Thursday, 9 December 2021

اور  فاشسٹوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟  ابن عاصی

اور فاشسٹوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟
 ابن عاصی
موجودہ وزیراعظم عمران دھرنے میں پولیس والوں کو گریبان سے پکڑنے کی دھمکیاں لگایا کرتے تھے، بجلی کے بل جلایا کرتے تھے، اس وقت کے وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کی باتیں کیا کرتے تھے، ملک کے مین اسٹریم میڈیا پر بھارتی فنڈنگ سے چلنے کے الزامات عائد کیا کرتے تھے، شہر کیا پورا ملک زبردستی بند کرنے کے اعلانات کیا کرتے تھے، پولیس کسٹڈی سے زبردستی اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑایا کرتے تھے تو ان کے ٹائیگرز بھی ان کی پیروی میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی بلڈنگوں پر شلواریں سوکھنے کے ڈالتے ہوئے ملتے تھے، ایس پی لیول کے افسروں کو تشدد کا نشانہ بناتے نظر آتے تھے اور میڈیا کی خاتون ورکرز سے انتہائی بے ہودگی کی شرمناک کہانیاں رقم کرتے دکھتے تھے اور ایسے میں اگر ان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے لوگوں کو قتل کرنے پر یہ کہہ دیا ہے کہ
”بچے ہیں، ذرا جذبات میں آ گئے تھے تو قتل وغیرہ ہو گیا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں، اس سے یہ کہنا کہ پاکستان تباہی کی طرف جا رہا ہے بالکل غلط ہے“
یہ صاحب ایسی بات کیوں نہ کریں کہ ان کا لیڈر بھی ایسا ہی ہے جو دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کا اعزاز پاکر امریکیوں کے ہاتھوں مرنے اور سمندر برد ہونے والے اسامہ بن لادن کو بھری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ”شہید“ کہتا ہے اور ایک بار نہیں کئی بار ایسا کہتا ہے، ایسا لیڈر کہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے طالبان کا پشاور میں دفتر کھولنے کی صلاح دیتا ہے، ایسا لیڈر جو طالبان کے آنے پر ان سے زیادہ مسرور ہوتا ہے جو اے پی ایس کے معصوم بچوں کے قاتلوں کی گرفتاری پر عدالت میں یہ کہہ کر ججز کو حیران کر دیتا ہے کہ
”ان بچوں کے ورثا کو معاوضہ دے دیا ہے اور میں کیا کر سکتا ہوں“
جو اپنے سیاسی مخالفین کی بہو بیٹیوں کو ”شہزادی اور نانی“ کہہ کر ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتا ہے، جو ایک مرد سیاسی مخالف کو ”بلاول صاحبہ“ پکار کر ذہنی تسکین حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے، جو چین کے حکمرانوں کے سے ”اختیارات“ چاہتا ہے جو ایف آئی اے سربراہ کو بلا کر مخالفین پر غداری کے مقدمات درج کرنے کو کہتا اور بشیر میمن صاحب کے انکار پر برہمی سے کہتا ہے
”میرے ساتھ چلو سعودی بادشاہ کے سامنے کوئی نہیں بولتا ہے“
تب اسے بتایا جاتا ہے کہ یہاں بادشاہت نہیں ہے تو وہ مزید تپ جاتا ہے اور میمن ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں، ایسا لیڈر جو ایسا اذیت پسند ہے کہ مخالفین بارے شرمناک کمنٹس پاس کرنے والے اپنے چوہانی رہنماؤں کو ”میرا چیتا“ کہہ کر خوشی سے ان کو گلے لگاتا ہے، جو ایسا عجیب لیڈر ہے کہ اپنے کرپٹوں کو پروں تلے چھپا لیتا ہے اور مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر بھی انہیں لٹکانے کے باتیں کرتا ہے۔ جس کے فیصل واوڈے منافقت کا اعلی شاہکار ہونے کے باوجود مخالفین کو چیرنے پھاڑنے کی سوچ پالے ہوئے ملتے ہیں، جس کے مراد سعید لائیو ٹی شو میں بیٹھے سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کے منہ پر تھپڑ مار دیتے ہیں، جس کے نعیم الحق ٹی وی چینلوں پر آ کر مخالفین پر پانی بھرے گلاس پھینکتے ہیں اور دانیال عزیز سے لوگوں کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیتے ہیں، جس کے علی امین گنڈاپور مخالف سیاسی خواتین کو ”عوام کا مال“ کہتے نہ شرماتے ہیں، جس کی فردوس عاشق اعوان کی غلیظ ترین گفتگو سن کر مرد بھی شرما جاتے ہیں،
جی ہاں ایسا لیڈر جو عدلیہ بارے لفظ ”شرمناک“ استعمال کرتا ہے جو ملک کی ممتاز شخصیات پر پر بھارت سے تعلقات کے جھوٹے الزامات لگا کر ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتا ہے، جو ملک میں انتشار، فساد اور سرکاری اہلکاروں کے قتل تک میں ملوث مذہبی فرقہ وارانہ جماعت کی اپوزیشن دنوں بھی کھلے عام سپورٹ کرتا ہے اور اقتدار میں آ کر بھی ان کے قتل معاف کر کے اپنے سینیٹر اعجاز چودھری کو اس جماعت کے رہنما کو پھول بھیجتا ہے اور اعجاز چودھری کا انتخاب بھی خوب ہے کہ یہ شخص پنجاب اسمبلی کے سامنے کھڑے ہو کر اسے انسانوں سمیت جلانے کی سفاکانہ بات کرتا ہے۔
جی ہاں یہ لیڈر اور اس کے فدائین اس وقت مملکت خداداد پر مسلط ہیں اور ان کی سوچ اور عمل فاشسٹوں سے کم نہ ہیں اور بدقسمتی سے میرے دیس کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہے۔

تلخ حقائق جن سے ہمیں آگاہ نہیں کیا جاتا

تلخ حقائق جن سے ہمیں آگاہ نہیں کیا جاتا

اسلام کی بعثت سے آج تک صرف حضرت عمر کا مختصر سا دور ہے جسے مسلمانوں کیلئے امن اور مذہب کے نفاذ کا دور کہا جاسکتا ہے اور یہ دور صرف دس برسوں پر محیط ہے۔ پیغمبروﷺ کی زندگی میں پہلے مشرقینِ مکہ سے جنگیں درپیش رہیں۔ اس کے بعد یہودیوں کے ساتھ مبارزت درپیش ہوگئی۔ اس سے نجات ملی تو نبوت کے نئے دعویداروں سے نمٹنے کا سخت مرحلہ درپیش ہوگیا۔ اسی دوران جہاں کہیں قبیلے اسلام سے منحرف ہوگئے وہیں کچھ قبیلوں نے ریاستِ مدینہ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔
حضرت عثمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہی شہید کردیے گئے اور یوں انارکی جو جو دور شروع ہوا، وہ  جنگِ جمل اور صفین سے ہوتا ہوا کربلا جیسےسانحے پر منتج ہوا جس میں خود پیغمبرﷺ کے گھرانے کو ہی تہ تیغ کردیا گیا۔ 
معاملہ اس کے بعد بھی تھما نہیں بلکہ مختار ثقفی نے بنوامیہ کیساتھ کربلا والاسلوک پوری وحشت کے ساتھ دہرایا۔ گویا جسے اسلام کہا جاتا ہے ، ان ادوار میں اس کا نفاذ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہونے والی یہ قتل و غارت اور بدامنی کا تعلق خود مسلمانوں کے آپسی اختلافات سے تھا جسے ہم یہودی یا عیسائی سازش بھی نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اسلام دنیا تو ایک طرف خود مسلمانوں کیلئے بھی امن کا باعث بنا ہو۔
مسلم امہ، علماء اور سکالرز اس بات پر متفق ہیںکہ خلافتِ راشدہ یعنی اسلام کے حقیقی نفاذ کا زمانہ معاویہ کے خلیفہ بننے کے بعد ختم ہوگیا تھا اور پھر آج تک بحال نہیں ہوسکا۔ وہ نزع جو حضرت عثمان کی شہادت سے شروع ہوا، اس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پہلے خارجیوں کا فرقہ وجود میں آیا، اس کے بعد شیعانِ علی اور ان کے مخالفین۔ڈیڑھ صدی بعد معتزلہ، اشعری اور ماتریدی وجود میں آگئے اور ان کے بیچ مذہبی مناظرہ بازی کا میدان گرم ہوا۔ اس پر مسرزاد چار امام جوایک دوسرے کے چار مخالف فرقوں کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اس کے بعد رنگا رنگ صوفی فرقے جن میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
اوپر بیان کردہ منظر یہ بتاتا ہے کہ ایک مختصر دور کے سوا اسلام بطور نظامِ حیات کبھی بھی نافذ نہیں ہو پایا اور ماضی قریب یا دورِ حاضر میں اگر کہیں نافذ ہوا بھی تو اس کے نتائج قابلِ تقلید نہیں نکلے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک علماء اور حکمرانوں نے اپنے اپنے گھٹیا مفادات کیلیے مذہب کے نفاذ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور قوم ان کے ان مفادات کی قیمت چکائے جارہی ہے۔
سعید ابراہیم

Tuesday, 9 November 2021

اقبال کی شاعری

M Sinan Usmani Awan 

اقبال کی نظم "پیام صبح" لانگ فیلو کی نظم" ڈے بریک" کا آزاد ترجمہ ھے اقبال کی نظم "ماں کا خواب " ولیم بارنس کی نظم کا ترجمہ ھے اقبال کی نظم "مکڑا اور مکھی" Mary Haworthکی نظم The Spider and The Fly کا آزاد ترجمہ ہے۔ اصل انگریزی نظم چالیس سطروں ﴿مصرعوں﴾ پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ اقبال کا منظوم ترجمہ ۲۴ اشعار پر مشتمل ہے اقبال کا منظوم ترجمہ " رخصت اے بزم جہاں" ایمرسن کی نظم Good Bye کا منظوم ترجمہ ہے اقبال کی نظم "بچے کی دعا" مٹیلڈا بینتھم ایڈورڈس کی نظم ۔ سے لی گئی ھے۔۔"لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری"۔۔۔ اقبال کی نظم "پرندہ اور جگنو" ﴿۳:۵۹﴾ ولیم کوپر کی نظم The Nightingale And The Glowworm ﴿ کا آزاد ترجمہ ہے۔ یہ ۱۹۰۵ء کے پہلے کی نظم ہے۔ اقبال نے اصل شاعر کا حوالہ نہیں دیا اور نہ دوسرے منظوم ترجموں کی طرح ماخوذ ہونے کی صراحت کی ہے ۔ البتہ مولوی عبدالرزاق نے کلیات اقبال میں لکھا ہے یہ نظم انگلستان کے ایک نازک خیال شاعر" ولیم کوپر" کی ایک مشہور و مقبول نظم " اے نائٹ اینگل اینڈ گلوورم" سے ماخوذ ہے۔ اقبال نے اپنی دونوں نظموں میں ولیم کوپر کی ایک ہی نظم کے خیال کو الگ الگ استعمال کیا ہے، ہمدردی کو ہم ماخوذ قرار دے سکتے ہیں جب کہ "ایک پرندہ اور جگنو" آزاد ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمہ میں مفہوم کو باقی رکھتے ہوئے لفظی ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے اقبال سے پہلے بانکے بہاری لال نے " حکایت بلبل اور شب تاب کی " اور رحیم اللہ نے بلبل اور جگنو کی حکایت کے عنوان سے منظوم ترجمے کئے تھے۔

