ گیا اور دولت کا تو پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ بندہ زیادہ لالچی نہیں۔ جو کچھ ہے اسی پر قناعت ہے۔۔۔ لیکن پھر یہ دل والی بات کیوں پیدا ہو گئی تھی؟ آدمی ذہین ہوں کوئی مسئلہ سامنے آجائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دوکانیں بھی چل رہی تھیں۔ روپیہ اپنے آپ پیداہو رہاتھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔ کاٹھیاواڑ گجرات میں تو بیسیوں نیک کام کیے تھے۔ مثال کے طور پرجب میر ادوست پانڈومر گیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر ڈال دیااور دو برس تک اسکو دھندا کرنے سے روکے رکھا۔ ونائک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خرید دی۔ تقریباچالیس روپے اس پر اٹھ گئے تھے۔ جمنابائی کو گرمی ہو گئی۔ سالی کو (معاف کیجئے گا) کچھ پتاہی نہیں تھا۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا۔ لیکن پاکستان آ کر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیاتھااور دل کی گڑبڑ کی وجہ یہی تھی ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔ میں نے سوچا کیاکروں؟
خیرات دینے کا خیال آیا۔۔۔ لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب ہر شخص بیکاری ہے۔ کوئی بھوکا ہے کوئی ننگا، کس کس کا پیٹ بھروں، کس کا انگ ڈھانکوں؟ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں۔ لیکن ایک لنگر خانے سے کیا ہوتااور پھر اناج کہاں سے لاتا؟ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہواتو یہ خیال بھی ساتھ ہی پیدا ہو گیا کہ ایک طرف گناہ کر کے دوسری طرف کارِ ثواب کا مطلب کیاہے؟
گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دکھ درد سنے۔ سچ پوچھیے تو ہر شخص دکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں۔ اور وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کار کا نیا ماڈل نہیں۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی۔ ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔
میں نے غالب کی ایک غزل اللہ بخشے شوال پوری کی امینہ بائی چتلے کر سے سنی تھی، ایک شعر یاد رہ گیاہے۔ ’کس کی حاجت رواکرے کوئی۔‘
معاف کیجئے گا یہ اس کا دوسرا مصرعہ ہے اور ہو سکتا ہے پہلاہی ہو۔
جی ہاں۔ میں کس کس کی حاجت روا کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے۔ میں نے پھر یہ بھی سوچا کہ خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکما بنا دیا ہے۔ دن بھر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، تاش کھیل رہے ہیں، جگا ہو رہی ہے، جگا کا مطلب ہے قمار بازی۔ گالیاں بک رہے ہیں اور فوگٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے تھے۔ چنانچہ میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ بھیک دینا ہر گز نیکی کا کام نہیں۔ لیکن پھر نیکی کے کام کیلئے اور کون سا راستہ ہے؟
کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مر رہے تھے۔ کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوا دوں مگر سوچنے پر ارادہ ترک کر دیا۔ پوری سکیم تیار کر چکا تھا۔ عمارت کیلئے ٹینڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہو جاتا۔ اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کر دیتا اور ٹینڈر اس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پر صرف کروں گا۔ ظاہر ہے کہ 70 ہزار روپے میں عمارت کھڑی کر دیتااور تیس ہزار روپے بچا لیتا۔ مگر یہ ساری کی ساری سکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ جب میں نے
سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہو گی۔
غور کیا جائے تو یہ سارے کا سارہ لفڑہ ہی فالتو آبادی کا ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ برھتی جائیں گی۔ اناج زیادہ اگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچاکہ ہسپتال بنانا ہر گز ہرگز نیک کام نہیں۔ پھر سوچا مسجد بنوا دوں۔ لیکن اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر کا گایا ہواایک شعر یاد آگیا۔ ’نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا۔‘ وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پل بنا، چاہ بناہ، مسجد وتالاب بنا۔ کسی کمبخت کو نام ونمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اچھالنے کے لیے پل بناتے ہیں، نیکی کا کیا کام کرتے ہیں؟ خاک!
میں نے کہا نہیں۔۔۔ یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہر گز مفید نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ عوام بٹ جاتے ہیں۔ تھک ہار کر میں حج کی تیاریاں کر رہا تھاکہ اللہ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر میں ایک جلسہ ہوا، جب ختم ہوا تو لوگوں میں بد نظمی پھیل گئی۔ اتنی بھگدڑ مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔ میں نے سوچنا شروع کیا۔ سوچنے کے علاوہ کئی مولویوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں انہیں شہادت کا رتبہ ملتا ہے۔ یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ بھی نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ مرنے کے بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکل اکارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہو جاتے تو کوئی بات بنتی۔ میں نے اس باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔
چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکروتردد اور غمِ روزگار کے بوجھ تلے پسے ہوئے، دھنسی ہوئی آنکھیں، بے جان چال، کپڑے تار تار۔ ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح منہ اٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں، کیوں جی رہے ہیں کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں، اسکا کچھ پتا ہی نہیں۔ کوئی وبا پھیلی ہزاروں مر گئے اور کچھ ہیں جو بھوک اور پیاس سے ہی گھل گھل کر مرے۔ سردیوں میں اکڑ گئے، گرمیوں میں سوکھ گئے۔ کسی کی موت پر کسی نے دو آنسو بہا دئیے۔ اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔ زندگی سمجھ میں نہ آئی۔۔۔ ٹھیک ہے۔ اس سے لطف نہ اٹھایا یہ بھی ٹھیک ہے۔ وہ کس کا شعر ہے امینہ بائی درد بھری آواز میں گایاکرتی تھی۔ ’مر کے بھی چین نہ پایاتو کدھر جائیں گے۔‘
میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سسری پر۔ میں نے سوچاکیوں نہ بیچارے یہ قسمت کے مارے بیچارے، درد کے ٹھکرائے ہوئے انسان جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں، ا س دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ وہ جو اس دنیا میں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے تیار ہوں گے؟ میں نے سوچا کیوں نہیں وہ کون سامسلمان ہے جسکو ذوق شہادت نہیں۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندوو ں اور سکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت ناامیدی ہوئی۔ جب میں نے ایک مریل آدمی سے پوچھا کہ کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو؟ تو جواب ملانہیں۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ آدمی جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کے دیکھو بڑے میاں زیادہ سے زیادہ کم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے۔ چلنے کی تم میں سکت نہیں، کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہوتو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا۔ پھوٹی کوڑی تمہارے پاس نہیں ہے، زندگی بھر تم نے سکھ نہیں دیکھا، مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاپھر اور جی کر کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کر کے یہیں بازار میں یاڈیرے میں جہاں تم سوتے ہو اپنی شہادت کا بندوبست کر لو۔ اس نے پوچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے جواب دیاکہ سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے فرض کر لیا کے تم اس پر سے پھسل جاو ۔ ظاہر ہے کہ تم مر جاو گے اور شہادت کا رتبہ پاو گے۔ پڑی بات اسکی سمجھ میں، کہنے لگامیں کیوں آنکھوں دیکھے چھلکے پر پاو ں دھرنے لگا۔۔۔ کیا مجھے اپنی جان عزیز نہیں۔ اللہ اللہ کیا جان تھی۔۔۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ! جھریوں کی گٹھری۔۔۔ مجھے بہت افسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا جب میں نے سنا کہ وہ کمبخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رتبہ پا سکتا تھا خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چار پائی پر کھانستاکھنگارتامر گیا۔
ایک بڑھیا تھی، منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔۔۔ آخری سانس لے رہی تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ غریب کی ساری عمر مفلسی اور رنج و غم میں گزری تھی۔ میں اسے اٹھا کر ریل کی پٹڑی پر لے کر گیا۔ لیکن جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی ہوش میں آگئی اور ک وک بھرے کھلونے کی طرح اٹھ کر بھاگ گئی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔۔۔ بنیے کا بیٹا اپنی دھن کا پکا ہوتا ہے، نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ مغلوں کے دور کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا، اس میں ایک سو اِکاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ بہت ہی خستہ حالت تھی۔ میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیااورا س میں ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دیئے۔ دو مہینے کرایہ وصول کیا، ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے۔ تیسرے مہینے جیسے کہ میرا اندازہ تھا، پہلی ہی بڑی بارش میں سب کمروں کی چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے شہید ہو گئے۔ وہ جو میرے دل پر بوجھ بوجھ سا تھا کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی بھی کم ہو گئے اور انہیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔ ادھر کاپلڑا بھاری ہی رہا۔
جب سے میں یہی کام کر رہا ہوں۔ حسب توفیق میں ہر روز دو تین آدمیوں کو جام شہادت پلادیتا ہوں۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا پورا وجود چھکڑے کے پانچویں پہیے کی طرح بے معنی اور بیکار تھا، جام شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے۔ لیکن موت کی طرح شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روزجاکر وہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور شہید ہوا۔
آجکل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوارہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے۔ دو لاکھ کا ہے، اس میں سے پچھترہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرا لیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے تو ساری بلڈنگ اڑاڑا دھم گر پڑے گی۔ کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے۔ اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ پرلے درجے کا گنہگار ہے۔ جس کی شہادت اللہ تبارک وتعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔

