Monday, 30 August 2021

برصیغر میں عورتوں کی تعلیم -مبارک علی

سر سید احمد خان عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف کیوں تھے؟
جب بھی سر سید احمد خان کا ذکر آتا ہے تو مسلمانوں کی تعلیم کے زبردست محرک کا تصور ذہن میں آتا ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہی سر سید عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف تھے۔

جب بھی سر سید احمد خان کا ذکر آتا ہے تو مسلمانوں کی تعلیم کے زبردست محرک کا تصور ذہن میں آتا ہے، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ یہی سر سید عورتوں کی تعلیم کے سخت مخالف تھے۔

ان کی دلیل یہ تھی کہ جب تک عورت اپنے حقوق سے ناواقف رہے گی وہ وفادار اور تابع ہو گی، اگر وہ باشعور ہو گئی اور اپنے حقوق کا احساس ہو گیا تو گھر اور معاشرے کا امن برقرار نہیں رہے گا اور وہ روایات کی پابندی نہیں کرے گی۔

ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میری خواہش نہیں کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے، جو تمہاری نانیاں اور دادیاں پڑھتی آئی ہیں، اس زمانے کی نامروجہ اور نامبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو۔‘

جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں کے لیے رسالہ نکالنے کی تجویز پیش کی تو سرسیّد نے اس کی مخالفت کی اور انہیں رسالہ نکالنے سے منع کیا۔ ممتاز علی بھی روایت پرست تھے، لہٰذا انھوں نے سرسید کی زندگی میں تو رسالہ نہیں نکالا مگر ان کی سر سید کے ہم عصروں نے بھی عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے ناول لکھے اور نظمیں کہیں۔

سر سید کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمان سماج دو طبقوں میں تقسیم تھا، امرا کا طبقہ اور نچلے درجے کے لوگ۔ امرا کی طرزِ زندگی میں عورتوں کے تحفظ کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ پردہ کرتی تھیں۔ گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی۔ لکھائی پڑھائی کے مواقعے بھی ان کے لیے بند تھے سوائے اس کے کہ تھوڑی بہت مذہبی تعلیم دے دی جاتی تھی۔ گھر میں مرد کی بالادستی ہوتی تھی اور امرا کئی بیویاں رکھتے تھے۔

نچلے طبقے کی عورتیں گھریلو کاموں میں مصروف رہتی تھیں اور ان کی پوری زندگی گھر کی چار دیواری میں گزر جاتی تھی۔ کیونکہ ہر فرد اس ماحول کا عادی ہو چکا تھا اس لیے اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی تھی۔

ہندوستان میں جب انگریزی اقتدار قائم ہوا تو انہوں نے سماج کی پسماندگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہا کہ چونکہ ہندوستان میں عورت کو معاشرے میں کوئی عزت حاصل نہیں ہے اور معاشرہ اس کی صلاحیتوں سے محروم ہے اس لیے عورت کے کردار کو سامنے لانا چاہیے۔ ہندوﺅں میں برہمو سماج نے عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی لیکن مسلمان معاشرے میں صورتحال کو برقرار رہنے پر زور دیا۔

ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں اکبری اور اصغری کے ناموں سے گھریلو عورتوں کا خاکہ پیش کیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں جدیدیت اور عورتوں کے حقوق کی سخت مخالفت کی۔ وہ بےپردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ یعنی پردہ قومی عزت کی علامت تھا۔

جب عورتوں کا پردہ ختم کرنے کی بحث چلی تو عبدالحلیم شرر نے اس کی حمایت کی۔ ایک دن جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ شام کے وقت صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو ایک صاحب بغیر کسی اجازت کے گھر میں گھستے چلے آئے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’آپ کون ہیں، کیوں اس طرح سے گھر میں چلے آئے ہیں؟‘

وہ کہنے لگے کہ ’آپ تو پردے کے مخالف ہیں اس لیے اگر میں آگیا تو آپ کو کیا اعتراض ہے۔‘

 شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ پردہ ہو یا نہ ہو، گھر میں بغیر اجازت گھس آنا غیراخلاقی ہے۔

ان تمام رکاوٹوں کے باوجود حقوق نسواں کے حامی عورتوں کی تعلیم کے لیے ادارے کھلتے رہے۔ مشہور ماہر تعلیم شیخ عبداللہ نے تمام مخالفتوں کے باوجود مسلم علی گڑھ کالج میں عورتوں کا کالج کھولا جو انقلابی قدم تھا۔

’عورت اتنا پڑھے کہ دھوبی کا حساب رکھ سکے‘

ایک طرف جہاں نجی طور پر تعلیم کے لیے ادارے کھولے جا رہے تھے وہیں دوسری جانب حکومت بھی سکول اور کالج قائم کر رہی تھی جب لڑکیوں کے لیے سکول قائم ہوئے تو ہندوستان کے دوسرے مذاہب کی لڑکیوں نے داخلہ لینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی مگر مسلمانوں میں اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ وہ اس کے خلاف تھے کہ لڑکیوں کو سکول بھیجا جائے۔

اس مہم میں سب سے زیادہ حصہ مولانا اشرف علی تھانوی نے لیا جنہوں نے بہشتی زیور لکھ کر قدیم روایات کا تحفظ کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اول تو لڑکیوں کو قطعی سکول نہیں بھیجنا چاہیے اور اگر سکول میں کوئی میم استاد ہو تو پھر تو وہاں داخلہ لینا بالکل نہیں چاہیے۔ ان کے خیال میں عورتوں کو صرف اس قدر لکھنا پڑھنا سکھانا چاہیے کہ وہ دھوبی کا حساب رکھ سکیں۔

انہیں سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اگر لڑکیوں نے لکھنا سیکھ لیا تو وہ عشقیہ خطوط لکھیں گی۔ مولانا اس کے بھی قائل نہ تھے کہ عورتیں گھروں سے باہر جائیں اور محفلوں میں شریک ہوں۔ عورتوں کو اَن پڑھ رکھنے اور سماجی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی احتجاج نہ کرے اور خاموشی سے ہر ظلم کو برداشت کرے۔ چونکہ یہ کتاب پدرسری کی روایات کا تحفظ کرتی ہے اس لیے آج بھی اسے جہیز میں دیا جاتا ہے اور اب انگریزی داں طبقے کے لیے اس کا انگلش میں ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔

شیخ عبداللہ کی بیٹی رشید جہاں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی اور وہ خواتین میں سے تھیں جنھوں نے ادب اور سیاست میں حصہ لیااور پھر یہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی فعال رکن بنیں، ادب اور سیاست میں نام پیدا کیا۔ اس کے بعد سے نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لیے رسالے نکالے گئے بلکہ خواتین لکھنے والیاں میدان ادب میں داخل ہوئی اور اپنی تحریروں سے روایات شکنی شروع کی۔

اب موجودہ دور میں تحریک نسواں کافی زور پکڑ گئی ہے۔ انگریزی دور حکومت میں جہاں مردوں نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا وہیں عورتوں نے بھی تحریک کو آگے بڑھایا۔

اس مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادارے اور روایات اپنی قدامت کے باوجود مستقل نہیں رہتے ہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت انہیں تبدیل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک عورتوں کو جاہل اور گھر کی چاردیواری میں بند رکھ کر ان کی ذہانت سے معاشرے کو محفوظ رکھا گیا۔ اب جبکہ عورتیں زندگی کے تقریباً سبھی شعبوں میں آگئی ہیں، معاشرہ اس لیے ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی

Saturday, 28 August 2021

کبھی جو بچھڑے تو یاد رکھنا !