اقبال - حاشر ابن ارشاد

مائیکل ایچ ہارٹ کی کتاب دی ہنڈرڈ میں دنیا کی تاریخ کے سو بااثر ترین لوگوں کی فہرست میں صرف ایک شاعر ہومر مذکور ہے۔ شکسپئر کا ذکر ڈرامہ نگاری کے حوالے سے ہے۔ جبکہ فہرست میں سائنس دانوں کی بھرمار ہے۔ ہومر کو گذرے لگ بھگ تین ہزار سال ہو گئے ہیں۔ اس دوران کوئی ایک شاعر بھی ہارٹ کو دستیاب نہیں ہوا جس نے انسانی فکر پر گہرا اثر چھوڑا ہو یا زمانے کے چلن کا تعین کیا ہو۔ 

شاعر آپ کی حس جمال کی تسکین کرتا ہے اور یہ بڑا کام ہے۔ انسان جذبات اور احساسات کا پیکر ہے اور شاعری اس صورت گری میں وہ ضرورت ہے جس کے بغیر انسان کی جمالیاتی تشکیل ادھوری رہ جاتی ہے۔ وہ لوگ جو شاعری پڑھتے نہیں ، سمجھتے نہیں، ان کی بدقسمتی گویا طے شدہ امر ہے۔ 

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسانی ترقی، فکری روایت،  شعور اجتماعی کی بنت، معاشرتی اور معاشی عروج میں شاعری اور شاعر کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ اقبال ہوں، غالب ہوں، میر ہوں یا انیس ہوں ، ان کا دائرہ کار شاعری کے بند دائرے میں ہی اثر پذیر ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ شاعری کی ایک روایت یا جہت کا تعین کرتا ہے۔ 

جتنا اور جس قدر کوئی شاعر کسی کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اقبال بھی اتنا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ پسند ناپسند ذاتی واردات اور قلبی معاملہ ہے۔ اس لیے اس سے بھی بحث نہیں ہے۔ اقبال کی شاعری کو مقصدیت کی جس فضول بھٹی میں جھونک کر ہم نے قوم کے لیے خنجر اور شمشیر بنانے کی کوشش کی اس کا نتیجہ تو یوں بھی سامنے آ گیا ہے۔

ہم شاید اقبال کی شاعری سے مطمئن نہیں تھے اس لیے ہم نے انہیں کئی اور تاج پہنانے کی بھی کوشش کی۔ 

اقبال ایک بڑے شاعر تھے ، اس سے کون کم بخت انکار کر سکتا ہے۔ برصغیر کے دس بڑے شعراء کی فہرست سے کوئی ان کا نام قیامت تک خارج نہیں کر سکتا لیکن وہ عالمی سطح کے شاعر تو کیا، ایشیا کی حد تک بھی عظیم تر شاعر تسلیم نہیں کیے گئے۔ 

 اقبال کو فوق البشر اور رد استعمار کی علامت کا چولا بھی زبردستی پہنایا گیا۔ رد استعمار کی علامت اقبال نہ کل تھے نہ آج ہیں۔ یہ تقریروں کی حد تک مبالغہ آرائئ جائز ہے کہ ان کی شاعری نے مسلمانان ہند کو ولولہ آزادی سے سرشار کر دیا اور ان کی شاعری نے برصغیر میں  آگ لگا دی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

 
اگر  ٹیپو سلطان پر لکھے گئے چند اشعار سے ان کی انگریز مخالفت برآمد کرنی ہے تو مسولینی پر لکھی گئی نظم سے ان کی فاشزم سے محبت بھی نکل آئے گی۔ ویسے ہم نے تو بہت ڈھونڈا ، ہمیں کوئی عنوان ایسا نہ ملا  جو براہ راست انگریز حکومت یا سامراج مخالفت پر مبنی ہو ۔ باقی تشریح کرنے میں تو ان کے اشعار سے یار لوگوں نے جوہری توانائی کا فارمولا بھی نکال لیا ہے۔

 
ملکہ وکٹوریا کے قصیدے کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ اقبال اس وقت نادان تھے۔ جارج پنجم کے قصیدے پر نظر کریں تو کندھے پر ہاتھ رکھ کر بتایا جاتا ہے کہ یہ تو ایسے ہی ایک دوست کی فرمائش پر لکھ دیا تھا۔ ٹیپو پر لکھے گئے سے اگر ان کی انگریز دشمنی ثابت ہوتی ہے تو بھگت سنگھ ، اشفاق اللہ خان اور چندر شیکھر آزاد پر ان کی خاموشی سے انگریز محبت کی دلیل بھی نکالی جا سکتی ہے۔ 

 
جلیانوالہ باغ کا سانحہ پنجاب میں ہوا تو بنگال میں ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا ۔ اقبال تو اسی پنجاب کے بیٹے تھے لیکن وہ اس وقت شہنشاہ برطانیہ کا قصیدہ لکھتے رہے۔ اپنے گھر میں  بیتی اس قیامت پر ایک لفظ ان کے قلم سے نہ ٹپکا اور بعد میں اسی خون آشام سامراج سے ملنے والا  سر کا خطاب ایک اعزاز کی طرح وہ قبر میں ساتھ لے کر گئے۔

ابھی دلی اور لاہور کے طالب علم جب جبر واستبداد کے خلاف بسمل صابری اور فیض کی نظموں کے پرچم بنا کر باہر نکلے تھے تو کسی کو اقبال کا کوئی شعر اس موضوع پر کیوں نہیں ملا۔ 47 سے پہلے کی تحریک آزادی میں اقبال کی کون سی نظم عوام گاتے پھرتے تھے ؟ اقبال کی شاعری نہ اس وقت عوامی تھی نہ اب ہے۔ نہ وہ اس وقت سامراج مخالفت میں گلیوں میں بلند ہوئی تھی نہ اب ہوئی ہے۔ یہ دعوی کہ تحریک آزادی میں ان کی شاعری کا کوئی کردار تھا ، سراسر مبالغہ ہے۔  

رہا مفکر پاکستان ہونے کا الزام تو اس کی تردید اقبال نے ای تھامپسن کو لکھے گئے خط میں خود کر دی تھی۔ باقی جس کا دل کرے ، خطبہ الہ آباد خود پڑھ لے تاکہ تسلی ہو جائے۔  فرزند اقبال بھی ساری عمر لوگوں سے پوچھتے رہے کہ کوئی انہیں بھی بتا دے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے کس شب کو دیکھا تھا۔ 

فلسفے کی دنیا میں بھی ان کی کوئی فکری روایت عالمی منظر نامے پر توجہ نہیں پا سکی۔ جرمن فلسفے کو اسلام کا لبادہ اوڑھانا کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں تھا۔ تو لے دے کر ایک شاعری ہی بچ جاتی ہے۔ اس پر شخصی سطح پر یا معاشرے پر اثر کے پیمانے پر  دنیا تو چھوڑیں، پاکستان میں بھی انہیں ڈاکٹر عبدالسلام یا ایدھی کے قد کے برابر بھی رکھنا ممکن نہیں۔ شعری روایت میں غزل میں غالب اور نظم میں ن م راشد کا کینوس ان سے کہیں وسیع ہے۔ 

اقبال دراصل ہمارے فکری افلاس کے لیے ایک زنبیل کا کام کرتے ہیں جس میں ہم سیاست، فلسفہ، شاعری اور مذہبی علم سب ڈال کر ایک عبقری برآمد کر کے اپنی تسلی کر لیتے ہیں کہ مشاہیر زمانہ کے مقابلے میں ہمارے پاس کیا ہمہ جہت شخص موجود ہے وہ الگ بات ہے کہ نہ عالم کو اقبال کی خبر ہے نہ زمانے کو۔ 

آج ان کی سال گرہ ہے۔ میں انہیں ایک اچھا شاعر سمجھتا ہوں لیکن اس سے بڑھ کر ان کی تحسین میرے لیے ممکن نہیں ہے، اس لیے مجھے معاف رکھیے۔ یہ سب بھی اس لیے لکھا کہ ان کی خاطر خواہ تعریف نہ کرنے پر دوست صبح سے خفا خفا پھر رہے ہیں۔ 

آپ بہرحال اپنا بت بنانے میں آزاد ہیں۔ ویسا ہی جیسے ایک تھکے ماندے نیم استراحت کرتے اقبال کے ہاتھ میں قرآن رکھ کر مصور نے بنایا ہے۔

Wednesday, 3 November 2021

نیا مطالعہ پاکستان

‏" نیا مطالعہ پاکستان"

ریاست پاکستان ایشیا کے جنوب میں واقع ہے
اس کا کل رقبہ جتنا بھی ہے سب پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن  
رہی ہیں

ریاست کا پوار نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اسلام اور جمہوریت دونوں سے ہی محروم ہے

ریاست کے جھنڈے میں دو رنگ ہیں
سبز رنگ مولویوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا
‏ہے اور سفید رنگ اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری کو ظاہر کرتا ہے

چاند ستارے سے مراد یہ کہ ریاست کے کرتا دھرتا صرف وہی ہیں جن کی وردی پہ چاند ستارہ بنا ہوا ہے

ریاست چار باقاعدہ اور ایک بے قاعدہ صوبے پر مشتمل ہے

ریاست پاکستان 1947 میں انگریزوں سے آزاد ہوئی
مگر انگریزوں کے غلاموں سے تاحال
‏آزاد نہیں ہو سکی

اور آزادی کیلئے کوئی بھی کوشش جاری نہیں ہے
کہ ریاستی عوام کو روٹی ،کپڑا اور مکان کی بنیادی ضروریات کا اسیر بنا کر رکھا جا رہا ہے

ریاست پاکستان درحقیقت کئی سو ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے
جہاں ہر ریاست کے اپنے اپنے قوانین ،قاعدے اور ضابطے ہیں

اگر ایک ریاست دوسری ‏ریاست کے معاملے میں ٹانگ اڑائے تو ٹانگ توڑ دی جاتی ہے

جیسا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے
کہ ریاست پاکستان کی ایک ہمسایہ ریاست ہے "ریاست لال مسجد"

ریاست لال مسجد نے ایک بار ریاست پاکستان کی رٹ کو چیلنج کیا

جواب میں ریاست پاکستان نے اس پہ حملہ کر دیا

جواب میں ریاست پاکستان کے گیارہ سپاہی‏موقع پر مار دئیے گئے

اور پھر پوری ریاست پاکستان میں خود کش دھماکوں سے ریاست کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی
وہ تو شکر ہے ریاست کے اصل محافظوں نے اسے جوں توں کر کے بچا لیا

آج کل ریاست پاکستان کے ریاست لال مسجد سے بہت اچھے تعلقات ہیں

ایسی ہی ایک ریاست " ریاست سندھ" ہے ،اس پر ‏پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے

اس ریاست کے شہری بری حالت میں ہیں۔ ریاست کی حکومت ظالم اور کرپٹ ہے۔ مگر ریاست پاکستان اس ریاست کے شہریوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی

کیونکہ ریاست سندھ مزید آزادی کے نعرے لگانا شروع کر دیتی ہے

ایسی ہی ایک ریاست خادم رضوی نے 2017 میں قائم کی جس کا دارلخلافہ ‏لاہور ہے

اس ریاست کا نام لبیک ہے
اس نے ریاست پاکستان پہ چھ حملے کئے مگر ہر بار ریاست پاکستان نے مذاکرات کے ذریعے ان کو رام کیا
اور اپنی عوام کو ان کے شر سے نہ بچا سکی
اپنے دس پولیس والے مروا کر قاتلوں کو محفوظ راستہ دینے پر مجبور ہو گئی

ایسے ہی اور بھی بہت سے مولوی ہیں جنہوں ‏نے اپنی اپنی الگ ریاستیں بنا رکھی ہیں

اگر ریاست پاکستان کبھی ان کے معاملات میں مداخلت کی کوشش بھی کرے تو یہ مدارس کے سپاہی لے کر سڑکوں پہ نکل آتے ہیں

اور ریاست پاکستان کا سانس بند کر دیتے ہیں

مزے کی بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان ایٹمی طاقت بھی ہے
ریاست کے اندر تمام ادارے بھی الگ ‏ریاستوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کوئی بھی ادارہ ریاست پاکستان کے کنڑول میں نہیں ہے

اور دور دور تک اس کے کوئی امکانات بھی نہیں ہیں

ریاست پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت ہے
مگر گندم باہر سے امپورٹ کی جاتی ہے

دفاع اس قدر مضبوط ہے کہ چھ گنا بڑے ملک انڈیا کو دن میں تارے دکھا سکتا ہے ‏اور کمزور اتنا ہے کہ چار مولوی کہیں نکل آئیں تو قابو نہیں آتے

ریاست کے تاجر عوام کو جی بھر کر لوٹتے ہیں
مگر ریاست کو ٹیکس دیتے ہوئے انہیں باقاعدہ موت پڑتی ہے

ریاست کی سب سے بڑی صنعت مذہب ہے

دوسرے نمبر پہ سیاست اور تیسرے نمبر پہ تعلیم ہے

صحت اور انصاف بھی بڑے کاروباروں میں شمار‏ہوتے ہیں

ریاست کا آئین جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے

اور دستور کے مطابق جنگل کا قانون نافذ ہے

ریاست کا معاشی ڈھانچہ ایسا ہے
کہ امیر ،امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے
ریاست پاکستان کو چلانے والے سب لوگ اس ریاست سے اتنی محبت رکھتے ہیں

کہ سب نے دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کر رکھی ہے ‏جیسے ہی اقتدار یا عہدے سے فارغ ہوتے ہیں فوراً اپنے اصلی ممالک کو روانہ ہو جاتے ہیں

ریاست میں رشوت لینا اور دینا لازم ہے
ورنہ آپ کا معمولی سا کام بھی اٹک جائے گا

ریاست کا عام آدمی اگر دفاعی اداروں کو برا بھلا کہے تو گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے

مگر کوئی چور اچکا یا بڑا مجرم جتنی مرضی‏مدر سسٹر کر دے
کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی

ریاست میں امن و امان صرف طاقتور کو دستیاب ہے
غریب آدمی اللہ آسرے پہ زندہ ہے

ریاست بڑے مجرموں کو وی آئی پی پروٹوکول دیتی ہے
اور چھوٹے مجرموں کو جوتے مارتی ہے

انصاف ،تعلیم اور صحت اوقات کے مطابق دی جاتی ہے

اگر آپ پاکستانی شہری ہیں تو ‏آپ عظیم انسان ہیں

آپ دنیا میں ہی اتنی تکلیفوں سے گزر جائیں گے کہ آخرت ان شاءاللہ بھلی ہو گی

بس ایک احتیاط رکھیں

اس ملک میں عاشق رسول بہت زیادہ ہیں، ان سے بچ کر رہیں
ورنہ آپ کو مارا جا سکتا ہے

اور آپ کی دکان جلائی جا سکتی ہے!
منقول

Tuesday, 2 November 2021

پاکستان اور مولبی 😅 قمر نقیب

پاکستان میں ذاتی دشمنیاں نمٹانے اور دوسروں کے خلاف اپنے نفرت بھرے مذہبی جذبات کی تسکین کے لئے توہین مذہب یا توہین رسالت کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ کوئی اہل سنت ہو تو توہین رسالت کا الزام، کوئی اہل تشیع ہو تو توہین صحابہ کا الزام. اتنے سنگین مسئلہ کو لوگوں نے بہت ہلکا لینا شروع کر دیا ہے، اوریا مقبول جان اور عامر لیاقت جیسے نامور صحافی میڈیا پر بیٹھ کر بہتان اور الزام تراشی کرتے ہوئے اللہ سے  ذرا نہیں ڈرتے۔ ایسے نوے فیصد الزامات عدالتی سطح پر ثابت نہیں ہوتے، جو ثابت ہو جاتے ہیں ان کے ملزمان کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے، ان کی سزاؤں پر تقریباً کبھی بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ کسی پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا، مقدمہ درج ہونے اور عدالت میں پیش ہونے کی نوبت ہی نہ آئی اور مشتعل ہجوم نے اسے تشدد کر کے قتل کر دیا۔

ایسے میں پولیس موقع  پر  پہنچ بھی جائے تو بھی ملزم کو بچا نہیں سکتی، ایک بار ضلع شیخوپورہ کے گاؤں مکی میں ایک ان پڑھ مسیحی جوڑا کہیں سے پرانا پینافلیکس اٹھا لایا، جس پر مختلف کالجوں کے نام اور سلوگن لکھے تھے۔ مسیحی جوڑا سونے کے لیے اس پینا فلیکس کو بطور بستر استعمال کرنے لگا، کچھ دن بعد ان کے حجام پڑوسی کی نظر پڑ گئی، اس حجام نے دو لوکل مولویوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اس مسیحی جوڑے پر توہینِ مذہب کا الزام لگا دیا. ارد گرد آبادی کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اس غریب جوڑے کو مار مار کر گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے، ان پڑھ غریبوں کو پتا بھی نہیں تھا کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ قریب تھا کہ وہ ہجوم اس جوڑے کی جان لے لیتا کہ پولیس آفیسر سہیل ظفر چٹھہ نے بروقت مداخلت کی اور اس مظلوم جوڑے کو ہجوم کے ہاتھوں مرنے سے بچا لیا، مولوی کو گرفتار کر لیا گیا اور حجام بھاگ گیا. لیکن قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن کا مسیحی جوڑا اتنا خوش قسمت نہیں تھا، نومبر 2014 میں قرآنی آیات کی بےحرمتی کا الزام لگا کر اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مسیحی میاں بیوی شہزاد اور شمع کو اسی اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ وہ لگ بھگ پندرہ سو لوگوں کا ہجوم تھا جس نے پہلے ان دونوں پر اینٹوں، پتھروں اور ڈنڈوں کی بارش کر دی اور پھر جب ان دونوں میں ایک رمق زندگی باقی رہ گئی تو انہیں اسی بھٹے میں زندہ جلا دیا.

مولوی کو گستاخی ثابت کرنے کے لیے کسی وجہ کی، کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اس مُلک کا  دادا ہے ، وہ اس شہر کا بھائی ہے، حکومتی ادارے بھی مولویوں کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتے، یاد ہے جب پیمرا نے حمزہ عباسی کے پروگرام پر پابندی لگائی تھی؟ شائستہ واحدی کا شو بند کیا گیا تھا؟ لہٰذا آپ کو جہاں بھی ایسے انتہا پسند مولوی نظر آئیں، ایمان اور جان بچا کر بھاگیں، مولویوں سے بحث نہیں کرنی، یہ لوگ گالی دے کر، الٹی سیدھی کرامات سنا کر آپ کو غصہ دلائیں گے، پھر آپ کچھ بھی کہیں وہ آپ کے خلاف چارج شیٹ ہو گی، یہ آپ پر گستاخی کا الزام لگا کر قتل کرا دیں گے، یہی ان کا طریقہ واردات ہے.

یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی گستاخ گستاخ کھیلتے رہتے ہیں. اور کبھی کبھار خود اسی گڑھے میں اوندھے منہ گِر جاتے ہیں، چیچہ وطنی تھانہ غازی آباد کے نواحی علاقے میں مقامی مسجد کے خطیب محسن ارشاد جوش خطابت میں کچھ کا کچھ بول گیا. علاقہ مکینوں نے اس گستاخی پر احتجاج کیا، اور محسن کو علاقہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ “آج تک” ٹی وی کے جرنلسٹ روہت سردانا پر بھی یہ الزام تھا کہ اس نے گستاخی پر مبنی کچھ ٹویٹس کی تھیں، مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ندیم جیمز پر بھی الزام تھا کہ اس نے پیغمبر اسلام سے متعلق ایک متنازعہ نظم اپنے ایک قریبی دوست کو واٹس ایپ پر بھیجی تھی اور وہ دوست فون اٹھا کر تھانے پہنچ گیا. اسلام آباد کی بارہ سالہ رمشا مسیح تو آپ کو یاد ہی ہو گی جس پر قرآنی صفحات جلانے کا الزام لگایا گیا تھا، بالآخر اسے بھی فیملی سمیت پاکستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا. لیکن اگر آپ کو پاکستان سے زندہ بھاگنے کا موقع مل گیا ہے تو واپس آنے کی غلطی مت کریں.  آپ دس سال بعد بھی اگر واپس آئے تو مارے جائیں گے، سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں فضل عباس نامی شخص پر گستاخی رسول کا الزام لگا تھا اور وہ جان بچا کر بیرون ملک بھاگ گیا، تیرہ سال بعد وہ پاکستان واپس آیا تو اسی کے محلے کی رہائشی تین بہنوں نے اسکے گھر میں گھس کر فضل عباس کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

آسیہ بی بی، مشہور زمانہ کیس ہے. آسیہ کا تعلق ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے اِٹانوالی سے تھا، وہ پانچ بچوں کی ماں تھی. آسیہ بی بی نے ایس پی انویسٹیگیشن شیخوپورہ محمد امین شاہ بخاری اور مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعترافِ جرم کیا اور کہا کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے، لہٰذا اسے معاف کردیا جائے۔ آسیہ بی بی نے اپنے خلاف مقدمے کے مدعی قاری سالم سے بھی معافی مانگی، لیکن قاری کی طرف سے مؤقف اپنایا گیا کہ توہین رسالت کے مجرم کو معافی نہیں دی جا سکتی۔ وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا، گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے بھی شیخوپورہ جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات کی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوانے کی کوشش کریں گے۔ سلمان تاثیر نے 295 سی پر بھی تنقید کر دی جس سے ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ پھر ایک دن سلمان تاثیر کے گارڈ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو موت کے گھاٹ اتار دیا.