سالگرہ مبارک تیمور

آج میرے ایک ایسے دوست کی سالگرہ ہے جسے میرے امریکہ پہنچنے کی خبر ملی تو آدھا درجن ریاستیں پھلانگتا چار دن ڈرائیو کرتا گاڑی میں رات بسر کرتا وہ میرے پاس پہنچا تو اس کی گاڑی کی ڈگی اس کے پاس دستیاب ہر چیز سے بھری ہوئی تھی۔ بقول اس کے میں شیمپو کی وہ بوتل بھی اٹھا لایا ہوں جو ایک ہفتے سے الٹی کر رکھی تھی۔ شیمپو سے لیکر ٹیلی ویژن اور لیپ ٹاپ سے لیکر ہوا بھرنے والے میٹرس تک جو کچھ اس کے پاس تھا وہ میرے لیے لے آیا تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنی جیب سے کچھ پیسے نکالے اور مجھے تھمائے کہ میں نے اپنے وظیفے میں سے پیسے بچائے ہیں تو جلدی میں گھر سے نکلا ہے تجھے ضرورت ہو گی یہ رکھ لے۔ وہ آدمی سفر کے بیچ وال مارٹ کی پارکنگ میں گاڑی لگا کر اس لیے گاڑی میں سوتا رہا کہ وہ دو تین سو ڈالر جو ان راتوں میں ہوٹل پر خرچ ہونے ہیں انہیں ان پیسوں میں شامل کر سکے جو وہ مجھے دینا چاہتا تھا۔ کہنے کو وہ پاکستان کی بیوروکریسی کا حصہ تھا۔ افسر تھا۔ ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں ڈپٹی کمشنر تھا اور خدا خبر کیا کیا تھا۔ لیکن دوستوں کے ساتھ وہ صرف دوست تھا۔ کمال کا شاعر تھا اگرچہ اس نے جو کچھ لکھا کبھی سنبھال کر نہیں رکھا۔ کشور کے گانے گانے کا شوقین تھا اور کمال گاتا تھا۔ جو تھوڑا بہت فلسفہ میں پڑھا اس میں میرا استاد تھا۔ دوستوں کا دوست تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پیسے اور سٹیٹس سے ایسا لاپرواہ تھا جیسا لاپرواہ ہونے کا حق ہے۔
اپنی اس سالگرہ پر وہ ہمارے ساتھ نہیں۔ موت نے ہم دوستوں میں لیجانے کے لیے سب سے پہلے اسے چنا۔ کیوں اس کا جواب کسی کے پاس نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ کہیں نا کہیں بیٹھا کشور کا گانا گنگناتا انگلیوں سے میز پر تھاپ دیتا۔ چائے کی پیالی اٹھائے منتظر ہے کہ ہم سب اکھٹے ہوں اور وہ ہمیں بتائے کہ ٹینشن نہ لو یار۔ یہاں کچھ بھی ایسا نہیں جو ہم وہاں دیکھ نہیں آئے۔
سالگرہ مبارک تیمور۔۔۔

Salman Haider

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں

عبیداللہ علیم

ایک تو خواب لئے پِھرتے ھو گلیوں گلیوں

ایک تو خواب لئے پِھرتے ھو گلیوں گلیوں
اُس پہ تکرار بھی کرتے ھو خریدار کے ساتھ

اسقدرخوف ھے اب شھر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سُنتے ھیں تو لگ جاتے ھیں دیوار کے ساتھ

ھم کو اِس شھر میں تعمیر کا سودا ھے جہاں
لوگ چُن دیتے ھیں معمار کو دیوار کے ساتھ

یوم تکیبر پر

یوم تکیبر پر
۔۔۔۔۔۔
زیادہ چاٹو یا کم چاٹو
جب بھوک لگے تو بم چاٹو
زیادہ پہنو یا کم پہنو
کپڑوں کی جگہ بهی بم پہنو
زیادہ ہو یا کم بانٹتے ہو
جب بیٹهتے ہو غم بانٹتے ہو
میاں یوم ولادت ہے بم کا
آج اسی خوشی میں بم بانٹو
یہ کس نے کہا اسے بم سمجھو
اسے زخموں کا مرہم سمجھو
یہ ناشکروں کی عادت ہے
جو پاس ہو اس کو کم سمجھو
اب اس کی حفاظت کرنی ہے
اس بم کو اپنا بم سمجهو
اور یوں بهی پاگل دیوانو
اے ناشکرو اے نادانو
جس قوم کے پاس ایٹم بم ہے
اس قوم کو آخر کیا غم ہے...
Salman Haider

کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر

کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر
اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر

تھوڑے میں دور کھینچے ہے کیا آدم آپ کو
اس مشت خاک کا ہے دماغ آسمان پر

کس پر تھے بے دماغ کہ ابرو بہت ہے خم
کچھ زور سا پڑا ہے کہیں اس کمان پر

یہ وہم ہے کہ اور کا ہے میرے تیں خیال
تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان پر

کیفیتیں ہزار ہیں اس کام جاں کے بیچ
دیتے ہیں لوگ جان تو ایک ایک آن پر

دامن میں آج میرؔ کے داغ شراب ہے
تھا اعتماد ہم کو بہت اس جوان پر ــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میر

حیرتِ عشق نہیں ذوق جنوں کوش نہیں

حیرتِ عشق نہیں ذوق جنوں کوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤ مجھے ہوش نہیں

خود فراموش ہوں نظارہ فراموش نہیں
بات تو ہوش کی کرتا ہوں مگر ہوش نہیں

میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں

دیکھ کر جلوہِ حق خود کو کیا ہے سجدہ
سمت بھولا ہوں مگر قبلہ فراموش نہیں

کہ گئی کان میں آ کر ترے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جسے ہوش نہیں

محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں

کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

اٹھ کے جس دن سے گیا ہے کوئی پہلو سے جگر
ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرا آغوش نہیں

جگر مراد آبادی

میں اکثر سوچدا رہناں

میں اکثر سوچدا رہناں خدا تسلیم کیتا اے
خدا تسلیم نہیں کردا جمع تقسیم نہیں کردا
فر آپے سمجه جاناں کہ خداواں دے خداواں توں خدا نے مار کهانی اے؟
بڑی لمی کہانی اے

کدی توں سوچیا کیوں نہیں جے ہوراں وانگ صابر وی
ترے کن کن تے کن دهردا زبر نوں زیر نہ کردا
ایہ میرا معجزہ اے کہ ترے آدم توں پہلاں دی میں کوئی رمز جانی اے
بڑی لمی کہانی اے

صابر علی صابر

آنکھ جھپکتے ہی ہمیشہ کچھ خواب

آنکھ جھپکتے ہی ہمیشہ کچھ خواب
تاریک یہ رات اور حالت اضطراب

سفرِ عشق میں کچھ پہر سکوں کے بعد
ملتا ہے سب کو پھر زندگی بھر کا عذاب

تاریک ان راتوں سے ڈر لگتا ہے
شام کے بعد بھی نہ بجھایا جائے آفتاب

کچھ نشانیاں بتاؤں تمھیں مریضِ عشق کی
افسردگی، اضطراب اور آنکھوں میں آب

ظلم سہہ کہ بھی کیسے خاموش رہتے ہیں
آؤ تم کو سکھادیں ہم کچھ محبت کے آداب
#محمداسدالرحمن

اچے بُرج لاھور دے جِتھے

اچے بُرج لاھور دے جِتھے بَلدے چار مشال
 اِک پاسے دا داتاؒ مالک اِک دا مادھو لالؒ
 ایتھے ای اے میاں میرؒ دی ہستی 
ایتھے ای اے شاہ جمالؒ






پوسٹروں سے ڈرتے ھو

پوسٹروں سے ڈرتے ھو۔۔۔۔۔ الو ویسٹرن
اے صاحب
پوسٹروں سے ڈرتے ھو
کاغذوں سے ڈرتے ھو
چند مٹھی بھر عورتوں سے ڈرتے ھو
جو ابھی گھروں میں ہیں
ان سے تم نہیں ڈرتے
ان پہ شیر ھوتے ھو
نوچ نوچ کھاتے ہو
جو بھی عورت جانتی ھے
جو تمھیں للکارتی ھے
اس ڈرنے لگتے ھو
پدرشاھی میں پناہ لینے لگتے ھو
سب محافظوں کو لے کر
ٹویٹروں پہ آتے ھو
طنز کی گولیاں برسآتے ھو
ان چند پوسٹروں میں تمھیں
آئینہ جب دکھتا ھے
اپنا بھیانک روپ دیکھ کر
خود سے ڈر جاتے ھو
اور زور زور سے چلاتے ھو
یہ گنہگار عورتیں یہ گنہگار عورتیں
آزاد خودمختار عورتیں
تمھاری جو نہ چلنے دیں
ایسی خودمختار عورتیں
جاو جاو گھر جاو
اک نیا پلے کارڈ بناو
ہاں بالکل ویسا ھی
کہ اپنا جنازہ خود پڑھنا
ھم جنازے پڑھ لیں گے
ان کے بھی جن کے تم نہیں پڑھتے
ان کے بھی
جن کو مرنے کے بعد بھی
تم معاف نہیں کرتے
سب کے جنازے پڑھ لیں گے
اور تم کہو تو تمھارا بھی
ھم جنازہ پڑھ لیں گے
خوشی سے دفنائیں گے
اور ہاں قبر پر
اک کتبہ بھی لگائیں گے
اس قبر میں گندی ذہنیت
ابدی نیند سو رھی ھے