کبھی جو بچھڑے تو یاد رکھنا
ترے مرے درمیاں جو لمحے کا فاصلہ ہے
یہ فاصلہ بےکراں خلاؤں کی وسعتوں میں
کچھ اس طرح پھیل جائے گا
اس کو عمر بھر پاٹنا جو چاہیں
تو کم نہ ہو گا
کہ وقت کے ساتھ تھک کے سو جائے گی،
انہی فرقتوں کی لمبی اداس راتوں میں، 
زندگی ہار جائے گی
یہ ایک لمحہ جو آج محور ہے دو دلوں کا
ترے مرے عکس کو سمیٹے
جو سارے عالم پہ چھا رہا ہے
یہی تو پندار آئینہ ہے
تری مری ذات اک نقطہ بنی ہوئی ہے
یہ ایک نقطہ وصال کا ہے
کہ اس سے آگے جدائی کا دشت کربلا ہے
جہاں پہ نوحہ گری ہے،تشنہ لبی ہے، یا بےنوائی ہے
سربریدہ لاشے ہیں خواہشوں کے
نہ کوئی جذبہ نہ کوئی چہرہ،
چہار سو کرب ناک سناٹا چیختا ہے
خدائے مطلق
یہ ایک لمحہ طویل کر دے
یہ ایک چہرہ، وفا کا چہرہ،
سکوں کی تصویر جو بنا ہے
یہ زندگی کا جواز ہے
یہ میری طلب، میری آرزوؤں کا اسم اعظم ہے
اور میرے لیئے خدا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

کلیات  ~  رحمان فراز

Friday, 27 August 2021

Efficiency


پچھلے جمعے ایک دوست کے ساتھ ریسٹورنٹ جانے کا اتفاق ہوا، وہاں کیا دیکھا کے تمام بیروں کی اوپر والی جیب  میں چمچے نظر آرہے تھے، میں حیران ہوا جب ویٹر سے استفسار کیا تو وہ بولا کے صاحب نے کسی کنسلٹنٹ کو ہائر کیا ہے جو ہمارے پراسیس کو ری انجینئر کرے گا. انہوں نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ریسٹورنٹ میں سب سے زیادہ گرنے والی چیز 'چمچہ' ہے. ہر ایک گھنٹے میں قریباً تین چمچے فی ٹیبل فرش پر گرتے ہیں. اگر ہمارا سٹاف جیب میں چمچ رکھے گا تو ہمارے کچن کے کم چکر لگے گے، نتیجتاً 15 گھنٹے  فی شفٹ بچیں گے اور ریسٹورنٹ کو فائدہ ہو گا. 

یہ سن کر میں بہت متاثر ہوا 

یکایک میری نظر ایک دھاگے کی طرف گئ جو اس ویٹر کی پینٹ کی زپ میں سے باہر جھانک رہا تھا، میں نے پھر سوال داغا کے اس دھاگے کے پیچھے کیا حکمت ہے؟ 

ویٹر نے قریب آکر سرگوشی میں کہا کے کنسلٹنٹ نے یہ بھی مشورہ دیا تھا کے اگر ہم یہ دھاگہ باندھ لیں گے اور پیشاب کرنے سے پہلے، زپ کھول کر اس دھاگے کو کھینچ کر پیشاب کرنے کے لیے 'باہر نکالیں' گے تو یہ کام بغیر ہاتھ لگائے ہو جائے گا، اور ٹائلٹ کی مد میں خرچ ہونے والے وقت میں پینتالیس. فیصد بچت ہوگی، اور ہاتھ بھی نہیں دھونے پڑیں گے .

یہ سن کر میں نے فوراً پوچھا کہ 'بھیا وہ سب تو ٹھیک ہے 
لیکن پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد تم واپس کیسے ڈالتے ہو؟ ویٹر بولا 'سر یہ تو کنسلٹنٹ نے نہیں بتایا لہذا ہم اس کام کے لیے چمچہ ہی استعمال کرتے ہیں 😂😂😂

نوٹ
 دھیان بس لطیفہ تک ہی محدود رہے اسے بھٹکنے نہ دیجیو....😜

Sunday, 22 August 2021

Abraaj Group Fraud

In September 2017, Arif Naqvi was speaking in New York, trying to raise billions for a new fund. 

As the head of private equity firm The Abraaj Group, Naqvi was a pioneer in the field of impact investing, which sought to make money for investors while doing good for the world. He spent the week rubbing shoulders with some of the world’s richest and most powerful people, including Bill Gates, Bill Clinton, and then-Goldman Sachs CEO Lloyd Blankfein. 

But as he sought to impress the world’s movers and shakers, one of his employees was about to bring it all down, write Simon Clark and Will Louch in their new book, “The Key Man: The True Story of How The Global Elite was Duped by a Capitalist Fairy Tale” (Harper Business), out now. 

It turned out Naqvi had allegedly taken around $780 million from his funds, $385 million of which remains unaccounted for. He is now facing a potential 291 years in jail. And all because “while Arif was in New York, the employee broke ranks and sent an anonymous e-mail to investors . . . [warning] about years of wrongdoing at Abraaj.” It was a bombshell that led to the “largest collapse of a private equity firm in history.” 

But how did one man spin a story that allowed him to con some of the world’s smartest investors? 

Naqvi was born in 1960 in Karachi, Pakistan, where he went to the city’s highly selective grammar school. He later attended the London School of Economics. 

In 2003, he established Abraaj after raising $118 million, much of it from “Middle Eastern governments, royals, and traders,” and announced his intention to invest in ways that would help conquer global poverty. 

In April 2010, he was invited by President Barack Obama, along with 250 other Muslim business leaders, to a Presidential Summit on Entrepreneurship. There, Naqvi gave a speech about the importance of impact investing and how a billion children would need training and jobs in the coming decades. 

“It can only happen,” Naqvi told the gathering, “through entrepreneurship.” 

Two months later, the US government invested $150 million in Abraaj. 

Naqvi did put his money where his mouth was — to a point. 

After taking control of his local electric company, Karachi Electric, in 2008, Naqvi made the electricity more reliable and the company profitable. But he also reduced the workforce by 6,000 employees, leading to riots. 

Meanwhile, he distracted the West with massive charitable grants. 

“Arif gave millions of dollars to universities around the world, including Johns Hopkins University in the United States, and the London School of Economics, which named a professorship after Abraaj,” the authors write. “Following in the footsteps of billionaire philanthropists like Bill and Melinda Gates, Arif started a $100 million charitable organization called the Aman Foundation to improve health care and education in Pakistan.” 

But Naqvi also enjoyed the high life, flying around on “a private Gulfstream jet with a personalized tail number — M-ABRJ — and sailed on yachts to meet new investors who could help increase his fortune.” 

By 2007, Naqvi had moved into “a palatial new mansion in Dubai’s luxurious, gated Emirates Hills district . . . known as the Beverly Hills of Dubai.” 

He was a regular at Davos and similar conferences, where he became friendly with the likes of Gates, who was the guest of honor at a dinner at Naqvi’s home in 2012. 

“Bill and Arif had much to discuss,” the authors write. “They agreed that their charitable foundations would work together on a family planning program in Pakistan. Arif seemed to be precisely who Bill was looking for. He was wealthy and concerned for the poor.” 

Naqvi was granted a $100 million investment from the Gates Foundation to supposedly invest in hospitals and clinics in emerging markets. This investment, in the new Abraaj Growth Markets Health Fund, helped Naqvi attract $900 million more from other investors. 

“This is a significant co-investment partnership,” Gates said about the deal. “It is also an example of the kind of smart partnerships that hold huge promise for the future.” 

In reality, Naqvi had already started misusing the money with a “secretive treasury department” that not even most of his employees knew about, the authors write. 

“Abraaj was really made up of a tangled web of more than three hundred companies based mostly in tax havens around the world.” 