 کراچی سے ایک تبلیغی جماعت چِلّے کے لیے نکلی، مرکز سے جماعت کی تشکیل چنیوٹ سے بیس کلومیٹر دور ایک گاؤں موضع عاصیاں میں ہوئی. عصر کی تعلیم کے حلقے میں حافظ اکرم خان عاصی ولد شیر خان کی تبلیغی جماعت کے افراد سے بحث چھڑ گئی. اس وقت مسجد کے باقی افراد نے معاملہ رفع دفع کر دیا. حافظ اکرم مسجد سے نکلا اور اپنے مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھنے چلا گیا. مولانا نے بتایا کہ یہ تو سراسر گستاخی ہے اور تبلیغی جماعت کے لوگ گستاخ ہیں. اکرم گھر واپس آیا اور زمین کھودنے والا تیز دھار پھاؤڑا اٹھا کر مسجد کی طرف روانہ ہو گیا. رات کے پچھلے پہر مسجد میں سوئے ہوئے تبلیغی جماعت کے تیرہ افراد پر اکرم نے حملہ کر دیا. پہلی ضربیں ولی الرحمان کے سر اور گردن پر پڑیں، ولی الرحمان کا کام تمام ہوا تو اس کے ساتھ سوئے عبداللہ پر پھاؤڑے کے وار شروع کر دئیے. اسی اثنا میں شور شرابا سن کر باقی افراد اٹھ گئے اور چار پانچ  لوگوں نے  حافظ اکرم کو دبوچ لیا. دو مزید جانیں ضائع ہوئیں مگر ہم نے کچھ نہ سیکھا.

پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں ایک ملزم کو قادیانی گستاخ قرار دے کر قتل کر دیا گیا، خوشاب نیشنل بینک کے منیجر محمد عمران کو سکیورٹی گارڈ نے گستاخی کا الزام لگا کر گولی مار دی، حالانکہ بینک منیجر نے صرف اتنا کہا تھا کہ فرض نماز پڑھو اور اپنی ڈیوٹی کرو. سنتیں اور نوافل کوئی ضروری نہیں. ابھی دو ماہ قبل صادق آباد میں پولیس کانسٹیبل حافظ وقاص نے توہینِ رسالت کے الزام میں تین سال بعد جیل سے ضمانت پر رہا ہونے والے شخص کو ٹوکے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، بھائی بچانے آیا تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا.. 

گستاخی کیا ہے، گستاخی کا تعین کون کرے گا، گستاخی کی سزا کیا ہے، سزا پر عملدرآمد کون کرے گا؟ ان تمام سوالات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنا عشق رسول ثابت کرنے کے لیے ہم جلاد بنے ہوئے ہیں.
ہمیں اپنے معاشرے پر نظر کرنی چاہیے. اصل گستاخی تو یہ ہے کہ کسی ملزم کو صفائی پیش کرنے کا موقع ہی نہ دیا جائے. گستاخی تو یہ ہے کہ رحمت للعالمین کے نام لیوا وحشت اور بربریت سے معصوم لوگوں کی جان لے لیں. گستاخی تو یہ ہے کہ بچے اور بچیاں بھی ہماری جنسی درندگی کا شکار بن جائیں. گستاخی تو یہ ہے کہ ملک کی چھیانوے فیصد عوام مسلمان ہو اور پھر بھی عدل و انصاف ناپید ہو جائے.

Sunday, 31 October 2021

آڈن کے نام ۔۔۔ فہمیدہ ریاض

 یہ سچ ہے مرے فلسفی

میرے شاعر
وہ وقت آگیا ہے
کہ دُنیا کے بوڑھے فریبی معلم کا جبّہ پکڑ کر
نئے لوگ کہہ دیں
کتابیں بدل دو!
یہ جھوٹی کتابیں
جو ہم کو پڑھاتے چلے آ رہے ہیں
حقیقت کے رُخ سے
یہ  بے معنی فرسودہ لفظوں کے پردے ہٹا دو
جلا دو
کتابیں جو ہم نے پڑھی ہیں
جلا دو
کتابیں جو کہتی ہیں دنیا میں حق جیتتا ہے
یہ سب کذب و بے ہودہ گوئی مٹا دو
یہ سب کچھ غلط ہے
کہ ہم جانتے ہیں
کہ جھوٹ اور سچ میں ہمیشہ ہوئی جنگ
اور جھوٹ جیتتا ہے
کہ نفرت امر ہے
کہ طاقت ہے برحق
کہ سچ ہارتا ہے

کہ شیطان نیکی کے احمق خدا سے بڑا ہے

Saturday, 30 October 2021

ٹیگور اور وکٹوریہ اوکیمپو کی محبت بھری داستان

ٹیگور اور وکٹوریہ اوکیمپو کی محبت بھری داستان

 
انیس سو چودہ میں نوبل انعام جیتنے کے ایک برس بعد رابندر ناتھ ٹیگور پر ان کے گہرے اضطراب کا بدترین دور شروع ہوا۔
بقول ٹیگور "میں بلکل تنہا تھا، میرے بچپن کا ایک پہلو یہ تھا کہ میں بہت تنہا تھا۔ میں نے اپنے والد کو بہت کم ہی دکھا، وہ اکثر دُور رہے۔ اپنی ماں کی وفات کے بعد سے میں اکثر گھر کے ملازمین کی نگرانی میں رہا۔
بعد میں ٹیگور نے اپنی تنہائی دور کرنے کے لئے ﮐﺌﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﺷﺘﮯ اور تعلقات بنائے۔ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ نجی زندگی پر اور پھر خاص کر وکٹوریہ اوکیمپو سے تعلق پر بات کرنا ﺍﯾﮏ انتہائی حسّاس پہلو ہے یہ ایک ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ہندوستان اور ﺧﺎﺹ کر ﺑﻨﮕﺎﻝ ﮐﮯ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ نے بہت ﮐﻢ ﮨﯽ ﺑﺎﺕ کی ہے۔ اس بارے میں ﺑﮩﺖ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ اس لئے بھی پیش آتی ہے۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺫﺭﺍ سی ﺑﮭﯽ ﻟﻐﺰﺵ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔ اوکیمپو سے تعلق کے بارے میں ﺩﻭ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﭘﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ 
وکٹوریہ اوکیمپو ارجنٹائن کے ایک ادبی جریدے کی ایڈیٹر تھیں اور ساتھ ہی ثقافتی حقوق کیلئے بھی سرگرم تھیں۔
ﭨﯿﮕﻮﺭ ﺍﻭﺭ وکٹوریہ ﺍﻭﮐﯿﻤﭙﻮ ﮐﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺩﻭ ﮈﮬﺎﺋﯽ ﻣﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﻮﻣﺒﺮ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺳﻨﮧ 1924 ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺭﯼ ﺳﻨﮧ 1925 ﻣﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ 63 ﺳﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ 34 ﺳﺎﻝ ﺗﮭﯽ
وکٹوریہ اوکیمپو ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﺗﺼﻨﯿﻒ ﮔﯿﺘﺎﻧﺠﻠﯽ سے ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ تب سے ان پر ٹیگور کی شخصیت کا گہرا اثر پڑا اور وہ ان سے بے حد متاثر ہوئی۔
ﭨﯿﮕﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﺍﻭ ﮐﯿﻤﭙﻮ ﮐﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﮯ۔ ' ﺩﺭﺍﺻﻞ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﯾﻮﺭﭖ ﺍﻭﺭ ﻻﻃﯿﻨﯽ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻣﻠﮏ ﭘﯿﺮﻭ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺑﯿﻮﻧﺲ ﺁﺋﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﻔﺮ ﺭﻭﮐﻨﺎ ﭘﮍﺍ۔ '
ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭ ﻣﺎﮦ ﮐﺎ ﻋﺮﺻﮧ ﺑﯿﻮﻧﺲ ﺁﺋﺮﺱ ﮐﮯ ﺩﯾﮩﯽ ﻋﻼﻗﮯ ﺳﯿﻦ ﺍﺳﯿﺪﺭﻭ ﻣﯿﮟ ﭘﻠﯿﭧ ﻧﺎﻣﯽ ﻧﺪﯼ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻨﮕﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯿﮟ ﺍﻭﮐﯿﻤﭙﻮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺳﺘﺎﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 30 ﻧﻈﻤﯿﮟ ﻟﮑﮭﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ' ﺍﺗﯿﺘﮭﯽ ' ﯾﻌﻨﯽ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ' ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺕ ﺳﮯ ﺷﺮﺍﺑﻮﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﻧﮯ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﮯ ﺳﮑﯿﭽﺰ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﺍﻭﮐﻤﯿﭙﻮ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ 1930 کو ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺎﺭ ' ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ' ﭘﯿﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﺍﻭﮐﯿﻤﭙﻮ ﻧﮯ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭩﻨﮕﺰ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭩﻨﮕﺰ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﺳﻨﮧ 1941 ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﺗﮏ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺧﻂ ﻭ ﮐﺘﺎﺑﺖ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻄﻮﻁ ﺍﺏ ﺷﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﻗﺮﺑﺖ ﮐﯽ ﺧﻠﺶ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﮐﯿﻤﭙﻮ ﮐﯽ ﺍﺯﺩﻭﺍﺟﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻠﺨﯽ ﺩﺭ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮔﯿﺘﺎنجلی ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮯ ﻧﮯ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﺳﮯ ﺑﻨﻔﺲ ﻧﻔﯿﺲ ﻣﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﮨﯽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔ کہا جاتا ہے کہ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﻧﻈﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ' ﻭﺟﯿﮧ ' ﯾﺎ ' ﺑﯿﺠﯿﺎ ' ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺩﺭ ﺍﺻﻞ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ اوکیمپو ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺩﺭﺟﻦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺁﭘﺴﯽ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ٹیگور اور وکٹوریہ کے آپس میں رشتے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیگور نے 1925 میں شائع ہونے والی اپنی نظموں کی کتاب کا انتساب وکٹوریہ کے نام کیا تھا۔

نوٹ۔ ﺭﺍﺑﻨﺪﺭﻧﺎﺗﮫ ﭨﯿﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﮧ ﺍﻭﮐﯿﻤﭙﻮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ' محبت پر ﻣﺒﻨﯽ ﻓﻠﻢ ' ﺗﮭﻨﮑﻨﮓ ﺁﻑ ﮨِﻢ ' بیک وقت چار زبانوں انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی 

اور بنگلہ میں ریلیز کی جا رہی ہے



Favourite Movies







 

Friday, 29 October 2021

The Hoax in the ISIS Flag by Ahmed El Shamsy

The Hoax in the ISIS Flag

Claiming to channel pure Islam, the Islamic State fell for a long-debunked 19th century hoax







The Hoax in the ISIS Flag
A member of the Iraqi forces walks past a mural bearing the logo of the Islamic State group in a tunnel that was reportedly used as a training centre by the jihadists, on March 1, 2017, in the village of Albu Sayf, on the southern outskirts of Mosul / Ahmad Al-Rubaye / AFP via Getty Images



 In 1854, a French diplomat named François Alphonse Belin made a bombshell announcement: the discovery of an original letter sent by the Prophet Muhammad to the governor of Egypt in the seventh century, complete with Muhammad’s personal seal. Biographies of the Prophet tell us he wrote such letters, but until then it was thought that none survived. Belin’s account of the discovery is thrilling, albeit fictitious. But the letter’s real history — and the histories of other letters purportedly written by Muhammad that surfaced soon after it — is no less fascinating. The forged letters passed through the hands of canny businesspeople, eager scholars and gullible sultans. They were eventually enshrined in the most unlikely of places: the official flag of the Islamic State group.