Mohsin Minxiu

جو پال رکھا ہے تم نے میاں گمانِ خرد

جو پال رکھا ہے تم نے میاں گمانِ خرد
تو پھر سناؤں تمھاری میں داستانِ خرد

میں اہلِ جہل پہ اک نظم لکھنے والا ہوں
اسی لیے تو گریزاں ہیں صاحبانِ خرد

مجھے بہت ہے یہی وحشت و جنوں بھائی
تمھیں سنبھالو یہ دنیا یہ کاروانِ خرد

جاذل

یوم پاکستان اور غدار کا خواب


یوم پاکستان اور غدار کا خواب 

حاشر ابن ارشاد 


کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے ہر پانسو بچوں میں سے ایک کے دل میں سوراخ ہوتا ہے۔ کبھی ایک سوراخ، کبھی ایک سے زیادہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے اکثریت کے سوراخ خود بخود بھر جاتے ہیں۔ پھر کچھ بدبخت بچے میرے جیسے ہوتے ہیں جو مکمل دل کےساتھ پیدا ہوتے ہیں پر انہیں بچپن میں ہی کوئی سوال کرنا سکھا دیتا ہے۔ کوئی یہ بھی کان میں ڈال دیتا ہے کہ سوال بند گلی نہیں ہوتے، روزن زنداں ہوتے ہیں۔ پھر مجھ جیسوں کو یہ خوش فہمی ہو جاتی ہے کہ یہ روزن بناتے گئے تو ایک دن دیوار ڈھے جائے گی اور سحر دکھائی دینے لگے گی۔ روز سورج طلوع ہوتا نظر آئے گا۔ روز انجم فلک سیاہ کو روشن کر دیں گے۔ ہوتا لیکن یہ ہے کہ دن گزرتے چلے جاتے ہیں۔ ہر نئی صبح دیوار پہلے سے اونچی ملتی ہے۔ پہلے سے زیادہ ناقابل شکست اور پھر پتہ لگتا ہے کہ سب روزن تو دل میں بن گئے ہیں۔ میں اپنا دل دیکھتا ہوں۔ ہوتے ہوتے اس میں بہت چھید ہو گئے ہیں۔ ہم الم نصیبوں کے پاس خوشیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں تو وہ دل میں ٹھہر نہیں پاتیں۔ غم بہت بڑے ہوتے ہیں تو وہ ان سوراخوں میں ہمیشہ کے لیے اٹک جاتے ہیں۔ یہ دریدہ دل بس دکھ کی سرائے بن کر رہ جاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس کے مسافر کوچ نہیں کرتے۔ مستقل مہمان بنے رہتے ہیں۔
چپ رہنے کے اسلوب سیکھے نہیں اور سچ کے بھانبڑ اب سہنے کا یارا کسی میں نہیں ہے۔ عجب بے بسی سی بے بسی ہے۔ سوال کنگ ہیں۔ جواب جان لیوا ہیں۔ کہنے کو کچھ رہا نہیں ہے اور بن کہے کوئی سمجھتا نہیں ہے۔ دوستوں کو مجھ سے شکایت ہے کہ ہر لمحہ طرب میں ہی مجھ پر قنوطیت کا نزول کیوں ہوتا ہے۔ انہیں کون بتائے کہ مجھ سے زیادہ خوشی کا متلاشی ڈھونڈے سے نہیں ملے گا پر چاہ نخشب سے اگتے گولے کو چاند کیسے مان لوں۔ سراب سے پیاس کو سیراب کیسے کروں اور شاہ رگ سے ابلتے خون پر بینڈ ایڈ لگا کر مطمئن کیسے ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ المیہ صرف اس ملک کا نہیں ہے جس سے مجھے نسبت ہے پر اسی نسبت کے ناطے میری طناب جاں یہیں گڑی ہے تو میں اسی دائرے کا اسیر، یہیں آواز اٹھاتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایسے بہت سے اور دائرے ہیں اور ہر دائرے میں لے میں لے نہ ملانے والا غدار کہلاتا ہے ۔ ہم پہ تہمت یوں بھی ہے ۔ ووں بھی ہے۔
چلیے، میں بہت سے سوال چھوڑ دیتا ہوں۔ میں نہیں پوچھتا کہ آج کے دن کی تاریخ ہے کیا۔ میں نہیں پوچھتا کہ قرارداد لاہور میں الگ ملک کی تو بات تھی ہی نہیں۔ میں نہیں پوچھتا کہ قرارداد اگر 24 مارچ کو منظور ہوئی تھی تو اس کا یوم تاسیس 23 مارچ کیونکر ہوا۔ میں نہیں پوچھتا کہ 1941 سے 1947 تک کبھی مسلم لیگ نے 23 مارچ کا دن کیوں نہیں منایا۔ میں نہیں پوچھتا کہ 1947 سے 1956 تک مملکت پاکستان میں کسی کو یوم پاکستان منانے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ میں اس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا کہ 1956 کے آئین کی 23 مارچ کو منظوری سے ملک کو حقیقی آزادی کیونکر نصیب ہوئی تھی۔ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ 1956 سے 1958 تک 23 مارچ کو منایا جانے والا یوم جمہوریہ اچانک 1959 سے یوم پاکستان کیسے بن گیا اور آئین سے وابستہ دن اچانک ایک بھولی بسری قرارداد سے کیسے جوڑ دیا گیا۔ میں 1958 میں لگنے والے مارشل لاء، پاکستان کے پہلے آئین کی پامالی اور مردودی، محترم فیلڈ مارشل ایوب خان کی جمہوریت پسندی اور 23 مارچ کے باہمی تعلق پر تو بالکل ہی خاموش رہتا ہوں اور یہ پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ 1973 کے آئین کا دن کونسا ہے۔ میں یہ سب سوال قالین کا کونا اٹھا کر نیچے دھکیل دیتا ہوں۔ وہاں ایسے بہت سے اور سوال وقت کی دھول میں اٹے بے دم پڑے ہیں۔ کچھ اور سہی۔
پر یہ تاریخی مغالطوں کا قصہ تو تھا ہی نہیں۔ یہ تو میرے درد کی داستان تھی۔ میرے دل کے ایک ایک روزن سے رسنے والے لہو کی کہانی تھی۔ میں اس کا کیا کروں کہ میرے خواب کنکریٹ کی سڑک پر دوڑتے لوہے کے بکتر بند قلعوں سے کہیں دور بہار کی ایک دوپہر میں کھلتے گل لالہ کی ایک کلی سے جڑے ہیں۔ مجھے اعتراف کر لینے دیجیے کہ میں ایک بزدل آدمی ہوں۔ مجھے ہتھیار اچھے نہیں لگتے۔ جنگی ترانے سن کر مجھے ویتنام میں نیپام بم سے جھلسی نیم برہنہ بچی یاد آتی ہے۔ جہاز میری چھت پر سے سد صوت کو روند کر گزرتے ہیں تو مجھے ناگاساکی کے ریزہ ریزہ ہوتے جسم دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ٹینکوں کی شان وشوکت میں مجھے اسٹالن گراڈ کا شہر برباد نظر آتا ہے۔ فوجی مارچ کرتے گزرتے ہیں تو مجھے لاہورسے ڈھاکہ، ڈھاکہ سے کارگل اور کارگل سے وزیرستان تک جوانوں کے تابوت میں لوٹتے لاشے نظر آنے لگتے ہیں۔
ٹھہریے ۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں جنگ ناگزیر ہے۔ میں جانتا ہوں ابھی ہتھیار بھٹی میں پگھلانے کا وقت نہیں آیا۔ میں جانتا ہوں کہ بندوق کی نال میں ابھی پھول اگانے کا موسم نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ طاقت اب بھی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جرم ضعیفی کی سزا اب بھی مرگ مفاجات ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انسان نے عقیدے سے محبت کرنا سیکھ لی ہے، وطن سے محبت کرنا سیکھ لی ہے، نظریے سے محبت کرنا بھی سیکھ لی ہے۔ نہیں سیکھی تو انسان نے انسان سے محبت کرنا نہیں سیکھی۔ تو جب تک زمین میں لکیریں کھنچی ہیں اور عقیدے اور نظریے جان سے زیادہ محترم ہیں تب تک تلوار کی دھار، گولی کی مار اور نفرت کا وار ستار سے نکلے سر، قلم سے نکلے لفظ اور محبت کے شجر سایہ دار پر غالب رہے گا۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ اس سب کے ہوتے بھی نمائش کا جو اسلوب ہم نے اپنایا ہے۔ اس سے حاصل کیا ہے، یہ میں کسی طور سمجھ نہیں پاتا۔
میرا مسئلہ سمجھیے۔ میرے پاس کچھ تصویریں ہیں۔ یہ ایک تصویر میں چھ سات سال کا بچہ دن بھر کی مزدوری سے بے حال ننگے پیر، پھٹے کپڑوں میں ملتان کے قریب ایک سڑک کے کنارے بچھی بجری پر سو رہا ہے۔ ایک تصویر میں راولپنڈی کی سبزی منڈی میں ایک دس سال کی پیاری سی بچی کی آنکھ میں منجمد آنسو ہے جب اس نے کسی نے بس یہ پوچھا کہ تم نے کچھ کھایا ہے۔ ایک تصویر میں ڈسٹرکٹ ہسپتال جیکب آباد کے برآمدے کے ننگے ٹھنڈے فرش پر پڑا ایک ستر سالہ بزرگ ہے جو کچھ دیر میں مر جائے گا کہ ہسپتال میں نہ بیڈ ہے نہ دوائی نہ اسے دیکھنے کو ڈاکٹر۔ ایک اور تصویر میں کراچی میں وی آئی پی ٹریفک میں پھنسے ایک رکشے میں تڑپتی عورت ہے جو کچھ دیر میں اسی رکشے میں اپنے بچے کو جنم دے گی۔ ایک تصویر میں حجرہ شاہ مقیم کی ایک گلی کا منظر ہے جدھر ابلتے ہوئے بدبودار سیوریج کے پانی سے ایک جنازہ گزر رہا ہے۔ یہ مظفر گڑھ کی تصویر ہے ۔سیلاب کے پانی میں بہتی کچھ بچوں کی لاشیں ہیں اور جہاں پانی ٹھہر گیا ہے وہاں ان کا بوڑھا دادا اس حال میں کھڑا ہے کہ گردن تک پانی ہے اور چہرے پر صرف بے بسی رقم ہے۔ انکھوں میں دکھ جم گیا ہے اور کچھ شکوے بھی۔ گوادر کی ایک تصویر ہے۔ مستقبل کے دوبئی میں یہ کچھ عورتیں ہیں جو دس میل دور سے پانی ڈھو کر لے جا رہی ہیں۔ یہ تھر کا ایک جوہڑ ہے جہاں کالے سیاہ پانی سے جانور اور انسان ایک وقت میں پیاس بجھا رہے ہیں۔ یہ مردان میں ریپ اور قتل ہونے والی بچی کی تصویر ہے۔ یہ لاہور کی ورکشاپ میں کام کرنے والے نو سالہ بچے کی تصویر ہے۔ یہ قصور کے بھٹے پر بیڑیاں پہنے پورا خاندان ہے۔ یہ گوجرہ کی جلتی ہوئی مسیحی کالونی ہے۔ یہ فیصل آباد کے اس ڈاکٹر کی لاش ہے جو صرف احمدی ہونے کی وجہ سے مار دیا گیا۔ یہ دریائے سواں کی تصویر ہے۔ اس کا نیلگوں پانی اب لئی کے پانی سے زیادہ سیاہ ہے۔ یہ ہنزہ میں شکار ہوا آئیبیکس ہے۔ یہ پگھلتا سکڑتا راکھیوٹ گلیشئیر ہے۔ یہ ونی میں دی جانے والی بچی ہے۔ یہ پیر ودھائی کے اڈے پر جنسی درندوں کی خواہشوں کی تسکین کرتا بچہ ہے۔ یہ چارسدہ اور تورغر کے سکولوں میں نہ جا سکنے والی بچیاں ہیں۔ یہ گونر فارم پر جلتی بس کے اندر خاک ہوتے شیعہ مسافر ہیں۔ یہ کوئٹہ کی علمدار روڈ پر بچھی ہزارہ لاشیں ہیں۔ یہ ملتان کی جیل میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹتا جنید حفیظ ہے۔ یہ منصفوں کے وقت نکال پانے کی منتظر آسیہ بی بی ہے۔ یہ اسلام آباد میں معلم سے مجرم بنا پروفیسر انوار ہے۔ یہ ایک سو سولہ روپے ہیں جو اب ایک ڈالر کے بدلے ملا کرتے ہیں اور یہ 200 کا ہندسہ ہے۔ اقوام عالم میں ہمارا مقام، آبروئے شہریت کے حوالے سے۔
ان ساری تصویروں کے ہجوم میں مجھے رنگ برنگے فلوٹ، اونچا ہوتا پرچم، ترانے گاتے گلوکار، ایوارڈ سمیٹتے فنکار، مارچ کرتے محافظ، لوہے اور فولاد کے چلتے پھرتے قلعے اور میزائیلوں کے ماڈل، کچھ بھی صحیح طرح دکھائی نہیں دیتا۔ میں گھبرا کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ بند آنکھوں سے خواب دیکھے جا سکتے ہیں تو میں بھی یہی کرتا ہوں۔ ایک ایسے پاکستان کے خواب جہاں عقیدہ آپکی حیثیت کا تعین نہ کرے۔ جہاں آپکی صنف آپکی راہ میں مزاحم نہ ہو۔ جہاں سوال کرنے کا حق ملے۔ جہاں نفرت کا بیوپار نہ ہو۔ جہاں خضدار اور لاہور کے بچے کے حقوق ایک جیسے ہوں۔ جہاں انسانی جان کی حرمت ہر نظریے سے بالاتر ہو۔ جہاں تعلیم، صحت اور انصاف پر سب کا ایک سا حق ہو۔ جہاں انسان ایمانیات،عقیدے، مسلک، ذات، برادری، زبان اور حلیے سے نہیں بلکہ اپنی اہلیت سے پہچانے اور تولے جائیں۔ آج کی تاریخ میں یہ خواب دیکھنا بھی جرم ہے۔ غداری ہے پر ہم امید کی ٹوٹتی ڈور سے اب بھی بندھے ہیں۔ کیا پتہ ایک یوم پاکستان ایسا بھی ہو جب ہم طاقت کی نہیں، انسان دوستی اور انسان پروری کی نمائش کے قابل ہوں۔ ایک ایسا یوم پاکستان جس پر پطرس مسیح بھی اتنا ہی خوش ہو جتنا حاشر ابن ارشاد۔