Required by regulators to keep millions of dollars in a bank account for emergencies, the account was usually close to empty, the authors write. 

“Just before the end of each quarter, when Abraaj Capital had to report to the regulator, Arif and his colleagues moved money into the account to make it seem like it contained the required amount. A few days [later], they emptied the account again.” 

Abraaj’s employees also frequently raided one fund to pay dividends on others in “a crude kind of fraud known as a Ponzi scheme,” the authors write. 

On Jan. 9, 2014 — around the time Naqvi served alongside Richard Branson as the headline attractions at an Oxford forum on social entrepreneurship — a manager in his finance department wrote to him that “we will have a deficit of $100 million by January 15th.” 

Naqvi “had to choose between telling investors and lenders the truth, and pretending everything was going according to plan. He chose the path of deception,” the authors write. 

In 2015, Naqvi “paid himself $53.75 million” and also “kept $154 million of the proceeds of [a] share sale to spend as he saw fit and deprived his investors of their gain,” the authors write. 

Not long after, a fund manager at the Gates Foundation, Andrew Farnum, started to get suspicious. Despite The Abraaj Group showing no movement on previous investments, the organization was still asking for hundreds of millions of dollars in additional investment from Gates. 


NEWS
How a Pakistani conman ‘robbed’ $100 million from Bill Gates
By Larry Getlen

August 21, 2021 | 8:19am


Arif Naqvi (right) is under house arrest in London as he awaits extradition to NYC to be tried for financial fraud.
Getty Images (2)
In September 2017, Arif Naqvi was speaking in New York, trying to raise billions for a new fund. 

As the head of private equity firm The Abraaj Group, Naqvi was a pioneer in the field of impact investing, which sought to make money for investors while doing good for the world. He spent the week rubbing shoulders with some of the world’s richest and most powerful people, including Bill Gates, Bill Clinton, and then-Goldman Sachs CEO Lloyd Blankfein. 

But as he sought to impress the world’s movers and shakers, one of his employees was about to bring it all down, write Simon Clark and Will Louch in their new book, “The Key Man: The True Story of How The Global Elite was Duped by a Capitalist Fairy Tale” (Harper Business), out now. 


It turned out Naqvi had allegedly taken around $780 million from his funds, $385 million of which remains unaccounted for. He is now facing a potential 291 years in jail. And all because “while Arif was in New York, the employee broke ranks and sent an anonymous e-mail to investors . . . [warning] about years of wrongdoing at Abraaj.” It was a bombshell that led to the “largest collapse of a private equity firm in history.” 

But how did one man spin a story that allowed him to con some of the world’s smartest investors? 

Naqvi was born in 1960 in Karachi, Pakistan, where he went to the city’s highly selective grammar school. He later attended the London School of Economics. 

In 2003, he established Abraaj after raising $118 million, much of it from “Middle Eastern governments, royals, and traders,” and announced his intention to invest in ways that would help conquer global poverty. 


While at this New York conference in 2017, an employee for Arif Naqvi (center) broke ranks and sent an anonymous email that brought him down.
While at this New York conference in 2017, an employee for Arif Naqvi (center) broke ranks and sent an anonymous email that brought him down.
Bloomberg via Getty Images
In April 2010, he was invited by President Barack Obama, along with 250 other Muslim business leaders, to a Presidential Summit on Entrepreneurship. There, Naqvi gave a speech about the importance of impact investing and how a billion children would need training and jobs in the coming decades. 

“It can only happen,” Naqvi told the gathering, “through entrepreneurship.” 

Two months later, the US government invested $150 million in Abraaj. 

Naqvi did put his money where his mouth was — to a point. 

After taking control of his local electric company, Karachi Electric, in 2008, Naqvi made the electricity more reliable and the company profitable. But he also reduced the workforce by 6,000 employees, leading to riots. 

Meanwhile, he distracted the West with massive charitable grants. 

“Arif gave millions of dollars to universities around the world, including Johns Hopkins University in the United States, and the London School of Economics, which named a professorship after Abraaj,” the authors write. “Following in the footsteps of billionaire philanthropists like Bill and Melinda Gates, Arif started a $100 million charitable organization called the Aman Foundation to improve health care and education in Pakistan.” 


While Naqvi sought funds from mega donors to help the poor, he was living in luxury in the Beverly Hills of Dubai.
While Naqvi sought funds from mega donors to help the poor, he was living in luxury in the Beverly Hills of Dubai.
Bloomberg via Getty Images
But Naqvi also enjoyed the high life, flying around on “a private Gulfstream jet with a personalized tail number — M-ABRJ — and sailed on yachts to meet new investors who could help increase his fortune.” 

By 2007, Naqvi had moved into “a palatial new mansion in Dubai’s luxurious, gated Emirates Hills district . . . known as the Beverly Hills of Dubai.” 

He was a regular at Davos and similar conferences, where he became friendly with the likes of Gates, who was the guest of honor at a dinner at Naqvi’s home in 2012. 

“Bill and Arif had much to discuss,” the authors write. “They agreed that their charitable foundations would work together on a family planning program in Pakistan. Arif seemed to be precisely who Bill was looking for. He was wealthy and concerned for the poor.” 

Naqvi was granted a $100 million investment from the Gates Foundation to supposedly invest in hospitals and clinics in emerging markets. This investment, in the new Abraaj Growth Markets Health Fund, helped Naqvi attract $900 million more from other investors. 

“This is a significant co-investment partnership,” Gates said about the deal. “It is also an example of the kind of smart partnerships that hold huge promise for the future.” 


In 2010 at a Presidential Summit on Entrepreneurship held by Obama, Naqvi gave a speech about the importance of impact investing in children's futures.
In 2010 at a Presidential Summit on Entrepreneurship held by Obama, Naqvi gave a speech about the importance of impact investing in children’s futures.
AFP via Getty Images
In reality, Naqvi had already started misusing the money with a “secretive treasury department” that not even most of his employees knew about, the authors write. 

“Abraaj was really made up of a tangled web of more than three hundred companies based mostly in tax havens around the world.” 

Required by regulators to keep millions of dollars in a bank account for emergencies, the account was usually close to empty, the authors write. 

“Just before the end of each quarter, when Abraaj Capital had to report to the regulator, Arif and his colleagues moved money into the account to make it seem like it contained the required amount. A few days [later], they emptied the account again.” 

They are manipulated beyond anything you have seen in a fund and easy to discover. Don’t believe what the partners send you.
anonymous e-mail that blew the lid off Naqvi’s scheme
Abraaj’s employees also frequently raided one fund to pay dividends on others in “a crude kind of fraud known as a Ponzi scheme,” the authors write. 

On Jan. 9, 2014 — around the time Naqvi served alongside Richard Branson as the headline attractions at an Oxford forum on social entrepreneurship — a manager in his finance department wrote to him that “we will have a deficit of $100 million by January 15th.” 

Naqvi “had to choose between telling investors and lenders the truth, and pretending everything was going according to plan. He chose the path of deception,” the authors write. 

In 2015, Naqvi “paid himself $53.75 million” and also “kept $154 million of the proceeds of [a] share sale to spend as he saw fit and deprived his investors of their gain,” the authors write. 

Not long after, a fund manager at the Gates Foundation, Andrew Farnum, started to get suspicious. Despite The Abraaj Group showing no movement on previous investments, the organization was still asking for hundreds of millions of dollars in additional investment from Gates. 


Richard Branson served alongside alleged fraudster Arif Naqvi at an Oxford forum.
Richard Branson served alongside alleged fraudster Arif Naqvi at an Oxford forum.
Brent Perniac/AdMedia/Sipa USA
In September 2017, Farnum wrote an e-mail asking for the location of Gates’ current funds and how they were invested, as well as a schedule of upcoming investments. 