According to Belin, Muhammad’s letter had been unearthed by a Frenchman named Etienne Barthélémy when researching in the libraries of Coptic monasteries near the southern Egyptian town of Akhmim. Belin’s account of Barthélémy’s find is full of sensationalist flourishes: It depicts Barthélémy struggling heroically against exhaustion and bankruptcy to rescue ancient books from oblivion and bring them to the light of science. His perseverance was rewarded when he came upon an Arabic manuscript. Examining the damaged binding, he spied a sheet of parchment within it and began to pry the binding apart, having recognized the word “Muhammad” written in an ancient hand. Feverish with excitement, he bought the manuscript for closer scrutiny. Belin quotes a letter that Barthélémy sent to his family soon afterward, describing his painstaking efforts to decipher the letter and concluding: “Given the seal and the beginning of the first line, I am inclined to believe that this parchment is a letter from Muhammad addressed to the Coptic nation, and that this seal is that of the prophet of the Muslims.”

Though trained by the foremost Orientalists of his time, Belin had pursued a career in the French foreign service, working first as a translator and then as consul in Cairo and Istanbul. With his scholarly credentials and his prominent position, Belin’s judgment carried considerable clout. The detailed study of the purported letter that he published contained a transcription and French translation of the text, which calls on the Christian inhabitants of Egypt to convert to Islam and proposes dialogue on the basis of shared monotheism. Belin’s description of the document precisely matched the descriptions of Muhammad’s letter contained in early Muslim historical works, such as the ninth century “Conquest of Egypt” of Ibn Abd al-Hakam. In addition, Belin argued that the script of the letter resembled the ancient scripts used in the early Quranic manuscripts that French Orientalists had acquired (by force) during Napoleon’s occupation of Egypt. Thanks, no doubt, to Belin’s endorsement, the letter was bought by the Ottoman Sultan Abdul Majid in 1858 for the staggering price of 500,000 Turkish piasters — equivalent to 73 pounds of gold.

Orientalist scholars, too, were caught up in the excitement. Although the journal of the German Orientalist society admitted in 1856 that the letter’s authenticity had not yet been established with certainty, it declared that Belin’s thorough study had made it very likely. Four years later, Theodor Nöldeke, in the first edition of his groundbreaking study of the Quran, claimed that the authenticity of the letter could not be doubted. Given this overwhelming agreement, the letter’s script was subsequently used to authenticate other texts. For example, in 1857 a newly discovered cache of copper coins was declared authentic on the basis of similarities between the script of the letter and that on the coins.

The first cracks in the consensus appeared in 1863, when another letter purportedly written by Muhammad came to light. This letter was likewise bought by the Ottoman sultan. Heinrich Leberecht Fleischer, the doyen of Orientalist studies in Germany at the time, openly mocked the second letter, writing that “the Italian who has forged or peddled it must have been born under a lucky star if he manages to fool truly learned Muslims.” Pointing out many crude errors in it, such as the misspelling of the addressee’s name, Fleischer suggested that “the man wanted to see whether the hen that laid such beautiful golden eggs for the seller of Muhammad’s [other] letter … is still alive.”

Tracing of a letter claiming to have been written by the Prophet Muhammad / Courtesy of author

A more extensive and definitive critique came from the Austrian Orientalist Joseph Karabacek, who worked on the Arabic papyrus collection in Vienna, which contains some of the oldest documents written by Muslims anywhere in the world. According to Karabacek, a comparative paleographic analysis — focusing on the form of the script — of these ancient papyri and the letter to the Copts clearly showed the latter to be a forgery. The German scholarly community quickly accepted Karabacek’s conclusions. When Theodor Nöldeke published the second edition of his Quran book, he frankly reversed his earlier stance, declaring that the letters were “definitely not authentic.” (British Orientalists, far behind their mainland colleagues in the study of scripts, held out longer.)

In the Muslim world, the authenticity of the purported letters from Muhammad went undiscussed for some time, probably because the letters were initially hidden from the public eye. The Ottoman sultans, who had quickly amassed a total of four such letters, kept them within their collection of sacred relics (which also contained items such as Muhammad’s tooth, cloak and beard hair) and paid their respects to them on ceremonious annual visits. Questions were not raised until 1904, when an article in the Egyptian journal al-Hilal argued that the letters’ script betrayed a crude attempt to imitate early Islamic writing. But the letters received staunch support from the Hyderabadi scholar Muhammad Hamidullah, who, in a series of publications from 1935 to 1985, defended the authenticity not only of the four letters that had been in the sultan’s collection but also of two other letters in private hands.

Hamidullah’s central argument was that neither Muslim nor Orientalist scholars in the 19th century had sufficient knowledge of early scripts to produce such sophisticated forgeries, so the letters had to be genuine. But this is not true: Already half a century before Belin’s article, Orientalist scholars — foremost among them Belin’s teacher Sylvestre de Sacy — had studied and characterized the script of early Quran fragments, which they called “Kufic.” Radiocarbon dating has since established that these fragments do indeed date from the first century of Islam and comparing them to the letters makes it clear that the latter are fake: The scribes who wrote them were struggling to imitate a profoundly unfamiliar script. The baseline of the words is inconsistent, the spacing is off, and the letters are drawn unsteadily rather than written. Thanks to the internet, today one can browse dozens of samples of Quranic writing, as well as other documents and rock inscriptions, from the first decades of Islam. Next to these genuine samples, the purported letters look like Disneyland castles juxtaposed with their medieval models. But at a time when few people had access to genuine Kufic texts, the forgeries had a chance of passing successfully.

The seal at the end of the letters also raises questions. According to early descriptions, Muhammad’s personal seal contained the phrase “Muhammad, apostle [of] God,” with each word on a separate line, starting with “Muhammad” on the top. The phrase in this form is attested on very early Islamic coins. But by the 14th century, some Muslim scholars were beginning to speculate that the word order on the seal might actually have been the opposite: “God” on the first line, “apostle” on the second and “Muhammad” on the third. This arrangement would have placed God, rather than Muhammad, at the top, which these scholars felt would be more appropriate. The idea was taken up by al-Halabi (died 1635), the author of a fanciful but enduringly popular biography of Muhammad that featured all kinds of fictional embellishments. However, as Ibn Hajar al-Asqalani (died 1449), an authority on reports about Muhammad, pointed out, there is no historical evidence to support the claim that the seal’s text began with “God.” It was a medieval invention.

So the letters are fakes. But who forged them, and why? Karabacek suspected Egyptian Copts, pointing to a well-known medieval practice in Christian and Jewish communities of forging letters in which Muhammad exempts the recipients from taxation. But these medieval letters were written for an obvious practical goal, their content was unattested in historical accounts, and they generally claimed to be mere copies rather than originals. By contrast, the letter touted by Barthélémy was marketed as the genuine one, from the hand of the Prophet himself. It replicated the text of a known document, mimicked the early Kufic script and was written on parchment rather than paper (an important detail, since paper was adopted in the Arab world only after Muhammad’s time).

The first suspect must be Barthélémy himself, a keen entrepreneur with knowledge of Oriental languages. He publicized his find actively among diplomats and academics and succeeded in securing Belin’s endorsement, which facilitated the enormously lucrative sale of the letter to the Ottoman court. Other suspect figures include two Europeans, Ribandi and Wilkinson, who acted as intermediaries in the sale, and an Italian who claimed to have obtained the second letter through daring subterfuge, traveling across Syria in native disguise (a trope of 19th-century Oriental adventure fantasies), purchasing the letter under false pretenses. The tales of these European “discoverers” are full of colorful clichés but remarkably thin on details. In which monastery did Barthélémy find the Arabic manuscript containing the first letter? From whom did the unnamed Italian buy the second letter?

The formulism and convenient omissions of these stories and the suspicious features of the letters themselves indicate that the letters were forged in the 19th century by Europeans who had enough scholarly training to produce credible fabrications as well as the requisite connections and business savvy to turn them into money. These men took the early historical reports that Muhammad sent letters to foreign rulers and spun them into artifacts that could pique the interest of the Ottoman sultan.

After the collapse of the Ottoman empire, the letters and other prophetic relics in the sultan’s collection were incorporated into the Topkapi Palace museum and displayed as tourist attractions. They also continued to hold devotional value for the pious, as shown by a 1920s post-Ottoman pamphlet featuring an image and a Turkish translation of the letter to the Copts.

But the letters received an entirely new lease on life in 2007, when the militant group then calling itself the Islamic State of Iraq adopted a flag that includes an exact replica of Muhammad’s purported seal, copied from the forged letters. In an anonymous document disseminated online, the group explicitly acknowledged the Topkapi letters as the source of the seal. To their credit, the militants were aware that the word order on the seal did not match early descriptions, but they argued that the discovery of the actual letters made further doubts about the correct order moot. That the letters might be fake, or that their script was questionable, was not mentioned.

When the group renamed itself the Islamic State in 2014 and established its short-lived caliphate, the forged seal of Muhammad became the symbol of the militants’ rule. It not only was used on the infamous black flag but also branded the Islamic State’s considerable propaganda output and was stamped on its documents. A European Orientalist fraud was broadcast to the world by a group claiming to be the rightful inheritors of the Prophet’s mantle.

The Islamic State embraced what it thought was Muhammad’s seal for the same reason that the Ottoman sultan was willing to pay exorbitant prices for Muhammad’s purported letters: to claim legitimacy. Whereas the sultan’s purchase of the letters was a continuation of his dynasty’s centuries-long campaign of amassing sacred objects, the Islamic State had little interest in the objects themselves; it merely sought to harness the symbolic significance of the seal, which could be easily reproduced and disseminated. It is, perhaps, understandable that neither the Ottomans nor the Islamic State were interested in examining the actual historicity of their symbols too closely.

Instead of springing from the pen of Muhammad’s scribes in the seventh century, the letters attributed to him were products of an enterprising class of men in the age of European colonialism who saw an opportunity to monetize the growing hunger of museums, libraries and private collectors for historical artifacts. Although local inhabitants of the Middle East also profited from such frauds, it was Europeans who occupied the most high-profile and lucrative positions in this thriving industry. They possessed the resources, the prestige and the scholarly tools that enabled them to identify and obtain genuine artifacts — and to credibly fabricate others. The case of Muhammad’s letters shows how unsavory origins could be camouflaged with sensationalist stories of discovery and scholarly window-dressing to satisfy an audience willing to believe that they were looking at the real thing. The Islamic State’s caliphate was in no way unique in this regard: Countless postcolonial states were built on colonial mythologies created and developed by Orientalist scholars. Yet the fact that the Islamic State — a group obsessed with its own authenticity and freedom from outside influences — fell for a 150-year-old European fraud is not without irony.