These are called Urdu Lovers & Proud of Urdu


مولانا ابوالکلام آزاد ایک دفعہ وائسرائے سے ملنے گئے تو ترجمان کے ذریعے بات ہو رہی تھی، ایک موقع پر ترجمان مولانا کی کوئی بات وائسرائے کو سمجھا نہیں پا رہا تھا تو مولانا نے خود انگریزی میں سمجھادی۔اس پر وائسرائے نے پوچھا کہ مولانا جب اپ کو انگریزی بولنی آتی ہے تو پھر بات کیون نہیں کر رہے۔مولانا نے جواب دیا کہ جب آپ اپنے ملک سےہزاروں کلومیٹردور رہ کر بھی اپنی زبان نہیں چھوڑ رہےتو میں اپنےملک کےاندرکیوں اپنی زبان چھوڑ دوں۔....
(((((((((((((پاکستانی بیانیہ /مقامی بیانیہ)))))))))))))))
انسانی زندگی میں مذاہب ہوں کہ دیو مالا، سائنس ہو کہ سوشل سائنس یا ہومینٹیز، یہ سب حیات اور کائنات کے تعلق کے استعارے ہیں اور یہ تمام استعارے شہادت سے منسلک ہیں۔ ہمیں ہمارے ہر عمل کی گواہی ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ یا گواہی کے ساتھ پیش ہونا پڑتا ہے۔ اس گواہی کے عمل نے انسان کو کہانی کار بنایا اور کہا نی کہنے والے کے موقف نے کہانی کی انفرادیت کو نمایاں کرنے میں بنیاد کاکام کیا ۔ کہانی کار کا یہ موقف جب تک مقامی رہا، کہانی پڑھنے اور سننے والے اسے دل جان سے قبول کرتے رہے اور اپناتے رہے کیونکہ کہانی کی تشبیہات واستعارات، کردار ومحاکات نیز منظر و پس منظر میں انہیں اپنا تشخص زندہ وجاوید نظر آتا تھا۔ بیانیے میں تشخص کے اظہار کا یہ عمل دنیا کی جن اقوام کی زندگی کا حصہ بنتا گیا وہ دنیا میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگیں۔
بیانیے کابے دریغ استعمال ہمیں ترقی یافتہ دنیا میں تاریک عہد(Dark Ages)کے بعد نظر آتا ہے ۔ بات ہم قبل از تاریخ کی بھی کرسکتے ہیں لیکن واضح بیانیے کے جو شواہد ملتے ہیں وہ قبل مسیح کی چھٹی صدی ہے جس میں گو تم بُودھ کی اصلاح مت کی تحریک ہے، زرتشت کے اہر من اور یزداں ہیں اور کنفیوشس کی علم کی تعریف و توجیح کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا جہانِ معانی بھی ہے ۔ جبکہ طالیس کو پہلا سائنسدان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اوریسعیاہ کے گمنام نبی کی بابل و نینوا کے درمیان تعلیمات۔چھٹی صدیق قبل مسیح کو یوں یاد کیا جارہا ہے کہ یہاں سے حیات اور کائنات کے روابط میں بیانیے کا دخل ہونا شروع ہوا۔ بعد ازاں مسلمان مذکورہ علوم وفنون کے وارث قرار پائے اور یوں بیانیے کا عمل ملّی تصورات کے زیر اثر ہوتا چلا گیا جبکہ یورپ کا تاریک عہد میں یہ سلسلہ لاطینی کے زیر اثر جاری رہا۔تاریخ اور سماجی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہے کہ جن قوموں کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا یعنی ان کا اپنا قومی تشخص بیانیہ سے نمایاں نہیں ہوتا وہ اس قوم کے لیے ایک تاریک عہد کادورانیہ ہے۔ اس اعتبار سے تیرہویں صدی تک مسلمانوں کے ملّی تصورنے وہ بیانیہ تشکیل دیا کہ جس کے زیر اثر مجموعی دنیا پر وان چڑھی۔بعدازاں پندرہویں صدی کی نشاۃ الثانیہ (Renaissance)نے پورے یورپ کو بیدار کیا۔پھر واسکوڈی گاما کے ثمرات کے حصول کے لیے مغرب کی تجارتی کمپنیاں پرتگالی، ولندیذی ، فرانسیسی اور ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے نام پر سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان پر غلبے کے حصول میں مصروف کار ہوئیں۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں بیرونی زبانوں کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھی گئی جس کی نمایاں مثالیں سنسکرت، فارسی اور انگریزی ہیں یہ تینوں مقامی زبانیں نہیں ہیں۔گوتم کے پیروکار چند رگپت موریانے چانکیہ کی دانش کے سہارے متحدہ ہندوستان کاتصور پیش کیااور چانکیہ نےچوتھی صدی قبل مسیح میں ارتھ شاستر تصنیف کی .............................................۔......
یہ باتیں اس لیے کی جارہی ہیں کہ اگرگو تم بت کا بیانیہ نہ ہوتا تو ممکن ہے ہندوستان کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔مختصر یہ کہ قومی تشخص کے ساتھ جڑا ہوا بیانیہ کسی بھی قوم کو ترقی سے ہمکنار کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتاہے۔ ہم بیرونی زبانوں کے ضمن میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب سنسکرت کابیانیہ مقامی بیانیے سے ہم آہنگ نہ رہا تو وسط ایشیائے حملہ آوروں کو خاصی سہولت میسر آئی کیونکہ جب قوموں کا بیانیہ مقامی نہیں رہتا تو وہ تقسیم درتقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھا تی ہیں۔ ماضی میں یہ طاقتیں ملکوں پر قبضہ کرلیتی تھیں آج معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں۔پاکستان کے قیام کو71 برس ہوگئے لیکن تا حال پاکستانی بیانیہ ظہور میں نہ آسکا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام ہو کہ معاشی نظام ، سب کچھ تنزل کا شکار ہے کرپشن کی آوازوں سے لے کر ناانصافی ، میرٹ کے فقدان کے نعروں کی گونج میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو مزید تقویت مل رہی ہے۔اب تو حال یہ ہے کہ یہ کہانی ہر گھر کی ہے۔ جوائنٹ فیملی سستم قصہ پارینہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ ایک ہی خاندان کے افراد میں بھی اتفاق و اتحاد کمیاب ہوتا جارہاہے ۔ یہ ماحول اس لیے پیدا ہوا کہ تاحال ہمارا بیانیہ انگریزی کے زیراثر ہے ۔ یقیناًہم ایک تاریک عہد کے باشندے ہیں۔ یورپ اس تاریک عہد سے 600برس میں نکل پایا تھا۔ امریکیوں کو سلام ہے کہ ان کی آزادی میں انکے دانشوروں کا یہ کہنا کہ ہم برطانوی بیانیے کو نہیں مانتے۔ اب ہمارے ہاں امریکی ملٹن (Milton) اور امریکی شیکسپئر (Shakespeare)پیدا ہونگے۔ 1776میں امریکہ آزاد ہوا۔ پہلے صدر جارج واشنگٹن سے لیکر ابراہم لنکن تک بنیادی اصلاحات ہوئیں۔ مگر 1865ابراہم لنکن کو قتل کردیا گیا۔ لیکن اسوقت تک امریکہ کا مقامی بیانیہ اس حد تک مضبوط ہوگیا تھا کہ لنکن کے قتل سے بھی امر یکہ کوکوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کے دانشوروں اور حکمرانوں نے امریکہ کو امریکن بیانیے کی طرف گامزن کئے رکھا۔ یہاں یہ بات بھی محلِ نظر رہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی زبان انگریزی ہی تھی۔تاریخ شاہد ہے کہ بیانیہ کسی قوم کو غلام بناتا ہے اور کسی قوم کو آزاد کرتا ہے مگر قوموں کو یہ آزادی اس وقت میسر آتی ہے کہ جب قوموں کا اپنا بیانیہ مقامی ہو۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ فرانسیسی بیانیہ تشکیل پانے میں بہت وقت لگا۔ یہی معاملہ جرمنی کے بیانیے کارہا اور یہی دیگر اقوام کا ہے۔فن لینڈScandivian Countriesکاایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں کا تعلیمی نظام مثال ہے اور وہ اس لیے مثالی ہے کہ وہاں کی ثقافت سے ہم آہنگ بیانئے نے انہیں مثالی ترقی سے ہمکنار کررکھا ہے۔فن لینڈ میںNokiaایک چھوٹا سادریا ہے اور Nokia Mobileکی ایکسپورٹ سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسکا نام ہی انہوں نے اپنے تشخص پر رکھا۔یہاں یہ بات محل نظر رہے کہ جب تک انگریزی بیانیہ لاطینی کے زیر اثر رہا ، برطانوی سامراج ترقی سے کوسوں دور رہا ۔
پاکستان اور پاکستانی بیانیہ کا معاملہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ پاکستان کی تشکیل میں اردو زبان کو تفوق حاصل رہا کہ اس زبان میں پورے ہندوستان کے رہنے والوں کے ملی تصورات جگہ پاگئے تھے یعنی مسلمانوں ،ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں وغیرہ کے ملّی تصورات گویا ان تصورات نے اردو کو پورے ہندوستان کی زبان بنادیا تھا۔ حالانکہ یہ زبان براہ راست ہندوستان کے کسی بھی خطے سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔1862میں فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر گستاؤلی بان کے مطابق 25کروڑکی آبادی میں سب سے زیادہ یعنی 8کروڑ 25لاکھ اردو بولنے والے پائے جاتے تھے۔ 1877میں بلوچستان کی سرکاری زبان بھی اردو رہی۔یہ اعداد وشمار اس لیے پیش کئے جارہے ہیں جیسا کہ ہم بتا آئے ہیں کہ سنسکر ت بیانئے کے کمزور پڑنے کے بعد فارسی بولنے والے ہندوستان کے حکمران بنے۔ لیکن اورنگزیب کے عہد میں فارسی بیانیہ کمزورپڑ گیا تو نتیجتاً اردو جو سب کی زبان بنتی جارہی تھی ، دربارنے بھی اسے اپنا لیا۔ لیکن جب انگریزوں نے ہندی کو اردو کے مقابل لاکھڑا کیا تو معاملات ایک بار پھر تقسیم در تقسیم کی ڈگر پر چل نکلے ۔جناب !زبان ایک ایسی حقیقت کانام ہے جو مذہب سے بڑی اکائی بناتی ہے۔انگریزوں کی نظر سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان پر تھی۔ انہیں ابھی لاطینی بیانئے سے پیچھا چھڑائے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ وہ ہندوستان میں اپنے بیانیے کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویج میں بھی حصہ دار رہے لیکن بعدازاں 1835ء میں یہ اعلان سامنے آیا کہ تعلیم بہ زبان انگریزی ہوگی تو یہ مطلب واضح تھا کہ اردو اور ہندوستان کی دوسری زبانیں انگریزی بیانیے کے زیر اثر ہوں گی۔ اس سلسلے میں سول سروسز بطور خاص تشکیل دیا گیا۔بہرحال معزز صحافی حضرات !!ہم نے طوالت کے ڈر سے اختصار سے کام لیا ورنہ ہم آپ کو تمام دنیا جہاں کے بیانیہ کی سیر کراسکتے ہیں۔یہ بات ہم اسلئے بھی زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پیش نظر امریکہ ہے اور حاکم ومحکوم کی زبان انگریزی ہے۔ پس ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ زبانوں سے اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا کہ اپنا بیانیہ نہ ہونے سے پڑتا ہے۔اگر کسی قوم کے بیانیے میں تشخص نہیں تو پھر کوئی اسے ذلت ورسوائی سے نہیں بچا سکتا قوم اپنے بیانیے کے بغیر متحد نہیں ہوسکتی ہے۔اس کی مثال ہمارے پڑوس میں ہی موجود ہے۔ یعنی ہندوستان میں جہاں سہ لسانی فارمولا ہے۔ وہاں کے لوگ خواہ انگریزی بول رہے ہوں ، گجراتی بول رہے ہوں، مراٹھی بول رہے ہوں، ان کا بیانیہ ہندوستانی ہے۔ جبکہ ہندی بھی وہاں کسی کی ماں بولی نہیں ہے۔ہندوستان کے بیانیے کے مضبوط ہونے سے ان کی معیشت، خارجہ پالیسی اور 22فیصد سافٹ ویئر میں ان کا حصہ یہ بتاتا ہے کہ بیانیہ ترقی کی بنیاد ہوتا ہے۔ہمیں دانش و بینش کی سطح پر تیزی سے پاکستانی بیانئے کی طرف آنا چاہیے۔ یہاں کسی زبان سے کسی زبان کا جھگڑا نہیں۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہماری قومی زبانیں انگریزی کے ساتھ ترقی کرسکتی ہیں یا اردو کے ساتھ؟
کیاپاکستانی بیانیے کے بغیر ہم ایک قوم بن سکتے ہیں؟
کیاپاکستانی بیانیے کے بغیر ہم غربت کا خاتمہ کرسکتے ہیں؟
ہم معزز ارباب اختیار اور وزیراعظم صاحب کی مدد کیلئے حاضرہیں کہ ایسے کیا اقدامات کریں جس سے ہمارا قومی بیانیہ تشکیل پاجائے اوریہی قومیہ بیانیہ دیگراقوام کے بیانیوں سے برابری کی سطح پرتعلق بنائے۔ہُوایہ کہ پاکستان بننے کے بعد اردو اور ہماری قومی زبانوں کووطنی تصور سے واسطہ پڑااور ہم وطنی بیانیے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے نہ نبھاسکے۔لہٰذا ہم چند ہم خیال احباب نے ایک Think Tank ادارہ پاک بیانیہ پاکستان قائم کیا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام پاکستان بالخصوص صاحبان اقتدار و اہل دانش وبینش ہمارا ساتھ دیں۔آپ صحافی حضرات سے درخواست ہے کہ اپنے اخبارات ورسائل اور ٹی وی چینلز میں اس خیال کو آگے بڑھائیں اور جوبات تشنہ محسوس ہوتوا س پر سیر حاصل بحث کریں۔
*پروفیسر ڈاکٹرشاداب احسانی*
ادارہ پاکستانی بیانیہ پاکستان