“Andrew’s tone was polite, but the implications of his questions were ominous,” the authors write. “He was asking Abraaj to prove it wasn’t misusing the money of one of the world’s richest men.” 

While Abraaj sent vague assurances and old bank statements, Farnum pressed on for more details. 

One week later, the anonymous Abraaj employee sent the incriminating e-mail to the fund’s investors, revealing the organization’s shady dealings. 

“Do your due diligence properly and ask the right questions. You will be amazed at what you discover,” the e-mail read. 

“The areas you should focus in are like unrealized gains valuations — they are manipulated beyond anything you have seen in a fund and easy to discover. Don’t believe what the partners send you . . . Don’t believe what they tell you and check the fact. Protect yourself.” 

Immediately, the walls caved in. 

“The investors no longer trusted Abraaj and wanted their money back. The trouble was, Abraaj didn’t have it,” the authors write. 

The Gates Foundation hired a forensic accounting team to investigate Abraaj’s books. Throughout all this, Naqvi was still meeting with potential investors, trying to raise $6 billion for a new fund. 

Around this time, Naqvi appeared in a televised debate on global health care at Davos with Gates. 

“Bill shifted uncomfortably in his seat and pursed his lips,” the authors write. “Whenever Arif attempted to make eye contact or engage him in conversation, Bill looked the other way.” 

In October 2018, the authors published an article exposing Abraaj’s alleged misdeeds in The Wall Street Journal. 

“At least $660 million of investors’ money was moved without their knowledge into Abraaj’s hidden bank accounts,” the authors reported. “Then more than $200 million had flowed from these accounts to Arif and people close to him.” 

Finally, US prosecutors accused Naqvi of running a criminal organization. On April 10, 2019, he was arrested at London’s Heathrow Airport and his extradition has been ordered so he can stand trial in New York for fraud. 

Despite the paper trail, Naqvi has “maintained his innocence” as he remains under house arrest in London while awaiting a decision on his appeal. His company’s name has been removed from the professorship at the LSE. 

In the meantime, his shocking story serves as a cautionary tale to wealthy — but gullible — investors seeking to fix world poverty. 

Poor people, the authors write, would have “benefited more if Arif had carried his millions to the top of a tall building in Karachi and thrown them into the sky, letting the wind scatter dollar bills across the city.”

Friday, 20 August 2021

لڑکیاں خطرے میں ہیں ! سلمان حیدر

لڑکیاں خطرے میں ہیں
خوبصورت لڑکیاں خطرے میں ہیں؟
لڑکیاں خطرے میں ہیں
ہر طرح کی لڑکیاں خطرے میں ہیں
خوبصورت یا کریہہ
سبز یا کالی ، سفید 
اونچی لمبی سرو قد اور خوش بدن
پست قامت، ٹھگنی، موٹی، سیاہ رو
نک چڑھی اور خوش مزاج
بدتمیز اور بے ادب
سچی، جھوٹی
ہر طرح کی لڑکیاں خطرے میں ہیں 

عورتیں خطرے میں ہیں
عورتوں کو چاہئیے کہ چادریں اوڑھے رہیں
چادریں اوڑھے رہیں؟ 
چادریں اوڑھیں تو ان کی چادریں خطرے میں ہیں
اور پھر ان چادروں میں عورتیں خطرے میں ہیں
چادریں اور عورتیں اور چادروں میں عورتیں
اور چادریں اوڑھے ہوئے  اور چادریں اوڑھے بغیر
عورتیں خطرے میں ہیں
عورتوں کی چادریں خطرے میں ہیں
چادریں خطرے میں ہیں؟
عورتوں کی چادریں ہیں اس لیے خطرے میں ہیں 

بچیاں خطرے میں ہیں
بولتی، خاموش، ہنستی مسکراتی
آپ اپنے میں مگن 
یا روتی دھوتی
کھیلتی، چپ چاپ بیٹھی
دودھ پیتی 
بچیاں خطرے میں ہیں 

گھر کے اندر، گھر سے باہر
شہر میں، جنگل میں، سڑکوں پر، گلی میں
بس میں، رکشے، کار میں،
پیدل اکیلی، تین، دو یا پانچ، پندرہ

بچیاں خطرے میں ہیں اور لڑکیاں خطرے میں ہیں اور عورتیں خطرے میں ہیں
عورتیں اور لڑکیاں اور بچیاں
گھر میں، باہر، شہر میں، جنگل میں قبرستان میں،
موت سے پہلے بھی اس کے بعد بھی
عورتیں اور لڑکیاں اور بچیاں
عورتوں اور لڑکیوں اور بچیوں کی میتیں
خطرے میں ہیں۔۔۔۔

 سلمان حیدر

Thursday, 19 August 2021

بغیر ازار بند کے شلواریں

بغیر ازار بند کے شلواریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالبان پھر سے 
افغان عورت کی طرف پلٹے ہیں
بچی ہو یا دوشیزہ
بیوی ہو یا ماں
سب لرزہ بر اندام ہیں
جو 
ماضی میں مرنے سے بچ گئی تھیں
 ان پر بھی کپکپی طاری ہے
قاتلوں کیلئے دروازے چوپٹ کھلے ہیں
موت جسمانی ہو یا روحانی
 آخر موت ہے
افغان عورت کے کبھی نہ بھرنے والے گھاؤ 
پھر سے ہرے ہو چکے ہیں
ان کی اذیت بھری رات بے حد طویل ۔۔۔۔ بے حد طویل ہے
جو بھی اس کے علاوہ
 کچھ اور کہتا ہے 
یا تو وہ سادہ لوح ہے 
یا پھر ان مجرموں کا ٹولی وال
اب تو ان عورتوں تک
 روشنی کی مدھم سی لکیر بھی
 نہ پہنچ پائے گی
انھیں تصویر کائنات کا 
سب سے اجلا رنگ 
قرار دے کر دبیز استعاروں میں 
دفن کر دیا جائے گا
وہ
 ماں کی کوکھ سے نکل کر
پھر سے لوٹنا چاہیں گی
 اپنی ماں کی کوکھ میں 

جمی پپڑی کی طرف
ان میں سے جو بھی کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنا چاہے گی 
مکتب کی طرف دیکھے گی
یا پھراپنے پاؤں پر چلنے کے
 خواب دیکھے گی 
مسمار کر دی جائے گی
وہ چاہے جتنی بھی دعائیں مانگ لیں
عرب دنیا کے کھوکھلے باجے
 جتنا بھی  بھوں پوں کرلیں
افغانستان میں سر کاٹنے والی
 مشینوں کے تیز دھار آرے
 بڑی سرعت سے گھومتے ہیں
شاید ان کے پاس 
ہر مسئلے کا یہی  حل ہے
طالبان مرد
 اپنی سلطنت کی بنیاد
 اسی پدر سری 
طرز ِ انصاف پر رکھتے ہیں 
جسے وہ اپنے تئیں  
عین اسلامی  بھی سمجھتے ہیں
کون آزادی پسند عورت
 اس گھٹن میں سانس 
لے پائے گی 
فلم ڈائریکٹر اس وحشیانہ قتل عام پر فلمیں بنا کر 
مال سمیٹیں گے
فوٹو گرافر اپنے میگزینوں کے سرورق تراشیں گے 
لکھاری افسانوں اور ناولوں کی
 دنیا آباد کر کے 
سر بلند ہوں گے
تمام گرافکس افغان عورت کی
 بے حرمتی کی 
تجسیم ہوں گے 