Thursday, 28 October 2021

Koh-I-Noor: The History of the World's Most Infamous Diamond

 



The Last Mughal: The Fall of a Dynasty: Delhi, 1857

 


Truth, Love & A Little Malice

https://www.mediafire.com/file/k6gl8fkppw0w1c7/truth,+love+and+a+little+malice+(+PDFDrive+).pdf/file





Sapiens - Yuval Noah Harari

 


Military Inc.: Inside Pakistan's Military Economy Urdu

 










https://www.mediafire.com/file/k16lmbq5wxrs32d/Military+Inc._+Inside+Pakistan's+Military+Economy+Urdu+translation+(+PDFDrive+).pdf/file

پیر بابا پتر شاہ اور چوہدری کے اختیارات

 پیر بابا پتر شاہ اور چوہدری کے اختیارات

ہمارے گاوں میں ایک پیر آتا تھا ۔ یہ پاکپتن شریف سے آتا تھا ۔ اُس کا نام بابا پُتر شاہ تھا ۔ اِس نام کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ بانجھ عورتوں کو بیٹے دیتا تھا ۔ خود اُس کے ہاں کوئی اولاد اور گھر گھاٹ نہیں تھا ۔ اِس کا سبب وہ یہ بتاتا کہ ساری اولادیں وہ دوسروں کو بانٹ چکا تھا حتیٰ کہ اپنے حصے کی اولاد بھی۔ البتہ اُس سے کبھی کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ اب اگر آپ کی اپنی زنبیل خالی ہو چکی ہے تو مزید عورتوں کو بیٹے کہاں سے دیتے ہو ۔
یہ پیر بابا اپنے ساتھ دو مریدنیاں اور دو مرید رکھتے تھے جو اُس کی کرامات لوگوں تک پہنچاتے تھے ۔ ایک میردنی بہت ہوشیار تھی اُس کا خاوند بھی مریدنی کا مرید تھا ۔ یہ مریدنی تو اب اُس کی خلیفہ بھی بن چکی تھی ۔ اور اکثر معجزے اب وہ مریدنی ہی دکھاتی تھی ۔ ہاں اگر کہیں اُس کی طاقت سے کوئی چیز باہر ہو جاتی تو پیر بابا آگے بڑھتا ۔ رفتہ رفتہ اُس مریدنی کو بھی لوگوں نے پیرنی کہنا شروع کر دیا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ پیرنی پیر بابا سے آزاد ہو گئی ۔ اور لوگوں کو خود ہی مرادیں دینے لگی ۔ اُنھی دِنوں کی بات ہے جب یہ پیرنی ابھی پیر بابا سے الگ نہیں ہوئی تھی لیکن کرامات دکھانا شروع کر دی تھیں۔ ہوا یہ ایک عورت اور مرد پیر پتر شاہ کے ہاں آئے اور ایک بیٹا پیدا ہونے کی التجا کی ۔ پیر بابا نے پیرنی سے کہا ، اٹھ کر عورت کو کمرے میں لے جا ۔ وہ اُسے کمرے میں لے گئی ۔ اور تھوڑی دیر بعد وآپس آئی اور بولی تین دن بعد دعا قبول ہو گی ۔ پیر بابا نے عورت کے خاوند سے کہا ، اِسے تین دن بعد لانا ۔ تین دن بعد پیرنی اور پیر دونوں اُسے کمرے میں لے گئے اور تھوری دیر دم درود کرنے کے بعد عورت کو وآپس لے آئے اور خاوند کو اُس کا بازو تھما دیا ۔ قدرت خدا کی کچھ اوپر چالیس دنوں بعد عورت کے ہاں اُمید پیدا ہو گئی ۔ اتنے عرصے میں پیر اور پیرنی کی راہیں بھی جدا ہو گئی تھیں ۔ پیرنی نے موقع غنیمت جان کر پیر بابا پتر شاہ کے مرید اور مریدنیاں بھی بانٹ لیں ۔ اور دونوں میں اچھی خاصی دوری پیدا ہو گئی ۔ پیرنی کی دعائیں زیادہ قبول ہونے لگیں ۔ پیر صاحب تو صرف بیٹے دیتا تھا ۔ پیرنی کی کرامات میں سوائے پیغمبری کے سب ظاہر ہونے گا ۔ یعنی رفتہ رفتہ کسی کو کونسلر بننا ہوتا تو وہ پیرنی کے پاس جاتا اور دعا کراتا ، وہ کونسلر بن جاتا ۔ کسی کو ملازمت لینا ہوتی تو وہ بھی پیرنی کے ہاں جاتا اور مراد پاتا ۔ کوئی فراڈ اور کرپشن میں پھنس جاتا ۔ وہ پیرنی جی کے ہاں جا کر دعا کراتا اور اُس کے کہنے پر میلاد وغیرہ مناتا ، کرپشن کے کیس سے بری ہو جاتا ۔ آہستہ آہستہ پیرنی کا دائرہ بڑھتا گیا ۔ اب بڑے بڑے وڈیرے بھی پیرنی کے پاس آنے لگے اور گوہرِ مقصود پانے لگے ۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے کہا مَیں پورے گاوں کا چوہدری بننا چاہتا ہوں۔ حالانکہ وہ آدمی چپراسی بننے کے قابل نہیں تھا ۔ پیرنی نے کہا تیرے ستارے بہت کمزور ہیں ، تو چوہدری نہیں بن سکتا ۔ آدمی نے کہا چوہدری تو مَیں ہر صورت بننا چاہتا ہوں ، کوئی اُپائے بتاو ضرور ۔ پیرنی نے جواب دیا ۔ ہاں مَیں دیکھ رہی ہوں اگر تیرے ستارے کے ساتھ میرا برج حمل مل جائے تو تُو چوہدری بن جائے گا ۔ اُس کی ایک یہی صورت ہے ۔ اُس نے کہا پھر یہ برج میرے ستارے سے کیسے ملے گا ۔ پیرنی نے کہا ، ہم دونوں شادی کر لیں گے ۔ اُس آدمی نے کہا تو تھمارا پہلا خاوند کیا کرے گا ؟ پیرنی نے کہا آپ فکر نہ کرو وہ مجھے آپ کے لیے ڈونیٹ کر دے گا ۔ لیجیے صاحب پیرنی کے خاوند نے ہنسی خوشی پیرنی کو ڈونیٹ کر دیا ۔ اور قدرت خدا کی وہ چپراسی کی قابلیت والا آدمی پیرنی مل جانے کے بعد ہمارے گاوں کا چوہدری بن گیا ۔
اِسی اثنا میں ایک واقعہ پیش آ گیا ۔ جس عورت کے لیے پیر بابا نے بیٹے کی منظوری دی تھی ۔جب اُس کے حمل کو آٹھ مہینے ہو گئے تو دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا پیدا ہو گیا ۔ مرد نے کہا تیرا یہ حمل پیر بابا پتر شاہ کی دعا سے ٹھہرا ہے ۔ جبکہ عورت نے کہا نہیں یہ تو پیرنی کی دعا سے ہوا ہے ۔ جھگڑا طول کھینچ گیا تو مرد بھاگتا ہوا پیر بابا کے پاس آیا اور بولا بابا جی میری بیوی کہتی ہے اُس کا حمل پیرنی کی دعا سے ٹھہرا ہے ۔ پیر بابا نے جلالت میں آ کر جواب دیا ، اچھا اگر یہ بات ہے تو عورت سے کہنا کہ اب بچہ پیدا کر کے دکھائے ۔ لیجیے حضرت کئی ماہ نکل گئے ، بچہ پیدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ عورت کو آخر دوبارہ پیر با با کے پاس جانا پڑا ۔ بابا جی نے بچے کے پیدا ہونے کی منظوری دیتے ہوئے کہا ، ٹھیک ہے بچہ پیدا ہو جائے گا لیکن اپنی پیرنی سے کہنا مَیں نے سارے گُر اُسے نہیں سکھائے ، وہ لوگوں کو گاوں کا چوہدری تو بنا سکتی ہے مگر چوہدری کے اختیارات میرے ہی پاس رہیں گے ۔
اور یہ بھی یاد رکھ مَیں تھماری پیرنی کے خاوند کو جلد ہی اپنی کرامت کے ذریعے چوہدراہٹ سے الگ کر دوں گا پھر تمھاری پیرنی کدھر جائے گی ۔ عورت نے کہا ، وہ وآپس اپنے سابقہ کے پاس ۔
یہ کافی عرصہ پہلے کا واقعہ ہے ۔ میں تو گاوں چھوڑ کر اسلام آباد آ گیا ۔ اب پتا نہیں اُن سب کا کیا بنا ؟
علی اکبر ناطق

Saturday, 23 October 2021

پاکستان کا آرمی چیف

پاکستان کا آرمی چیف

میں پاکستان کا آرمی چیف ہوں
میرا نام کچھ بھی ہو 
مگر میرا کام ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے
میرا نام لیوا ہمیش کامران اور نیک ہی رہتا ہے
میرے دفتر کی دائیں دیوار پر نیرو کی تصویر ٹنگی ہے
جو روم کو جلا کر اور ماں کو مروا کر ناچتا تھا
میں روم کی جگہ موم جلاتا ہوں
آواز اٹھانے والے لاپتہ افراد کی آنکھوں میں
جن میں ناچتے آزادی کے سانپ مر مر کے رینگتے ہیں
پرائیوٹ چینلز میرے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں
اور حکومت کا وضو میرے بغیر ادھورا ہے
ایکسٹینشن میرے پیر کی جوتی ہے
جس میں سنڈریلا کی طرح صرف میرا پیر آتا ہے
میرے قلعے کی فصیل سے اپنا آتا ہے نہ غیر آتا ہے
سوائے امریکہ جاپان اور برطانیہ کے سفیروں کے
جن سے سرخ صوفے پہ میں معاملات طے کرتا ہوں
اور پھر وزیراعظم کو حکم دینے کا حکم دیتا ہوں
سویلین سپرمیسی صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہے میاں
محبت بکارت خوشبو چاندنی اور موتیے کی مہک مانند
مگر میرا اور میری ایمپائر کا مفاد جڑا ہے 
بارود،خون،شہادت،جذبے،عزم اور نغموں کی نکسیروں سے
جو ہر جارحیت کے بعد وطن کے ناک سے پھوٹتی ہیں
اور میں صرف خون پونچھنے کے عوض خون نچوڑتا ہوں
افغان جنگجو کے ہاتھوں میں نچڑتے قندھاری انار کی مانند
سیاست میں حلف عدم مداخلت کی تحقیر کی مانند
میرے پیشرو آسڑیلیا امارات سعودیہ اور امریکہ میں
حب الوطنی کے مرتبان سے نکال کر اچار کھاتے ہیں
اور میرے سپاہی لکیروں پہ دل و جاں کی مار کھاتے ہیں
جنھیں میں لکڑی کے تابوتوں میں باجوں کی آوازوں میں
نیم گیلی مٹی کھود کر دفناتا ہوں
اور انکے لواحقین کو تھماتا ہوں
شہادت کا سرٹیفیکیٹ ،پلاٹ کے کاغذ اور پیتل کے ٹکڑے
جنھیں ڈرائنگ روم میں سجا کر لواحقین 
تشکر کے آنسووُں سے میرے آگے سربسجود ہوتے ہیں
تقریب یوم دفاع کی چوتھی صف میں موجود ہوتے ہیں
میں ایٹم بم کے بٹن کو گھنٹوں تکتا رہتا ہوں
جس کو دبا کر میں ان غلاموں سے محروم نہیں ہونا چاہتا
جو میری ابروئے جنبش پہ سر تسلیم خم کرتے ہیں
جو خوشیوں کی تلاش میں زخم زخم کرتے ہیں
میرا وجود نفرت کی بنیاد پہ قوی ہے
اور میں اسے کبھی کم ہونے نہیں دیتا 
کبھی بھارت سے کبھی انڈیا سے اور کبھی ہندوستان سے
کبھی مکین سے کبھی نظرئے سے اور کبھی مکان سے
امن کے دنوں میں سیلاب سے بھی بچا لیتا ہوں
اپنے سے چھوٹے ہر عذاب سے بھی بچا لیتا ہوں
میرے نو نہیں بارہ رتن ہیں اور ہر کوئی انمول ہے
ٹوئٹر اور جاسوسی کے محاذ میری نگرانی میں چلتے ہیں
میری اجازت سے سیف ہاوُسز میں ایسٹس پلتے ہیں
میری کرسی پر کوئی آئے کوئی جائے
میں مستقل رہتا ہوں
کیونکہ میں جسم نہیں عہدہ ہوں
اور عہدے جسموں کی طرح فنا نہیں ہوتے
صرف کینچلی بدلتے ہیں
 تھائی لینڈ اور کیرالہ میں سرسراتے کنگ کوبرا کی مانند
جسکی پرانی کھال نظر آتے ہی
کسان موت کے منتر بڑبڑانے لگتے ہیں
اوکاڑہ،تربت اور میران شاہ میں دم توڑتے باغیوں کی مانند
جن کا واحد جرم میرے خلاف آواز اٹھانا تھا
وہسکی کا نشہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے
جس میں سچ ٹوپی سے زیادہ قریب ہوتا ہے
کیونکہ میں پاکستان کا آرمی چیف ہوں 
اور میرا نام کچھ بھی ہو
میرا کام ہمیشہ ایک ہی رہتا ہے