کافر ہوں، سر پھرا ہوں مجھے ماردیجیے

کافر ہوں، سر پھرا ہوں مجھے ماردیجیے
میں سوچنے لگاہوں مجھے مار د یجیے

ہے احترام ِحضرت ِانسان میرا دین
بے دین ہوگیا ہوں مجھے مار دیجیے

میں پوچھنےلگا ہوں سبب اپنےقتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے ماردیجیے

کرتا ہوں اہل جبہ ودستار سے سوال
گستاخ ہوگیا ہوں مجھے مار دیجیے

خوشبو سے میرا ربط ہے جگنو سے میرا کام
کتنا بھٹک گیا ہوں مجھے مار دیجیے

معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام
میں خواب دیکھتا ہوں مجھے ماردیجیے

زاہد یہ زہدو تقویٰ و پرہیز کی روش
میں خوب جانتا ہوں مجھے ماردیجیے

بے دین ہوں مگر ہیں زمانے میں جیتنے دین
میں سب کو مانتا ہوں مجھے مار دیجیے

پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور
میں آخری صدا ہوں مجھے مار دیجیے

میں ٹھیک سوچتاہوں، کوئی حد میرے لیے
میں صاف دیکھتا ہوں،مجھے مار دیجیے

یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم
کیا ظلم کر رہا ہوں مجھے مار دیجیے

میں عشق ہوں،میں امن ہوں میں علم ہوں میں خواب
اک درد لادوا ہوں مجھے مار دیجیے

زندہ رہا تو کرتا رہوں گا ہمیشہ پیار
میں صاف کہہ رہا ہوں مجھے مار دیجیے

جو زخم بانٹتے ہیں انہیں زیست پہ ہے حق
میں پھول بانٹا ہوں مجھے مار دیجیے

ہے امن شریعت تو محبت مرا جہاد
باغی بہت بڑا ہوں مجھے مار دیجیے

بارود کا نہیں مرا مسلک درود ہے
میں خیر مانگتا ہوں مجھے مار دیجیے

(احمد فرہاد)

کئی دنوں سے مجھے وہ میسج میں لکھ رہی تھی جنابِ عالی...

کئی دنوں سے
مجھے وہ میسج میں لکھ رہی تھی
جنابِ عالی
حضورِ والا
بس اِک منٹ مجھ سے بات کر لیں
میں اِک منٹ سے اگر تجاوز کروں
تو بے شک نہ کال سننا
میں زیرِ لب مُسکرا کے لکھتا
بہت بزی ہوں
ابھی نئی نظم ہو رہی ہے
وہ اگلے میسج میں پھر یہ لکھتی
سسکتی روتی بلکتی نظموں کے عمدہ شاعر
تم اپنی نظمیں تراشو لیکن
کبھی تو میری طرف بھی دیکھو
کبھی تو مجھ سے بھی بات کر لو
بس اِک منٹ میری بات سُن لو
میں ہنس کے لکھتا
فضول لڑکی
بہت بزی ہوں
بس اِک منٹ ہی تو ہے نہیں ناں
وہ کئی دنوں تک خموش رہتی
پھر ایک دن میں نے اُس کی حالت پہ رحم کھا کر
جواب لکھا
بس اِک منٹ ہے
اور اِک منٹ سے زیادہ بالکل نہیں سنوں گا
تو اس نے اوکے لکھا اور اِک دم سے کال کر دی
میں کال پِک کر کے چُپ کھڑا تھا
وہ گہرا لمبا سا سانس لے کر
اُداس لہجے میں بولی سر جی
میں جانتی ہوں کہ اِک منٹ ہے
اور اِک منٹ میں
میں اپنے اندر کی ساری باتیں کسی بھی صورت نہ کہہ سکوں گی
سلگتی ہجرت زدہ رُتوں کو اُداس نظموں میں لکھنے والے
عظیم شاعر
خُدا کی دھرتی پہ رہنے والے
اُداس لوگوں کا دُکھ بھی لکھنا
کبھی محبت میں جلتے لوگوں کا دُکھ سمجھنا
کبھی کسی نظم میں بتانا جنہیں تمہاری رفاقتیں ہی کبھی میسر نہیں ہوئی ہیں
جنہیں تمہاری محبتیں ہی کھبی میسر نہیں ہوئی ہیں
کبھی جو محرومیوں کے موسم بہت ستائیں تو کیا کریں وہ
کبھی جو تنہائیوں کی شامیں بہت رُلائیں تو کیا کریں وہ
ابھی تو آدھا منٹ پڑا تھا
مگر وہ لائن سے ہٹ چکی تھی
وہ اِک منٹ کی جو کال تھی ناں
وہ تیس سیکنڈ میں کٹ چکی تھی
میں کتنے برسوں سے اگلا آدھا منٹ گزرنے کا منتظر ہوں
وہ نرم لیکن اُداس لہجے میں بات کرتی
اُداس لڑکی مِری سماعت کے
اَدھ کھلے دَر سے یونہی اب تک لگی ہوئی ہے
ہٹی نہیں ہے
بہت سے سالوں سے چل رہی ہے
وہ کال اب تک کٹی نہیں ہے
میثم علی آغا