مگر وہاں ۔۔۔۔۔افغان عورت کا
 پرسان ِ حال کوئی نہ ہوگا
فنونِ لطیفہ کا یہ کھیل  تو 
جاری رہے گا
 مگر 
منہ کی کھائے گا 
کہ ان  چابک برداروں کی شلواروں میں آزار بند نہیں ہیں
وہاں رہنے والی عورت 
صرف اور صرف
 اپنی نفی کر کے  ہی رہ پائے گی
لیکن میں  ۔۔۔۔۔ 
اس پھیلتی بڑھتی ندامت  سے مغلوب ہوکر بڑبڑاتی رہوں گی 
۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھو ! میری سہیلی 
میرے کاندھے پہ سر رکھ کر
 آزادی سے آنسو بہا لو ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعرہ ۔۔۔۔۔۔ جمانہ جداد
ماخوذ  فطرت سوہان

عورت !Fayyidah Fae Bukhari

ننگی عورت 
طوائف عورت 
چور عورت 
 اپنے بوائے فرینڈ کو چومتی چاٹتی عورت 
کسی مرد   کے ساتھ تمہارے سامنے  ڈیٹ پر جاتی عورت
 سر عام ناچتی گاتی عورت 
 ٹانگیں کھول کر لیٹی ہوئی عورت 
سگریٹ پیتی ہوئی عورت 
کلیویج دکھاتی ہوئی عورت 
تنگ لباس پہنے ہوئے عورت 
 جالی دار لباس پہنے ہوئے  عورت 
آنکھ مارتی ہوئی عورت 
 تم سے  چار پیسے لے کر تمہاری گاڑی میں بیٹھی ہوئی عورت 
تمہارے   گال پر چومنے والی عورت 
 تمہیں جپھی ڈالنے والی عورت 
 اکیلی عورت 
 آزاد  عورت
برقعے والی عورت 
 موٹر سائیکل پر بیٹھ کر تمہیں رقعہ  پھینکنے والی  عورت 
تمہیں نمبر دینے والی عورت 
تمہارے سامنے برا یا پینٹی اتارنے والی عورت 
ساحل سمندر پر لیٹی ہوئی عورت 
نماز پڑھتی ہوئی عورت 
 شراب پیتی ہوئی عورت 
 تمہارے  عضو خاص کی تعریف کرتی ہوئی  عورت 
 بھی یہ کہہ دے کہ اسے تمہارے ساتھ سیکس نہیں کرنا 
تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ 
“وہ تمہارے ساتھ سیکس نہیں کرنا چاہتی “ 
“وہ تمہیں اپنے جسم پہ اختیار دینے کے لئے رضامند نہیں ہے “ 

 

ف

لاہور - Lahore Incident

اقرار الحسن اور یاسر شامی کی تصویر لاہور کا کلچر یاد دلاتی ہے۔
عورتوں، بوڑھوں کو آوازے کسنا، سکول جاتی لڑکیوں کے سامنے خصیوں پر خارش کرنا اور ویگن میں پیچھے سے ہاتھ لگانے کی کوشش کرنا۔ ایک خاتون دوست جب فٹ پاتھ پہ چل کر سکول جاتی تھی تو ایک ملنگ راستے میں بیٹھا ہوتا اور کہتا، ’’اگے پاواں، پچھے پاواں۔‘‘ اپنی طرح کی ایک واحد عورت شیما مجید جب نیم پاگل ہو گئی اور اردو بازار میں پبلشروں کے پاس جایا کرتی تھی تو اس کے ساتھ جو ٹھٹھہ بازی ہوتی تھی بیان نہیں کی جا سکتی۔
ہاتھ پھیرنا، چپے چڑھا، انگل کروانا، چٹکی کاٹنا، بس میں چڑھتی ہوئی لڑکی کے کولھوں یا سینے کو چھونا، سبھی کچھ ہمیشہ سے رائج رہا ہے۔ ویگن کے ڈرائیوروں کا ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھی عورت کے سینے یا کمر کو کہنی سے سہلاتے رہنا بھی عام بات ہے۔ سینے کو بمپر/ہیڈلائٹس اور کولھوں کو ٹائر ٹیوب کہنا ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔
اگر کوئی عورت یا لڑکی بپھر جاتی اور جوتی اتار لیتی تو یہ بھی باعث اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ پھر کوئی ایک دو لڑکے لڑکی کی مدد کرنے آگے آتے اور کسی اور کردار میں وہی ٹھرک جھاڑتے۔ اصل میں لڑکوں کی لڑائیوں میں بھی چھڑوانے والوں کا بھی بہت کردار ہوتا تھا۔ جس فریق کے ساتھ اپنی ہمدردی ہوتی چھڑوانے کے عمل اُس کی بجائے حریف کو پکڑ لیتے تاکہ وہ آخری ایک دو مکے مار لے۔
فلموں نے بھی یہی سکھایا۔ ہیرو کسی بارش میں بھیگتی لڑکی کو رات کے وقت اوباش اور بدصورت بدمست غنڈوں سے بچاتا اور دس پندرہ منٹ بعد وہ لڑکی اُسی نجات دہندہ کے ساتھ ’’پھنس‘‘ چکی ہوتی۔
اب ہمارے معاشرے میں کوئی کھیل کے میدان، کوئی تفریح، جذبات کی نکاسی کی اور کوئی راہ نہیں رہی۔ اوپر سے حکمران گروہ واشگاف طور پر عورت سے نفرت کرنے والا ہے۔ لہٰذا فرسٹریشن عروج پر ہے جس میں ہندوستانی/مقامی فلموں، ڈراموں اور تفریحی مواقع کی کمی کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔
جب آپ جی ٹی روڈ پر یا شہر کے اندر بھی سفر کریں تو 90 فیصد سے زائد شلواروں قمیضوں والے، پان تھوکتے، سیگریٹ پیتے، خصیوں پہ خارش کرتے، غذائی قلت کا شکار مرد ہی دکھائی دیتے ہیں جن کے لیے ہر راہ چلتی عورت ’’گشتی‘‘ اور ہر ممی ڈیڈی لڑکا گ ہے۔ اگر آج بھی ہنگامی بنیادوں پر اس ذہنیت کی اصلاح کرنے کی کوشش شروع کی جائے تو تب بھی ایک نسل سے زائد عرصہ لگ جائے گا۔ عورت سے کھیلنا اور اُسے محض تفریح کا ذریعہ سمجھنا ہمارا، بالخصوص لاہور کا کلچر بن چکا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر رویے حد سے بڑھی ہوئی مذہبیت، مرد کی فضیلت کے تصورات، عورت کی کمتر حیثیت اور 
      قانونی عدم نفاذ کا نتیجہ ہیں۔

یاسر جواد

Sunday, 15 August 2021

Afghanistan- Farooq Tariq

The US occupation took only human lives: Taliban victory is not a sign of peace

 Farooq Tariq

It is now evident  that the US imperialism has lost all its human and financial investment in Afghanistan. The Taliban have almost occupied Afghanistan without a fight. What has been spent in Afghanistan in the name of development, ‘democracy’ and training of the armed forces for the last 20 years was unprecedented in the history of the world.

According to the Cost of War Project, the United States poured $ 2226 billion into Afghanistan. This money could have provided basic education and health care all over the world. According to a 2020 report by the US Department of Defense, the United States spent $ 815.7 billion on war expenses. Pakistan's total foreign debt is currently $ 116 billion, it is 7 times more than Pakistan's total foreign debt. Despite doing so much, the Americans hasty pull out from Afghanistan and the collapse of Ashraf Ghani’s government implies that all the US investment is now being handed over to the Taliban, without a single bullet fired.

The casualties in this war can be estimated from the fact that by April 2021, 47,235 civilians, 72 journalists and 444 aid workers had been killed in this war. 66,000 Afghan soldiers also fell victim to this war.

The United States lost 2,442 troops and 20,666 were wounded. In addition, 3,800 private security personnel were killed. Soldiers from 40 countries were taking part in NATO's Afghan forces. Of these, 1,144 soldiers were killed.