Wednesday, 20 October 2021

 پڑھائی سے نفرت کیوں ہوئی؟  حاشر ابن 

مجھے پڑھائی سے نفرت کیوں ہوئی؟ 
حاشر ابن ارشاد 

لائق ہونے کی تہمت بچپن میں ہی لگ گئی تھی۔ والدین روایتی چوہا دوڑ کے اسیر تو نہیں تھے اور نہ ہی اس زمانے میں ہر ایک کو ذاتی دیوار میسر تھی جس پر نمبروں کے اشتہار چسپاں کرنا ممکن ہوتا پر نجی محفلوں میں میری کلاس میں لی گئی پوزیشن کا ذکر ایسے فخریہ ہوتا جیسے پہلے بدر کیمرج اور پھر گورنمنٹ جونئیر ماڈل سکول کے کنویں کی ایک جماعت کے پچاس بچوں میں پہلے نمبر پر رہنا گویا دنیا کی فتح سے کم نہیں تھا ۔

سب کچھ لیکن ہمیشہ اچھا نہیں رہا۔ جونیر ماڈل سے سیکنڈری اور پھر ہائی سکول کے سفر میں کئی برے دن بھی آئے کہ پانچویں کے بورڈ کا امتحان ہو کہ آٹھویں کا یا پھر روز آخرت سے پہلے سب سے اہم میٹرک کا میزانیہ، ان سب میں بوجوہ ان توقعات سے تھوڑا کمتر ہی رہا جہاں تک کہ کمند میرے والدین امتحان سے پہلے ڈال دیا کرتے تھے۔
آٹھویں جماعت جسے اس زمانے میں ہشتم کہنا افضل خیال کیا جاتا تھا، کے بورڈ امتحان میں میری کارکردگی ذرا غیر نمایاں رہی، اور وہ بھی اس صورت کہ اس سے پہلے سکول کے داخلی امتحانات میں میری پہلی پوزیشن تھی۔ تو والدین کے چہرے کچھ کھنچ سے گئے۔ زیادہ تو نہیں کہا لیکن دبے دبے لفظوں میں جتایا گیا کہ پڑھو گے لکھو گے ، بنو گے نواب۔۔کھیلو گے، کودو گے، ہو گے خراب۔ اشارہ میرے ہر کھیل میں ٹانگ اڑانے کی طرف تھا۔

اللہ جانے یہ اس خفی سی سرزنش کا اثر تھا کہ میرے ستارے بہتر بروج میں براجمان ہو گئے تھے کہ جماعت نہم کے سہ ماہی، ششماہی ، نو ماہی اور پھر سالانہ امتحان میں نہ صرف سیکشن کی حد تک بلکہ تمام سیکشنز میں مجموعی طور پر بھی گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول میں پہلی پوزیشن سے میری معزولی ممکن نہ ہو سکی۔ میٹرک میں قدم رکھا تو اچانک پتہ لگا کہ کائنات میں اس سال سے اہم وقت کوئی نہیں تھا اور اس کے اختتام پر جو میزانیہ ہاتھ میں تھمایا جائے گا اس سے اہم میزانیہ روز حشر ہو تو ہو ورنہ شاید وہ بھی نہیں۔ امیدوں کا بوجھ یکایک پڑھائی کے بوجھ سے کہیں زیادہ ہو گیا۔ اتنا زیادہ کہ ایک دوست کا انہی دنوں نروس بریک ڈاؤن ہو گیا اور تین ماہ وہ صاحب فراش رہا۔ غضب خدا کا ، چودہ پندرہ سال کی عمر میں نروس بریک ڈاؤن۔ وہیں کوئی ایک لمحہ تھا کہ اندر کچھ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔ شاید آس کا وہ محل جسے خاندان نے میرے دل میں تعمیر کرنے میں برسوں لگائے تھے اور جس کے ماتھے پر بورڈ میں پہلی پوزیشن جلی حروف میں ویسے ہی کندہ تھی جیسے بھدے بنگلوں کی پیشانی پر ہذا من فضل ربی خط نسخ میں لکھا ہوتا ہے۔

پڑھائی سے ایک ہی رات میں دل اٹھ گیا۔ درسی کتب کے صفحوں پر بچھو رینگنے لگے۔ ان پر نظر نہ پڑے تو بیچ میں کبھی منٹو، کبھی بیدی تو کبھی کرشن چندر کو رکھنا لازم ہو گیا۔ کتاب سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی پر درسِ لازم سے نفرت سی ہوتی گئی۔ میٹرک کا دور یوں ہی بیتا کہ یہ رشتہ کمزور پڑتا چلا گیا۔ اتنے برے حالات میں بھی داخلی امتحان میں شاید پچھلے برسوں کی ریاضت کا ثمر رہا کہ پہلی تین پوزیشنوں سے باہر نہ ہوا سو امید کے دھاگے جو گھر والوں نے تھامے تھے، ان کے ٹوٹنے کی نوبت بھی نہ آئی۔ پر میری پڑھائی سے رغبت جس کا فزوں تر ہونا ضروری تھا، وہ ہر گزرتے دن بجھتی چلی گئی۔

ہوتے ہوتے روز قیامت آن پہنچا۔ نتیجہ نکلا تو پہلی تین کیا، دس پوزیشنز میں بھی نام نہیں تھا۔ پر ٹھوکر کھا کر بھی اتنی دور نہیں گرا تھا کہ عمومی طور پر کوئی نتیجے کو برا کہہ سکتا۔ میرٹ پر اور وہ بھی پری انجینئرنگ میں گورنمنٹ کالج لاہور کی پہلی فہرست میں نام اگر آجاتا تھا تو اس فہرست کے سب شہر کے ہی نہیں، ملک کے منتخب  مانے جاتے تھے۔ سو وہ ہو گیا۔ والدین نے اب ایک نیا قصر امید بنا لیا جس کے ماتھے پر یو ای ٹی لاہور لکھا ہوا تھا۔

گورنمنٹ کالج ایک نئی دنیا تھی، کچھ دن تو اس کے رومان اور اس کی مرعوبیت میں گزر گئے پر پڑھائی سے محبت ہونے کے دن ابھی نہیں آئے تھے۔ نصاب کی کتاب کھولی تو ایک ایسے دماغ نے ، جس کا تجسس ابھی مرا نہیں تھا وہ سوال اٹھانے شروع کر دیے جس کا جواب دینے میں گورنمنٹ کالج جیسے ادارے کے اساتذہ کو بھی یا تو کوئی دل چسپی نہیں تھی یا اس کا جواب وہ جانتے نہیں تھے۔

میں پوچھنا چاہتا تھا کہ نمبر تھیوری یا ٹپولوجی میں پڑھ رہا ہوں تو کیوں پڑھ رہا ہوں ۔ تھرمو ڈائنامکس کا میری زندگی میں کیا کردار ہے۔ پیریاڈک ٹیبل کے عناصر یاد کر بھی لوں تو اس سے میرے گھر میں کیا بدل جائے گا۔ نظریے اور مفروضے سب کو یاد تھے۔ عملی اطلاق سے کوئی آشنا نہیں تھا۔ نصاب سے رجوع کرنے کا ارادہ ترک کیا اور طلاق بائن تک نوبت پہنچا دی گئی۔ صبح گھر سے کالج کے لیے نکلتا لیکن کبھی کالج پہنچنے کی نوبت نہیں آئی۔ مال روڈ کے اس طرف پنجاب پبلک لائبریری میرا دوسرا گھر بن گئی۔ کتاب سے محبت بڑھ رہی تھی لیکن یہ وہ کتاب نہیں تھی جس کے اوپر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی مہر لگی ہوئی تھی۔

ایف ایس سی کے دو سالوں میں شاید دس دفعہ کالج کا منہ دیکھا وہ بھی اس لیے کہ نام کٹنے کی نوبت آتی تو دوست خبردار کر دیتے، کسی ایک آدھ جماعت میں بیٹھ جاتا۔ پروفیسر کبھی کبھی شکل دیکھ لیتے تو کافی سمجھتے۔ لازمی داخلی امتحان سے پہلے کچھ دن کتابیں کھول لیتا ۔ معجزانہ طور پر ان میں فیل ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ دل سے مجھے سائنس اور ریاضی پسند تھی تو نصاب سے مکمل قطع تعلقی کے باوجود بھی دماغ اتنا کام کر لیتا تھا کہ سوالوں کے جواب بن ہی جاتے تھے۔ رہے سوشل سائنسز والے مضامین یا زبانیں تو وہ ہمیشہ سے گھر کی بات تھی۔ یوں بھی اس میں نظریے اور عمل کی دوئی خارج از بحث تھی۔

ایف ایس سی کے امتحان ہوئے۔ پتہ نہیں کیا پڑھا، کیسے پڑھا اور امتحان بھی کیسے دیا۔ آج بھی ہزار ذہن پر زور ڈالوں تو کچھ یاد نہیں۔ اتنے نمبر تو نہیں آئے کہ انجینیرنگ یونیورسٹی میں کوئی کام کا شعبہ مل پاتا لیکن اتنے برے بھی نہیں رہے کہ سائنسز کو خیر باد ہی کہنا پڑتا۔ والدین کی مایوسی سوا تھی۔ جو جو وہ کہنا چاہتے تھا ، کہہ لیا۔ میں نے سن لیا۔ اس سے زیادہ نہ ان کے بس میں تھا ، نہ میری بساط میں۔