حضرت علامہ کو خواب

حضرت علامہ کو خواب میں دیکھا۔ محمد علی جناح کے ساتھ شطرنج کھیل رپے تھے۔ پاس ایک باریش بزرگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے یقین تو نہیں مگر خیال ہوا کہ شاید سر سید ہیں۔ جناح صاحب نے چال چلی تو علامہ بہت دیر تک بیٹھے سوچتے رہے۔
جناح صاحب نے یاد دہانی کرائی کہ چال آپ کی ہے۔
علامہ نے فرمایا، مینوں یاد اے، میں اک ھور گل سوچ ریا سی۔
اس بار سر سید نے پوچھا، کیا بھلا؟
علامہ سوچتے رہے، پھر میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور بولے، چوہدری اصغر کو کہو اپنا کام دیانت داری سے کرے۔ خدا کو منہ دکھانا ہے ہمیں نہیں۔
اس پر جناح صاحب نے کہا، and tell him to mind his own business
یہ چوہدری صاحب کون ہیں؟
Yede Beza

4 شعبان ولادت جناب عباس

پیر رکتا ہے تو پھر شانوں پہ سر رکتا نہیں
ایک لشکر روکتا ہے اک بشر رکتا نہیں
روک۔رکھا ہے اسے لوگو امام وقت نے
سعد کے بیٹے سے حیدر کا پسر رکتا نہیں۔۔۔
سلمان حیدر

وہ ہم نہیں تھے پھر کون تھا سر ِبازار!

وہ ہم نہیں تھے پھر کون تھا سر ِبازار!
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارہ نہیں!
ہم اہل دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امین!
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں۔

~افتخار عارف

جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے

جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

بہت بے شرم ہے یہ ماں جو مزدوری کو نکلی ہے
یہ بچہ بھوک اک دن کی نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ بادل ایک رستے پر نہیں چلتے یہ باغی ہیں
یہ دریا اس طرف کو کیوں نہیں بہتا، یہ کافر ہے

ہیں مشرک یہ ہوائیں روز یہ قبلہ بدلتی ہیں
گھنا جنگل انہیں کچھ بھی نہیں کہتا، یہ کافر ہے

یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

شریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائز
یہ بھنورا کیوں بھلا پھر چپ نہیں رہتا یہ کافر ہے

شکیل جعفری

کسی کے بھی نہیں ہوتے جو سب کے ہوتے ہیں

کسی کے بھی نہیں ہوتے جو سب کے ہوتے ہیں
خدا تو سب کا ہے یعنی خدا کسی کا نہیں
نہیں کسی کو بھی اپنے سوا کسی کا خیال
کسی کے حق میں بھی حرف_دعا کسی کا نہیں
درست کیا ہے غلط کیا، یہ مت بتاو مجھے
یہ فیصلہ تو خدا کے سوا کسی کا نہیں
Irfan Sattar

"نامعلوم افراد"


پہلے شہر کو آگ لگائیں نامعلوم افراد
اور پهر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد
لگتا هے انسان نہیں ہیں کوئی چهلاوہ ہیں
سب دیکهیں .. پر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد
ہم سب ایسے شہر ناپرساں کے باسی ہیں
جس کا نظم و نسق چلائیں نامعلوم افراد
پہلے میرے گهر کے اندر مجهکو قتل کریں
اور پهر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد
شہر میں جس جانب بهی جائیں ایک ہی منظر هے
آگے پیچهے دائیں بائیں نامعلوم افراد
(عقیل عباس جعفری)

یہ تم کیا پوچھتے رہتے ہو

یہ تم کیا پوچھتے رہتے ہو ـ کیسا چل رہا ہے
ہمیشہ سے یہاں جیسا تھا ـ ـ ویسا چل رہا ہے
ـ ـ ـ
تمہارے شہر میں شاید فضا کچھ مختلف ہو
ہمارے شہر میں ـ شدت سے پیسہ چل رہا ہے
فقیر سائیں

سنا ہے ان کے اندھیروں سے ناجائز مراسم ہیں

سنا ہے ان کے اندھیروں سے ناجائز مراسم ہیں
سنا ہے روشنی کو قتل کرنا ان کا شیوہ ہے
سنا ہے شہر کی سڑکوں پر وحشت راج کرتی ہے
کہ خیبر سے کراچی تک شریعت راج کرتی ہے
سنا ہے فوج بھی انکی, امیر شہر بھی ان کا
سنا ہے سب شریعت ہے, جبر بھی قہر بھی ان کا
ڈرے سہمے ہوئے ہیں شہر کے پیر و جواں سارے
یہ جب سے فتویٰ آیا ہے
کہ سورج روشنی جو بانٹتا ہے,
جرم کرتا ہے
شریعت کا تقاضا ہے
اندھیروں کو تقدس کی نئی تلوار دی جائے
کہ سورج کی , طلوع ہوتے ہی گردن مار دی جائے...!!

تبریز شمسی

عید سے دو چار روز پہلے

عید سے دو چار روز پہلے دفتر نے ڈیوٹی لگائی کہ صارم برنی کے یہاں کوئی ماں اپنے دو بچے چھوڑ گئی ہے اس پہ رپورٹ بنانی ہے موضوع بھی حساس تھا سو سبزی منڈی یونیورسٹی روڈ پہ واقع صارم برنی کے اس دفتر پہنچ گیا جہاں بلڈنگ سے بڑا انکا بینرز چسپاں تھا اور انکے عکس کیساتھ تحریر تھا " آو نیکی کریں " بہرحال عمارت کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل پہنچا دروازہ بجایا تو اندر سے چوکیدار برآمد ہوا اس سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان بچوں سے ملنے آیا ہوں جنہیں انکی ماں یہاں چھوڑ گئی ہے ۔۔ چوکیدار بولا یہاں ایسا کچھ نہیں یہ دفتر تو ابھی بن رہا ہے ۔۔۔ میں نکل پڑا اگلی منزل بندر روڈ پہ واقع صارم برنی کا دوسرا دفتر تھا ، گھنٹی دبائی دروازہ کھلا اوپر چلا گیا وہاں آنکھیں ملتا ہوا ایک شخص ملا ، اسے کہا کہ صحافی ہوں ان بچوں سے ملنا ہے جنہیں ماں چھوڑ گئی تھی وہ حیرت سے مجھے تکنے لگا اور کہا مجھے نہیں پتہ آپ اندر آجائیں کھولی نما دفتر کے اندر گھسا تو استقبالیہ پہ گرمی سے پریشان قمیض اتارے کچھ ملازمین سو رہے تھے انہیں پھلانگ کر مزید آگے بڑھا تو ایک لمبا سا کمرہ تھا جہاں کچھ کمپیوٹرز رکھے تھے وہاں بھی دو تین لوگ سو رہے تھے {یہ اتوار کا دن تھا }انہیں جگایا اور ٹیپ ریکارڈر کی طرح وہی بات دھرادی مجھے تو اس نے طریقے سے خوش آمدید کہا لیکن اندر لانے والے ملازم پہ ضرور برسا کہ اسے یوں کیسے لے آئے ۔۔۔۔
بہرحال اس شخص نے بھی کہا کہ اسے اس بابت کوئی علم نہیں لیکن ادارے کے شلٹر ہوم فون کرکے پتہ کرتا ہوں شاید وہاں ہوں بچے ، وہ فون ملاتا رہا لیکن اگلوں نے اٹھانا تھا نہ کوئی جواب دینا سو خاموشی ملی ۔۔
وہاں سے مایوس ہوکر ناظم آباد میں واقع اس بڑے بنگلے پہنچا جو صارم برنی والوں کا شلٹر ہوم تھا دروازہ بجایا اندر سے ایک بزرگ نکلے وہی رام کہانی انہیں بھی سنائی جو پہلے دو دفاتر میں سنا چکا تھا ۔۔۔ وہ بیچارہ سادہ سا آدمی تھا کہنے لگا آپکی بھابھی سے بات ہوئی ہے ؟؟؟ کون بھابھی میں نے پوچھا ، جی وہ عالیہ بھابھی صارم صاحب کی بیگم ۔۔۔۔
میں نے کہا انہیں نہیں جانتا ، خیر اتنی دیر میں نے اس نے عالیہ بی بی سے بات کی اور پھر موبائل مجھے پکڑا دیا دوسری طرف عالیہ بھابھی تھیں جنہوں نے مجھ سے تحقیقات شروع کردیں کہ کیا کیوں کون کیسے ؟؟ عرض کیا فیض اللہ خان نام ہے رپورٹر ہوں ادارے نے اس اسٹوری کے لئِے اسائن کیا ہے جو بچے آپکے پاس ہیں ان پہ کام کرسکوں اور انکی ماں کی تلاش کے لئِے صارم برنی نے اشتہار دے رکھا تھا کہ معاونت کی جائے سو اسی مدد کے لئِے حاضر ہوا ہوں ۔۔۔
بھابھی نے پھر تفتیش شروع کردی کہ کیا آپ کو اقرار الحسن نے بھیجا ہے یا کسی اور نے وغیرہ وغیرہ ؟ بولا ، میڈم ادارے نے بھیجا ہے صارم برنی نے تلاش کا اشتہار لگا رکھا ہے یہ کل کہانی ہے ۔۔۔ روزہ گرمی سفر اوپر سے بے تکے سوالات اور انکے دفاتر کی حالت زار سے اب میرا ضبط ختم ہوتا جارہا تھا لیکن پرسکون رہا ۔۔۔۔
میڈم پھر بولیں ، اپنے بڑوں کو بتادیں اس شلٹر ہوم کو صرف میں چلاتی ہوں تو یہاں جو بھی آئے مجھے اطلاع دے ، عرض کیا یہی تو کر رہا ہوں کونسا اندر گھس گیا ۔۔۔ نہیں میری موجودگی کے بغیر نہیں جاسکتے آپ ، یہ حساس جگہ ہے آپ شام چار بجے یا رات آجائیں ۔۔۔ میڈم اسوقت تک میری چھٹی ہوچکی ہوگی پھر جسے دفتر چاھے بھیج دے بہرحال بات نہیں بنی اور میں وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
لب لباب اس ساری کہانی کا یہ ہے کہ چیرٹی کے نام پہ بس دھندے چل رھے ہیں کمانے کھانے کے بہانے ہیں ذاتی تشہیر کے مواقع کوئی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا میڈم کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ میرے بغیر کیسے یہ انٹرویوز ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔۔ صدقات خیرات احتیاط سے کریں اور سب سے بہتر و اعلی یہی ہے کہ پہلے اپنے عزیز و اقارب کو دیں اسکے بعد کسی اور کو پھر ضرورت محسوس ہو تو مستند ادروں کو چندہ دیں جیسا کہ اخوت ، الخدمت ، ایس آئی یو ٹی ، دعا، انڈس وغیرہ وغیرہ یا جس تنظیم کو اسکے کام کو آپ ذاتی حیثیت میں جانتے ہوں ۔۔۔ ورنہ تو کہانیاں ہی ہیں ساری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Faizullah Khan