The number of people who sought refuge outside the country is 2.7 million, while 4 million have been internally displaced. The US imperialism lavishly borrowed to fund this war. It paid an estimated $ 536 billion in interest alone. In addition, it spent $ 296 billion on medical and other expenses for returning combat troops.

The $ 88 billion spent on training the 300,000 Afghan soldiers who are surrendering without a fight, and the $ 36 billion spent on reconstruction projects such as dams, highways, etc., $ 9 billion was spent as compensation so the Afghans should not cultivate poppy and sell heroine.

The Americans thought that Development would persuade Afghans not to side with the Taliban. But this did not happen (though Taliban popularity was also questionable) and nor it eradicated poverty. At present, the unemployment rate in Afghanistan is 25 percent and the poverty ratio is 47 percent. These are World Bank estimates.

Although some human progress has been made. For example, the average age has risen from 56 to 64 years, and the number of children who die before the age of 5 has halved. The literacy increased from 8% to 43%. 89% have access to safe drinking water in the cities. It was only 16% before.

Now whatever the Americans has spent will fall into the hands of the Taliban. Afghan soldiers are leaving their weapons and fleeing, those weapons have fallen into the hands of the Taliban. The Taliban are no longer occupying 1996 Afghanistan but the Afghanistan of 2021, where trillions of dollars have been invested.

This defeat of the Americans cannot be compared to the Soviet Union's withdrawal from Afghanistan after the 1986 Geneva Accords. The USSR trained forces and men survived in government another 3 years after their departure. Here Ashraf Ghani & Co. has fallen within days once the Taliban offendce started after the withdrawal of American and NATO forces.

The historical lesson of Afghanistan is that the forces created by the direct military intervention of foreign forces cannot defend the country. 

Soviet forces stay lasted 10 years and failed. For 20 years, the US and NATO forces remained stationed in Afghnaitsan, their trained Afghan army dispersed without a fight.
The reason is clear: the Afghan people and soldiers had no ideological basis to fight. 

Ashraf Ghani & Co. were involved in mega corruption. The class divide was sharp. Afghans did not fight for the Americans, how could they fight for their agents.

Ashraf Ghani & Co. represents the worst form of capitalism. The Taliban, on the other hand, who, despite all their brutality, were able to cleverly exploit religion. They had an idea of a religious state. Ashraf Ghani could never make it clear which state he wanted.

The Taliban's victory is bad news for the progressives around the world. Criticism of American agents is not intended a support of the Taliban. Opposition to both will continue. Only the victory of a truly democratic socialist ideology can stop the future bloodshed in Afghanistan.

The Taliban's victory is not a sign of peace but a message of perpetual civil war. The establishment of another religious fanatic state in South Asia will promote religious sectarianism throughout the region and anti-peace measures will continue.

Farooq Tariq
15 August 2021

اففانستان - حاشر ابن ارشاد

یہ حق افغانستان کے عوام کا ہے کہ وہ کس کو اپنا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ حق  ہتھیاروں کے زور پر امریکا کا نہیں تھا تو یہ حق ویسے ہی ہتھیاروں کے زور پر کابل کا اب محاصرہ کیے ہوئے بھاری پگڑی والوں کا بھی نہیں ہے۔ 

لیکن یہ حق ہم نے دہائیوں سے نہیں ، صدیوں سے غصب ہوتے دیکھا ہے۔ افغانستان میں صرف طاقت کی کرنسی چلتی ہے۔ لوگ کیا کہتے اور کیا سوچتے ہیں، یہ اہم نہیں ہے اور نصف آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے، اس کی رائے اسی برقعے میں دم توڑ دیتی ہے جس میں گھٹا ہوا سانس لینا ہی اس کی زندگی ہے۔ افغانستان کی عورت کی رائے اور شناخت دونوں بے نشاں ہیں ، بے چہرہ ہیں۔ کبھی کبھی اس دشت ادبار میں کچھ بارشوں کے وقفے آئے ہیں لیکن پھر وہی باد سموم اپنا ڈیرہ جما لیتی ہے جس کا ایک روپ آج کابل کے بازاروں میں پھر رہا ہے۔ 

سقوط کابل ووٹ کی پرچی پر نہیں ، بندوق کی نوک پر ہوا ہے اور اسکی خوشیاں منانے والے بھی دلیل سے نہیں ، بندوق سے ہلاک ہونے کو ترجیح دینے والے ہیں۔ کس کس کا نام لیں۔ 

یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ اے پی ایس کو خون سے پینٹ کرنے والے بھی انہی کے ہم نام تھے۔ جس نظام کے وہ نام لیوا تھے، کل سے وہ افغانستان کا مقدر ہو گا۔ اپنی صفوں میں موجود ان لوگوں کو پہچان لیجیے۔ یقین رکھیے کہ ان کا بس چلتا اور انہیں اپنی بوٹیاں نوچ لیے جانے کا ڈر نہ ہوتا تو یہ بھی قاتلوں کے ترجمان کی طرح اے پی ایس سانحے کی بھی تاویلیں پیش کرنے سے ذرا نہ چوکتے۔ یہ قاتلوں کے مداح، آزادی رائے کے ناقد، جنس زدہ، وحشی قلم اور میڈیا سنبھالے ہوئے طے شدہ امور کے نقیب آفت گر آج خوش ہیں۔ اور اس دن تک یہ خوش رہیں گے جب ان کے بچے ذبح ہوں گے، جب ان کی عورتوں کو کھلے میدان میں سنگسار کیا جائے گا۔ 

افغانستان میں لاشوں کے اوپر ایک اور شیطانی قصر حکومت تعمیر ہو رہا ہے۔ ہمارے دانشورانِ امت اپنی مزدوری یہیں بیٹھے انجام دے رہے ہیں۔ وحشت کا رقص برہنہ ادھر دیکھ لیجیے، جہالت کا ننگا ناچ تو ہماری اپنی گلیوں میں ہو رہا ہے۔