سوال گیہوں رہا

سوال گیہوں رہا ـ ـ ـ ـ اور چنا جواب رہا
ہمارے ساتھ بکثرت ـ ـ ـ ـ یہی حساب رہا
ـ ـ ـ
براہِ راست بھی جھیلے ہیں بےشمار مگر
یہ اب کی بار ـ ـ بہت گھوم کر عتاب رہا
ـ ـ ـ
وہ ٹائیفون ہو طوفان ہو ـ ـ ـ یا سونامی
عذاب نام بدلتا رہا ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ عذاب رہا
ـ ـ ـ
تم اپنے آپ میں دانا ہو ـ ـ ـ پر سنو ہمدم
جو ہمکو چھوڑ کے نکلا ـ ـ وہ کامیاب رہا
ـ ـ ـ
عطا ہوا تھا اُسے ـ ـ مستقل مزاج کہ بس
خیال و خواب ہُوا اور خیال و خواب رہا
ـ ـ ـ
سفر میں ساتھ نبھانے کی بات ہے سائیں
کہ مَیں جہاں بھی گیا ـ سامنے سراب رہا
فقیر سائیں

حقیقت


مولوی کے پیٹ میں رسولی بن گئی۔ آپریشن کروانے ہسپتال گیا۔ ہسپتال میں ایک لاوارث نومولود تھا جسے کوئی گود لینے کو تیار نہیں تھا۔
مولوی جب آپریشن کے بعد ہوش میں آیا تو بستر پر وہی نومولود بچہ دیکھا۔ ڈاکٹر نے مبارک باد دی کہ الله نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا ہے۔ مولوی حیران رہ گیا۔
کچھ چوں چراں کرنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر نے کہا کہ یہ ایک معجزہ ہے جو میڈیکل سائنس میں ہزاروں سالوں میں کبھی کبھی ہوتا ہے۔
پھر ڈاکٹر نے کچھ روایات کی بنیاد پر ثابت کیا کہ الله ہر چیز پر قادر ہے اور ایسے معجزے صرف ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو اپنی نیکیاں کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو خود بھی اپنے درجات کا علم نہیں ہوتا۔
مولوی سے کچھ جواب نہ بن پڑا۔ خاموش ہوکر بچہ گھر لے آیا۔ بچہ جب جوان ہو گیا تو ایک دن اسے تنہائی میں بلا کر مولوی نے کہا کہ بیٹا تمھیں ایک ضروری بات بتانی ہے۔ دل پر ایک بوجھ سا ہے سوچا اتار دوں۔ بیٹا میں تمہارا باپ نہیں۔
بچہ حیران رہ گیا۔ مولوی مزید بولا کہ اصل میں میں تمھاری ماں ہوں۔ اب تو بچہ ہکا بکا رہ گیا۔ ذرا سنبھلا تو پوچھا کہ پھر میرا باپ کون ہے؟
مولوی بولا۔
"حقیقت تو الله ہی جانتا ہے لیکن غالب امکان یہی ہے کہ بڑے حافظ صاحب ہونگے"

Saturday, 29 June 2019

ماہر (کم نہ زیادہ، پورے سو لفظوں کی کہانی)

ماہر
(کم نہ زیادہ، پورے سو لفظوں کی کہانی)
۔
میں بینک میں بایومیٹرک کروانے گیا تھا۔
وہاں دو ڈاکو گھس آئے۔
ایک دبلا اور لمبا تھا، دوسرا بھاری بھرکم۔
لمبے کے ہاتھ میں بندوق، بھرکم کے ہاتھ میں بوری۔
چند منٹوں میں انھوں نے سارا پیسہ لوٹ لیا۔
وہ رخصت ہونے لگے تو میں نے اپنا تعارف کروایا،
“بھائی صاحب! میں ایک صحافی ہوں۔
آج ڈالر مہنگا ہونے پر اسٹوری کر رہا ہوں۔
آپ اس بارے میں کیا تبصرہ کریں گے۔”
لمبے نے کہا،
“ابے باولے! ہم ڈاکو ہیں۔
ماہر معاشیات تھوڑی ہیں۔”
میں نے کہا،
“معذرت چاہتا ہوں۔
آپ کے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر یہی سمجھا تھا۔”

مبشر زیدی

ہر شخص کو ایک ہی پریشانی لاحق ہے

سعید ابراہیم
مقتدر حلقوں نے جائداد کے کلیموں اور لائسنسوں کی بندر بانٹ سے شروع دن سے عوام کو یہ باور کروادیا تھا کہ اس ملک میں جینے کیلئے محنت اور ایمانداری کی بجائے چالاکی اور فراڈ سے سسٹم کو دھوکہ دینا ضروری ہوگا۔ سو جس جس کو یہ بات سمجھ آتی گئی وہ امراء میں شامل ہوتا چلا گیا اور باقی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گرتے چلے گئے۔ اب صورت یہ ہے کہ ہمارا نظام پوری طرح سے منظم لٹیروں کے گروہوں کے ہاتھ میں ہے۔
معیشت کا علاج یہی ہے کہ اسے ہر حال میں دستاویزی بنایا جائے مگر افسوس کہ لٹیروں کو لٹیروں پر بھروسہ نہیں ہے۔ نہیں معلوم یہ روپیہ اکٹھا کرکے کس سفید ہاتھی کے حوالے کردیا جائے کہ اس کی بھوک عوام سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے مصنوعی حبُ الوطنی کا جو غبارہ پھلا رکھا تھا، اس میں سے پھوک تیزی سے خارج ہونے لگی ہے۔ جس کے پاس چار پیسے ہیں وہ مملکتِ خداداد سے فرار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانی بھی اپنا پیسہ یہاں سے نکالنے کی فکر میں ہیں۔ خوف اور انارکی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جھوٹی حبُ الوطنی کے اظہار کیلئے مطالعہء پاکستان میں جو اسلام اور نظریہء پاکستان کے سبق پڑھائے گئے تھے، وہ اپنا اثر کھوچکے۔ قومی مفاد کے نام پر بولے گئے جھوٹ بھاپ بن کر اڑتے جارہے ہیں۔ ہر شخص کو ایک ہی پریشانی لاحق ہے کہ اسکا اور اس کے خاندان کا کیا بنے گا؟؟؟

Friday, 28 June 2019

جنرل باجوہ کی جنرل قمر کے ساتھ کھل کر بات چیت

جنرل باجوہ کی جنرل قمر کے ساتھ کھل کر بات چیت:

جنرل باجوہ: یار قمر کہیں اس بندے کی سلیکشن میں ہم نے غلطی تو نہیں کر لی؟

جنرل قمر: سر آپ غلطی کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ کو یاد نہیں کہ F.A میں آپکے کتنے اچھے مارکس تھے؟

جنرل باجوہ: یہ بات تو تمہاری بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن یہ تشویشناک اقتصادی حالت؟

جنرل قمر: تو اس میں آپ کا کیا قصور ہے؟ آپ کا کام سلیکشن تھا اس میں آپ نے کوئی کسر چھوڑی ہو؟ اب سب کچھ آپ نے تو نہیں کرنا نا؟ آپ کو بجٹ ہی کتنا ملتا ہے؟ اتنے کم بجٹ میں تین سرحدوں پر جنگ کا ماحول بنا کر رکھنا، ملک میں اندرونی جنگ کو مینیج کرنا، سیاست کو دیکھنا، میڈیا کو قابو میں رکھنا۔ ججوں کو ضابطے کے مطابق چلانا۔ خارجہ پالیسی تک کی ذمہ داری تو آپ نے اٹھا رکھی ہے۔ کیا اب اکانومی کا ذمہ بھی آپ کو اٹھانا پڑے گا؟

جنرل باجوہ: یار قمر جس طرح کے حالات ہیں لگتا ہے کہ یہ کام بھی مجھے ہی دیکھنا پڑے گا۔

جنرل قمر: سر مجھے آپ کی صلاحیتوں پر کبھی بھی شک نہیں رہا۔ لیکن میری صلاح ہے کہ اگر یہ کام بھی آپ نے دیکھنا ہے تو بجٹ بڑھوانا پڑے گا۔ اتنے کم بجٹ میں آپ نہ مانئے گا۔