افغانستان -شعیب عادل

افغانستان کی صورتحال گھمبیر اور پیچیدہ ہوچکی ہے۔ جس طریقے سے طالبان نے فتوحات حاصل کی  ہیں، اس پر امریکی میڈیا میں کافی بحث مباحثہ ہورہا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ امریکہ جس افغان آرمی کی تربیت کرتا رہا ہے وہ کسی کام نہ آسکی۔  یہ بتایا جارہا ہے کہ افغان آرمی میں زیادہ تر لوگ اچھی تنخواہوں کےلیے بھرتی ہوئے تھے۔ ان میں لڑائی کا جذبہ بالکل نہیں ہے اور وقت آنے پر ہتھیاروں اور اسلحے سمیت فرار ہوگئے اور یہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ بڑی تعداد میں پاکستانی طالبان افغانستان پہنچ چکے ہیں ۔ گو پاکستانی ریاست  پاکستانی طالبان کی مدد نہیں کررہی مگر ان پر پابندیاں بھی نہیں لگا رہی اور انہیں سرحد پار آنے جانے کی کھلی اجازت ہے۔ ذرائع کے مطابق  جیش محمد، لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کے خیبر پختونخواہ ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں  جتنے بھی مدرسے  ہیں  ان کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد افغانستان کے ان علاقوں میں  موجود ہے۔طالبان کے ساتھ نہ صرف پاکستانی طالبان بلکہ القاعدہ اور داعش کے ارکان بھی جاملے ہیں۔
کچھ صحافیوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ چند ایک جگہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستانی طالبان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے تو فورسز پر حملے بھی ہوئے ہیں۔ چینی انجنئیر پر حملے بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ اس لیے وہ بے بس ہیں۔ 
امریکہ یا مغرب کو طالبان سے زیادہ القاعدہ اور داعش کے دوبارہ ایکٹیو ہونے کی تشویش ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ، برسلز اور برطانیہ میں مختلف سطحوں پر اجلاس ہورہے ہیں ۔ اس کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔امریکہ نے یواین او کو کہا ہےکہ اگر طالبان کابل پر قبضہ کرتے ہیں تو ان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ طالبان کابل کا محاصرہ کرکے جنگ بندی کا اعلان کرکے  اپنی ٹرمز پر کابل حکومت سے مذاکرات کا اعلان کریں گے۔ ان کا پہلا مطالبہ تو یہ ہے اشرف غنی استعفیٰ دے۔ طالبان کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کی جائے اور پھر طالبان فیصلہ کریں گے کہ کسی کو کتنی نمائندگی دی جائے۔
ایک اہم بات اور ہے کہ چونکہ اس وقت لڑائی جاری ہے اور طالبان کے بےشمار گروہ اس میں حصہ لے رہے ہیں اور اس وقت متحد ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق طالبان لڑائی کے وقت ہی متحدہوتےہیں جب امن قائم ہوتا ہے تو پھر یہ آپس میں لڑائی شروع کردیتے ہیں۔ جب جنگ بندی ہوگی تو پھر طالبان کے اندر اقتدار میں کتنا حصہ لیا جائے کی لڑائی بھی لڑی جائے گی۔
 امریکہ اور یورپی ادارے پاکستان کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔امریکہ  نے آئی ایس آئی کے چیف  اور  نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کے حالیہ دورے میں ان کو ایک ڈوزئیر دیا ہے کہ آپ کی ریاست طالبان کی بھرپور امداد کررہی ہے۔ کئی پاکستانی فوجی افسر جذبہ جہاد سے سرشار طالبان کی بھرپور رہنمائی کررہے ہیں ۔ افغانستان کے ساتھ جتنے بھی ممالک کی سرحد ملتی ہے انھوں نے اپنے بارڈر بند کر دیئے ہیں لیکن پاکستان نے بند نہیں کیا۔
پاکستانی ریاست دفاعی گہرائی حاصل کرتے کرتے اب اس لڑائی میں سینڈوچ بن چکی ہے۔طالبان جتنی بھی فتوحات حاصل کرلیں جب تک اقوام متحدہ اسے تسلیم نہیں کرے گی پاکستان کی مشکلات کم ہونے والی نہیں۔
شعیب عادل

افغانستان -شاہ جہاں سالف

بغیر کسی جنگ کے تمام کے تمام صوبے تلبان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔۔ بس کابل اور ایک آدھ صوبہ رہتا ہے وہ بھی ان کے حوالے ہو جائیں گے۔۔
وہ تلبان جو پچھلے پانچ برس سے کسی ایک چوکی یا دیہی علاقے پر قبضہ نہیں کر سکے جبکہ امریکی افواج غیر فعال تھیں اور تلبان کو افغان فوج و دیگر سیکورٹی کے لوگ روکے ہوئے تھے اور پچھلے کئی ماہ سے شدید کوشش کے باوجود چند دیہات نما اضلاع کے علاوہ کہیں قابض نہیں ہو سکے تھے اب وہی تلبان  بغیر کسی بڑی کوشش کے تقریبا" تمام صوبے لے چکے ہیں بلکہ ان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔۔
یہی کچھ امریکہ نے عراق میں بھی کیا تھا جب امریکہ وہاں سے نکلا اور دعش آئی تو بغیر کسی بڑی جنگ کے انہوں نے مختلف بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور امریکہ کے چھوڑے ہوئے لوگوں مے وہ علاقے چپ چاپ دعش کے حوالے کیے اور چلتے بنے۔۔
یہی کچھ امریکہ نے افغانستان میں کیا۔۔ امریکہ نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے۔۔ امریکہ ایک ایک کرکے اپنے منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔۔  اشرف غنی اور اور دوسرے دھڑوں کے رہنماؤں کی اب اس کو ضرورت نہیں ہے۔  اب تلبان سے اس کا معاہدہ ہے۔۔
تلبان افغانستان کے بالادست اور امیر طبقے کو کچھ نہیں کہہ رہے البتہ غریب سپاہیوں اور لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔۔
اس بار ایران بھی کھل کر تلبان کے ساتھ ہے۔۔
کابل میں امن ہے اور تمام لوگ بالکل نارمل انداز سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔ باقی چند جگہوں پر ہلکی پھلکی جنگ ہوئی مگر کابل پر جنگ نہیں ہوگی بلکہ کابل بھی شاید اسی طرح سکون سے حوالے کر دیا جائے جس طرح امریکہ نے بہت ساری جگہوں پر اپنے اسلحے کے انبار تلبان کے حوالے کیے۔۔
سب گیم پہلے سے طے شدہ ہے۔۔ ہوگا وہی جو امریکہ چاہے گا۔۔ افغانستان کو ایک بار پھر درندوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔۔ اسی لیے عاملی میڈیا کے بڑے ستون وقت سے پہلے ہی بتا رہے تھے کہ اسی فیصد افغانستان پر تلبان کا قبضہ ہو گیا ہے جبکہ ابھی تلبان کے پاس افغانستان کا پانچ فیصد حصہ بھی نہیں تھا۔۔
لیکن نا امیدی نہیں ہے۔۔ وہ دن بھی جلد ہی آئے گا جب افغان عوام اپنی جنگ خود لڑیں گے اور اپنے بالادست طبقے سمیت تمام دہشت گردوں اور سامراجیوں کو خاک چٹا کر افغانستان کا نظم و نسق خود سنبھالیں گے۔۔
امریکہ یہاں سوشلزم کو روکنے کے لیے آیا تھا اور اپنے گماشتوں کی مدد سے افغانستان و افغان عوام کو تباہ برباد کر دیا اور اس کی تباہی ابھی جاری ہے اور آگے بھی کچھ عرصہ جاری رہے گی مگر ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں۔۔
کسی مارکسی استاد نے کہا تھا کہ لوگ واقعات سے سیکھتے ہیں تو افغان عوام بھی سیکھ رہے ہیں کہ ان کا دشمن ان کا قاتل وہ عالمی سرمایہ دار سامراجی ہے جو اپنے چند ٹکوں کے مفادات کے لیے خود اور اپنے گماشتوں کے ذریعے پچھلی چند دہائیوں میں کروڑوں لوگوں کو قتل کر چکا ہے۔۔
یاد رہے کہ انسان نے لاکھوں برس کی جدوجہد کے بعد اتنی ترقی و تہذیب حاصل کی ہے اور یہ انسانی جدوجہد ہی ہوگی جو آگے بھی انسان کو اندھیروں سے نکالے گی۔۔
افغانستان کا محنت کش طبقہ ہی افغانستان کو ان اندھیروں سے چھڑا کر ایک روشن صبح کی طرف لے کر جائے گا۔۔
لینن نے کہا تھا:
"There are decades where nothing happens, and there are weeks when decades happen"

Saturday, 14 August 2021

افغانستان -قمر نقیب خان

ہمارے دوستوں نے افغانستان میں طلباء کرام کی فتوحات پر بغلیں بجا بجا کر سرخ کر لی ہیں، انہیں افغانستان میں اسلامی خلافت کی نشاۃِ ثانیہ نظر آنے لگی ہے.
اور میں سوچ کر ہی پریشان ہو جاتا ہوں کہ خدانخواستہ خلافت قائم ہو گئی تو کیا بنے گا. فرض کریں پاکستان میں دیوبندی حقانی ٹالیبانی خلافت قائم ہو جاتی ہے. اگلے دن اہلِ تشیع کا نان نفقہ بند کر دیا جائے گا. گستاخ صحابہ قرار دے کر اکثریت قتل کر دی جائے گی. بریلویوں پر پابندی لگا دی جائے گی. تمام مزارات اور عرس ختم کر دئیے جائیں گے. بارہ ربیع الاول اور محرم الحرام کے جلوسوں پر مکمل پابندی ہو گی. آذان سے پہلے درود شریف اور آذان کے درمیان علی کا نام لینے پر سزا دی جائے گی. 
توبہ توبہ.. 

مذہب مسلک کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور کھیلتے کھیلتے پیسہ بنانا ہماری قومی عادت ہے اور جو پیسہ بنانے اس فیلڈ میں نہیں آتا اس کے اغراض و مقاصد مزید بھیانک ہوتے ہیں. ہمارے علمائے کرائم کو ہی دیکھ لیں.. 

مولانا صاحب نے ہر قسم کی غیر نصابی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دے رکھا ہے. ان کے نزدیک تمام کھیل کود، فنون لطیفہ وقت کا ضیاع ہیں اور لہو و لعب کے زمرے میں آتے ہیں. شعر و شاعری ہو یا نظم و نثر، کہانی ہو یا افسانہ نگاری، موسیقی ہو یا ناچ گانا، فلم ہو یا ڈرامہ سیریل، پینٹنگ ہو یا سکلپچر غرض یہ کہ وہ تمام علوم و فنون جو انسان کے نفسی و جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث بن سکتے ہیں سختی سے ممنوع ہیں۔ 

میں تو سوچ کر ہی بیزار ہو جاتا ہوں کہ مولوی صاحب کا نفاذ شریعت ہو جاتا تو دنیا کیسی ہوتی؟؟؟

کوئی کھیل نہ ہوتا، کیونکہ یہ تو وقت کا ضیاع ہے کرکٹ، فٹبال، ہاکی، والی بال، ٹینس، سنوکر وغیرہ کچھ نہ ہوتا صرف پہلوانی، گھڑ سواری اور تیر اندازی ہوتی.. کھیل کے میدان ختم کر دئیے جاتے ان کی جگہ خانقاہیں تعمیر کر دی جاتیں..

شعر و شاعری نہ ہوتی، میر و غالب نہ ہوتے، اقبال و حالی نہ ہوتے، قمر جلالوی ہوتے نہ ہی جون ایلیاء ہوتے، خوشحال خان خٹک نہ ہوتے، بُھلے شاہ نہ ہوتے، لطیف بھٹائی نہ ہوتا وارث شاہ نہ ہوتا.. 
نظم و نثر نہ ہوتی، طنز و مزاح نہ ہوتا ابن انشا نہ ہوتا پطرس بخاری نہ ہوتا،  مستنصر حسین تارڑ ہوتا نہ مشتاق احمد یوسفی ہوتا، کرشن چندر ہوتا نہ منشی پریم چند ہوتا، سعادت حسن منٹو ہوتا نہ بانو قدسیہ اور عصمت چغتائی ہوتیں... 
فلمیں نہ ہوتیں ہیرو ہیروئین نہ ہوتے، نہ دلیپ کمار ہوتا نہ مدھوبالا ہوتی، نہ امیتابھ بچن ہوتا نہ ہیمامالنی ہوتی، نہ محمد علی ہوتا نہ وحید مراد ہوتا.. 
 میوزک نہ ہوتا، گانے نہ ہوتے غزلیں نہ ہوتیں، تان سین نہ ہوتا، امیر خسرو نہ ہوتا، نصرت فتح علی خان نہ ہوتا، لتا ہوتی نہ مُکیش ہوتا، جگجیت سنگھ نہ ہوتا مہدی حسن نہ ہوتا..

ہمارے ہاں تو بچوں کو بچپن سے ہی سکھا دیا جاتا ہے کہ شعر و شاعری، افسانہ نگاری، ڈرائنگ وغیرہ وقت کا ضیاع ہے اس سے بہتر ہے کہ زکر اذکار میں وقت کارآمد بنانا جائے. جبکہ تصویر کشی، میوزک اور رقص تو سراسر حرام اور فحاشی ہے. اداکاروں کو بھانڈ میراثی اور کنجر کہا گیا یوں فن کو زلت کا استعارہ بنا دیا. مٹی اور پتھر سے کچھ بنانا تو ڈائریکٹلی بت پرستی کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا سنگتراشی تو قابلِ گردن زدنی جرم ٹھہرا.. 

یوں تخلیق کا گلا گھونٹ دیا گیا اور آج پاکستان کے پاس فنون لطیفہ کے زمرے میں کوئی بڑا نام نہیں ہے. ساری قوم انڈین گانے، انڈین فلمیں اور انڈین ڈرامے دیکھ رہی ہے، بلکہ پاکستانی چینلز بھی انڈینز کو کاپی کر رہے ہیں. انڈین فلمیں اور گانے پاکستان سے کروڑوں روپے کا بزنس کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی اپنی انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے.

شکر کہ دنیا پر مسلمانوں کا اسلام نافذ نہیں ہوا ورنہ تو ہم ایک سرد، خشک اور بورنگ دنیا میں سانس لے رہے ہوتے جہاں خوفناک صورت طالبان کی خلافت ہوتی، ہر طرف چیخ و پکار، گستاخ گستاخ، کافر کافر کے نعرے ہوتے اور زبانوں پر تالے ہوتے.
قمر نقیب خان

افغانستان -مبشر علی زیدی

موجودہ حالات میں یہ سوال اور اس کا جواب ثانوی درجہ رکھتا ہے کہ افغانستان میں امریکا جیتا یا ہارا۔
اصل سوال یہ ہے کہ افغانستان میں جو ہورہا ہے اور ہونے والا ہے، اس کا بوجھ اور نتائج کون برداشت کرے گا؟
پیسہ چاہیے ورنہ جو افغان گولی اور بم دھماکے سے نہیں مریں گے، وہ بھوک سے مرجائیں گے۔ کیا چین پیسہ فراہم کرے گا؟
لاکھوں افغان پناہ کی تلاش میں نکلیں گے۔ کیا اقوام متحدہ پہلے کی طرح جوش و خروش سے افغان پناہ گزینوں کو امداد فراہم کرے گی؟
جہادیوں کے تربیتی مرکز دستیاب ہونے سے دہشت گردی برآمد یعنی ایکسپورٹ ہوگی۔ کیا ہمسایوں کی سرحدیں محفوظ ہیں؟
مسلمان ملکوں کے نوجوان شدت پسندوں کی کامیابی سے متاثر ہوں گے۔ کیا مسلمان حکومتیں غفلت کا مظاہرہ کریں گی؟
مغربی ملکوں سے جو انتہاپسند نوجوان اسلامی مملکت کا خواب دیکھ کر شام پہنچے تھے، کیا اب وہ افغانستان کا رخ کریں گے؟
کیا پاکستان ماضی کی طرح دہشت گردوں کی حکومت کو تسلیم کرے گا یا نہیں؟ نہیں کرے گا تو کیا ان کی پاکستانی شاخ پریشان نہیں کرے گی؟ کرے گا تو ایف اے ٹی ایف میں کیا بنے گا؟ کیا عالمی برادری کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟
پڑوس میں مسلح جنونی حکومت کے ہونے سے پاکستان کے سیکورٹی اخراجات کتنے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا معیشت مزید بوجھ اٹھاسکتی ہے؟
آخری سوال، خدا خدا کرکے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ اور دوسری سرگرمیوں کا آغاز ہوا تھا۔ کچھ سیاح آنا شروع ہوئے۔ پڑوس میں بارود کا ڈھیر جمع ہونے سے کیا ایک بار پھر پاکستان عالمی برادری کے لیے ممنوعہ علاقہ بن جائے گا؟

Urdu Poetry