جنرل باجوہ۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن پھر لوگوں نے پوچھا کہ اس گدھے کو کیوں سلیکٹ کیا تو کیا کہوں گا؟

جنرل قمر: سر لوگ خود گدھے ہیں ان کو آپ جلال میں کچھ بھی کہہ لیں وہ مان جائیں گے۔ آپ کی سلیکشن ضیاء الحق کی سلیکشن سے تو بہرحال بہتر ہے۔ یاد ہے جب ضیاء الحق نے سلیکشن کی تھی؟ بات نہیں کر سکتا تھا بیچارہ۔ آجکل فل انقلابی لیڈر بنا ہوا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں۔ آپ اکانومی کو سنبھالیں مگر اتنے کم بجٹ کے ساتھ نہیں۔ پیسے بڑھوائیں۔

جنرل باجوہ: ویری گڈ ڈسکشن۔ مجھے یقین تھا کہ میری اوپن ڈسکشن والی تجویز کامیاب ہو گی۔
راجہ محسن

پاکستان کے مسائل

پاکستان کے مسائل اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ کوئی انہیں ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔ ضرورت سے کہیں زیادہ فوج ملک کی معیشت پر بڑا بوجھ ہے لیکن یہ بات کوئی سیاستدان فوج کو بتائے تو مارا جاتا ہے۔ فوج بھی اس مسئلے کو جانتی ہے لیکن اس کے مفادات اس سائز سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ ملک کو تباہ ہوتے دیکھ سکتی ہے اپنا سائز کم ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ اتنے بڑے بوجھ کی موجودگی میں کوئی سیانا آدمی اس ملک کو ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ اسی لیے سب خاموش ہیں کہ یہ ایک پاگل ملا ہوا ہے جو اس تباہی کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے تو کسی کو کیا پڑی کہ اسے بتائے کہ تو بےوقوف ہے۔

سلمان حیدر

Tuesday, 25 June 2019

سب جگہ ایک سا عالم تھا

سب جگہ ایک سا عالم تھا۔ اپنی خواہش کا لباس پہننے والی عورت بدچلن ٹھہری، ننگے سر بازار میں نکلنے والی عورت بے حیا کہلائی، محبت کرنے والی عورت بدکردار سمجھی گئی، اپنی مرضی سے شادی کرنے والی عورت کاری بنی۔ فحش اشاروں اور تصویروں کا کاروبار کرنے والے مرد معزز رہے پر اس دھندے کی بابت پوسٹر بنا کر احتجاج کرنے والی عورت کے سر سے عزت کی ردا چھین لی گئی۔ بھنگڑا ڈالنے والے مرد معتبر رہے پر دھمال ڈالنے والی عورت گالیوں کا رزق بنا دی گئی۔ سوشل میڈیا پر اپنی جائیدادیں بیچ کر راتیں خریدنے والا بھولا ریکارڈ ایک خوشی، ایک مذاق اور دل لگی کا سامان رہا پر اپنے پورے گھر کو پالنے والی قندیل بلوچ فاحشہ قرار دے کر قتل کر دی گئی۔

میں ایک ملحد ہوں---مبشر زیدی

“میں ایک ملحد ہوں۔ لیکن میری شادی ہوگئی ہے۔ بیوی کہتی ہے کہ سب لوگوں کے گھر میں خدا ہے، ہمارے گھر میں کیوں نہیں؟

تو بھائی کوئی اچھا سا خدا دکھا دو۔۔” میں نے دکاندار سے فرمائش کی۔ “

کون سے مذہب کا خدا چاہیے؟ ۔۔یہودیت، مسیحیت، ہندومت، اسلام؟” دکاندار نے سوال کیا۔ “

کیا ان سب کا خدا الگ الگ ہے؟” میں نے سر کھجا کے پوچھا۔

“ہاں، ہر مذہب کا، بلکہ ہر فرقے کا، ہر قوم کا، ہر زبان کا، ہر نسل کا، ہر برادری کا، ہر علاقے کا خدا الگ ہے۔” دکاندار نے معلومات فراہم کی۔

مجھے الجھن میں پڑا دیکھ کر اس نے کہا، “تم رہتے کہاں ہو؟ اپنا پوسٹ کوڈ بتاؤ۔”

میں نے پوسٹ کوڈ بتایا۔ اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈال کر دیکھا۔ پھر مطلع کیا، “تمھیں مسلمانوں کا خدا لینا پڑے گا۔ شیعوں کا خدا شارٹ ہے۔ تم سنیوں کا خدا لے سکتے ہو۔” میں نے کندھے اچکائے۔ وہ ایک ڈبا پیک خدا لے آیا۔ “یہ غریبوں کا خدا ہے۔ ہر وقت غصے میں رہتا ہے۔ آتے جاتے ڈانٹتا رہتا ہے۔ اسے مطمئن کرنے کے لیے دن میں پانچ بار نماز اور ایک سپارہ پڑھنا پڑتا ہے۔ رمضان کے تیس روزے لازمی ہیں۔ اپنے سر پر ٹوپی اور بیوی کے سر پر ٹوپی والا برقعہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس کی جنت چھوٹی ہے، جہنم بہت بڑا ہے۔ اس کے ساتھ دو چار مولوی لے جانا پڑیں گے۔” دکاندار نے رٹے رٹائے جملے بولے۔ “

او بھائی! مجھے اتنے زیادہ فنکشنز والا خدا نہیں چاہیے۔ تھوڑا مہنگا خدا دکھاؤ۔” میں نے فرمائش کی۔

دکاندار غریبوں کا خدا اٹھا کر لے گیا۔ دوسرا خدا لے آیا۔ “یہ مڈل کلاسیوں کا خدا ہے۔ اسے تھوڑا کم غصہ آتا ہے۔ دن میں ایک آدھ بار ڈانٹتا ہے۔ صرف جمعہ کی نماز اور فاتحہ سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ روزوں کے بجائے خالی افطاری پر ثواب دے دیتا ہے۔ لیکن بقرعید پر جانور کی قربانی مانگتا ہے۔ ٹوپی اور برقعے کی شرط نہیں لگاتا۔ بیوی کے دوپٹّے کو کافی سمجھتا ہے۔ اس کی جنت اور جہنم ایک سائز کی ہیں۔ اسے خریدو گے تو ایک مولوی ساتھ لے جانا پڑے گا۔” اس نے ڈبے پر درج عبارت پڑھی۔ “

نہیں بھائی ‘بھئی، میں بزنس مین ہوں۔ سب سے بہتر کوالٹی والا خدا خریدنا چاہتا ہوں۔” میں نے جھنجلا کر کہا۔

دکاندار نے وہ ڈبا کاؤنٹر کے نیچے رکھا اور اسٹور سے بڑا ڈبا اٹھا لایا۔ “یہ پوش علاقوں کا خدا ہے۔ اسے بالکل غصہ نہیں آتا۔ عید کی نماز پر خوشی سے نہال ہوجاتا ہے۔ عید کی شاپنگ پر روزوں کا ثواب دے دیتا ہے۔ لیکن بقرعید پر سیلیبرٹی جانور مانگتا ہے۔ ٹوپی اور دوپٹّے سے اسے کوئی غرض نہیں۔ یہ ساتھ بیٹھ کر شراب بھی پی لیتا ہے۔ اس کے پاس صرف جنت ہے، جہنم بجھا بیٹھا ہے۔ اس خدا کو خریدنے پر مولوی ساتھ نہیں آتا۔” دکاندار نے تفصیل بیان کی۔ “

ہاں ٹھیک ہے۔ یہ مناسب لگ رہا ہے۔ ایسے دو خدا پیک کردو۔” میں نے کریڈٹ کارڈ دے کر کہا۔ “

میاں بیوی کے لیے ایک خدا کافی ہے۔ دو کا کیا کرو گے؟” دکاندار نے حیران ہوکر پوچھا۔ “

میں ایک چینی کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ میرا باس اپنی پاکستانی سیکریٹری سے شادی کررہا ہے۔ میں یہ خدا اسے تحفے میں دینا چاہتا ہوں۔” میں نے مسکرا کے کہا۔

دکاندار نے آواز لگائی، “او چھوٹے! دونوں ڈبے صاحب کی گاڑی میں رکھوا دو۔”

مبشر زیدی

اہتمام

اہتمام
امیر لشکر تک ایک مجاہد کی زوجہ کے حسن کے افسانے پہنچے تو کشمیر آزاد کروانے کی قرعہ اندازی میں اس کا نام نکل آیا.

کہا گیا کہ اس نے ابهی عمومی تربیت بهی مکمل نہیں کی.
جواب آیا اس کے لیے خصوصی اجازت ہے.
کہا گیا وہ رخصت لینے گهر جانا چاہتا ہے.
پیغام آیا کہ کشمیر کو غلام ہوئے 70 سال گزر چکے اب اور انتظار نہیں ہوتا، مجاہدین کو ساتھ بهیجو، ہاتھ کے ہاتھ اسے اور رخصت دونوں کو لے کر آئیں. رخصت کو زنانہ حصے میں بهجوا کر مجاہد کو شہادت کی بشارت دی گئئ.
وہ مرید کے سے نکلا ہی ہو گا کہ حکم ہوا خبر بهجوا دو. کسی نے کہا ابهی تو وہ لائن آف کنٹرول پر بهی نہیں پہنچا ہو گا.
کہا گیا حافظ صاحب کب کے پہنچ چکے. مجاہد سرینگر میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوا کامونکی کے پاس شہید ہو گیا.
پوچها گیا حضرت جنازہ پڑها نے اور جماعت کی طرف سے افسوس کرنے کی ذمہ داری کون ادا کرے گا. کہنے لگے جنازہ کوئی بهی پڑها دو بیوہ سے افسوس میں خود کروں گا کہلوا دینا کہ پردے کا مکمل اہتمام کیا جائے....

میں بھی تو مشال ہوں



 سوچ کے قاتلو!
عقل کے دشمنو!
وحشیو، پاگلو!
خوف کے تاجرو!
بوالہوس شاطرو!
مجھ کو پہچان لو
غور سے دیکھ لو
عشق کا ابال ہوں
رقص ہوں، دھمال ہوں
گونجتا خیال ہوں
امن کا سوال ہوں
خوف کا زوال ہوں
حسن کا کمال ہوں
میں بھی تو مشال ہوں
میں بھی تو مشال ہوں

Urdu Poetry