رجحان کیا ہوتا ہے، کیرئیر کس چڑیا کا نام ہے، شعبوں کا تنوع کس کھیت کی مولی ہے۔ ان سب باتوں سے بے خبر، لاعلم ، میں نے بھی وہی راہ اختیار کر لی جو انجینئرنگ یونیورسٹی سے بس ایک جست کی دوری پر رہ جانے والے کیا کرتے تھے یعنی دوہری ریاضی اور طبیعیات میں بی ایس سی۔ نمبر اب بھی اتنے تھے کہ گورنمنٹ کالج سے دور نہیں جانا پڑا۔ اوول کی فصیل کے اندر ہی ایک اور ڈگری کے حصول کی کہانی لکھی جانے لگی۔

بی ایس سی کے مضامین میں بھی مسائل وہی تھے جو پچھلے دو سال میں حل نہیں ہوئے تھے۔ پلین کَرو پڑھ رہے ہیں تو کیوں پڑھ رہے ہیں، ویکٹر کے کیا مقاصد ہیں ۔ڈفرنسیئیشن کا انسانی معاشرت سے کیا تعلق ہے۔ وغیرہ وغیرہ اور جواب پھر ندارد تھے۔ نتیجہ بس یہ نکلا کہ میں نے پنجاب پبلک لائبریری کے اردو سیکشن کو کنگھالنا بند کیا اور انگریزی شعبے میں سر کھپانا شروع کر دیا۔ قرۃ العین حیدر، علی عباس جلالپوری، سبط حسن، ن م راشد کے بعد ول ڈیورانٹ، ٹوائن بی، پی جی ووڈ ہاؤس،ٹوین، ہیمنگوے، رسل، لاک اورجان سٹورٹ مل سے پیار کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ گرمیوں میں زیادہ تنگ ہوتا اور جیب میں کچھ پیسے ہوتے تو بس پکڑ کر پلازہ، الفلاح، تاج یا کراؤن سینما میں گھس جاتا اور جو بھی فلم لگی ہوتی وہ دو تین گھنٹے دیکھتا رہتا۔ یہ دونوں کام کرنے کے لیے کسی دوست کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں اور تنہائی پسند بھی ہوتا چلا گیا۔ کتابوں اور فلموں سے عشق میں بی ایس سی کا دورانیہ بھی گزر گیا۔

اس دور میں بھی کبھی کبھی کالج کا منہ دیکھ لیتا۔ کئی لطیفے بھی ہوئے۔ کبھی کسی کلاس میں جا بیٹھا تو لیکچرر نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ ایک دفعہ خوب بحث کے بعد حاضری رجسٹر میں نام لکھایا کہ نام تھا ہی نہیں ۔ لیکچرر نے اس شرط پر لکھا کہ اگلے دن میں اپنے والد کو لے کر آؤں گا تاکہ ان سے بھی تصدیق کی جا سکے۔ اس کے بعد میں سات ماہ کلاس میں گیا ہی نہیں۔ سات ماہ بعد پھر اسی کلاس میں پہنچا تو لیکچرر پرانا قصہ بھول چکا تھا۔ پھر بحث کے بعد اس نے نئے حاضری رجسٹر میں میرا نام اس شرط پر درج کیا کہ اگلے دن میں اپنے والد کو لے کر آؤں گا۔ اس کے بعد بی ایس سی ختم ہونے تک کبھی اس کلاس کا رخ  نہیں کیا۔

بی ایس سی کے اختتام پر حالات یہ تھے کہ میرے پاس طبیعیات کی کتابیں تک نہیں تھیں۔ ریاضی کی کتابیں کسی وقت خرید لی تھیں پر ان کے صفحے بھی نہیں کٹے تھے۔ امتحان چند ماہ کی دوری پر ہوئے تو فکر لاحق ہوئی کہ فیل ہونا ایک ایسا حادثہ ہوتا جس کا سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔ کریش کورس کے لیے ایک دوست کے توسط سے ایک ایسے مسیحا تک جا پہنچے جس نے ایک سال پہلے بی ایس سی میتھمٹکس امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا اور اب پنجاب یونیورسٹی میں ایم بی اے سمسٹر کے آغاز سے پہلے وہ ٹیوشن پڑھا کر اپنا خرچہ نکالتا تھا۔ یہ بعد میں ہمارا گہرا دوست بننے والا عقیل احمد تھا۔ عقیل بیچارے نے چند ماہ پتہ پانی کیا۔ دل چسپی تو ریاضی میں اب بھی لوٹ کر نہیں آئی تھی پر اتنا آسرا ہو گیا کہ امتحاں ہوا تو ریاضی میں قریب پچاس پچپن فی صد نمبر آ گئے۔ حالت یہ تھی کہ امتحان میں جس مساوات کو مختصر کرنے کا سوال آتا وہ دو صفحات کی مغز ماری کے بعد تین سطروں سے پھیل کر سات سطروں پر محیط ہو جاتی۔ نتیجتا ایسے سوال ہمیشہ ادھورے ہی رہے۔

سوشل سائنسز یا زبان کے مضامین کبھی مسئلہ نہیں تھے پر طبیعیات کی کھیر کافی ٹیڑھی تھی۔ نہ اس کی کوئی ٹیوشن دستیاب تھی اور نہ اس کی کوئی کتاب میں نے کبھی دیکھی تھی۔ سوچتے سوچتے کہ کیا جائے ، امتحانات کے دن آن پہنچے۔
پہلے سوچا کہ پیپر چھوڑ دیے جائیں لیکن اس کی تاویل اماں ابا کو کیا دیں گے جو ہمارے کرتوتوں سے ابھی تک بے خبر تھے۔ حوصلہ نہیں ہوا پر کیجیے تو کیا کیجیے۔ عقیل سے مشورہ کیا ، اس نے اپنے کچھ پرانے دوستوں سے بات کی۔ معلوم ہوا کہ طبیعیات کے تین پیپرز یعنی میکینکس ، تھرموڈائنامکس اور غالبا الیکٹرانکس (دیکھیے اب یاد بھی نہیں) کے نوٹس کچھ پرانے پاپیوں کے پاس دستیاب ہیں اور اگر ہر پیپر میں پانچ سے چھ ابواب کے نوٹس کا مکمل رٹا لگایا جا سکے تو امتحان میں ستر سے اسی فی صد مواد انہی ابواب پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیجیے، ایک یہی راہ نجات تھی سو اسی پر قدم دھر دیے۔

شہر کے مختلف حصوں سے نوٹس تو اکٹھے ہو گئے جو ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے کہ ابھی ٹائپنگ یا فوٹو کاپی کا  رجحان نہیں تھا تو یہ قلمی نسخے ہی ہماری امتحانی میراث بنے۔ جن جن کی بھی یہ کاوش تھی، بڑی محنت سے کی گئی تھی۔ ہر باب کو سوالوں میں بانٹ دیا گیا تھا ۔ جواب مساوات صاف صاف قدم بہ قدم لکھ دی گئی تھی لیکن یہ کوئی آیت یا نثر پارہ یا نظم تو تھی نہیں کہ اس کے زبانی یاد کرنے کا کوئ طریق کبھی ذہن میں رہا ہو۔ آپ سوچیے کہ طبیعیات کا مقدمہ ہے، سمجھ بوجھ صفر ہے اور زبانی یاد بھی کرنا ہے۔ مشکل سی مشکل تھی ، اس پر مستزاد کہ ٹائم ٹیبل ایسا تھا کہ ہر پرچے کے لیے بس ایک رات اور ایک دن ہی میسر تھا۔

جس صبح امتحان ہوتا ، اس سے کوئی اٹھارہ انیس گھنٹے پہلے میں نوٹس اٹھاتا اور انہیں رٹنا شروع کرتا۔ رٹتے رٹتے چھ گھنٹے بعد وہ مقام آتا کہ دل کہتا کہ لعنت بھیجو، یہ تمہارے بس کا کام نہیں ہے۔ کچھ نہیں ہو سکتا۔ نوٹس کو دیوار پر مارتا اور اوندھے منہ لیٹ جاتا۔ پندرہ بیس منٹ کے ایک مکمل بلیک آؤٹ کے بعد اماں ابا کے چہرے ذہن میں روشن ہونا شروع ہوتے۔ ان چہروں پر لکھی حیرانی اور شکستگی سے گھبرا کر پھر نوٹس اٹھاتا اور رٹنا شروع کردیتا۔ بغیر کسی نیند کے یہ مشق امتحان سے گھنٹہ پہلے تک جاری رہتی۔ پھر جو باب ہاتھ میں ہوتا ، اسے لے کر امتحان گاہ تک پہنچتا، آخری وقت اس کے مزید رٹے پر صرف کرتا اور پرچہ دے آتا۔

کمرہ امتحان بھی اپنی جگہ ایک واقعہ تھا۔ ایف سی کالج میں سنٹر تھا اور نقل کا بازار خوب گرم تھا۔ تاریخ میں اس وقت تک مجھے نقل کا نہ سلیقہ تھا نہ ہمت تھی۔ یہاں تو ممتحن اور نگران بھی پیسے پر چل رہے تھے۔ جیب میں پیسے بھی تھے پر یہ ہو گا کیسے ، اس کا کچھ پتہ نہیں تھا اور کہیں بہت پہلے سکھائی گئی اخلاقیات الگ دامن گیر تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمرہ امتحان میں کوئی سو میں سے دس بچے ہی ایسے تھے جن کی نگران عملے سے رسم و راہ کبھی استوار نہ ہو سکی۔ پرچہ شروع ہوتا تو ان دس بچوں کو ایک کونے میں اکٹھا کر دیا جاتا اور جہاں باقی کمرے میں نقل کا سامان ارزاں ہوتا وہاں دس نگران ان دس بچوں کو ہلنے کی بھی اجازت نہ دیتے۔ اسی عالم میں سارے پرچے دیے گئے۔

چلیے ایک لطیفہ بھی اسی حوالے سے سن لیجیے۔ غالبا تھرمو ڈائنامکس کا پرچہ تھا اور اس میں ایک سوال تھا جس کا جواب ایک وضاحتی مساوات کی شکل میں تھا اور یہ مساوات اور اس کے لوازمات دو تین صفحات پر محیط تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ جس باب  سے یہ سوال پوچھا گیا تھا وہاں دو ملتی جلتی مساواتیں تھیں، دونوں کا حوالہ گرچہ مختلف تھا اور اس سوال کا جواب ظاہر ہے ان میں سے کوئی ایک مساوات تھی۔ اگر تو میں نے کہیں کسی دن سمجھ کر کچھ پڑھا ہوتا تو یہ کوئی الجھن نہ ہوتی لیکن ایک بے مغز رٹے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس سوال کے جواب میں مساوات نمبر 1 لکھنی ہے یا مساوات نمبر 2۔

ذرا سا ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی کہ کسی سے پوچھ ہی لوں کہ نگران لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیدھے میرے سر پر آن کھڑا ہوا۔ اب کیا کیا جائے۔ کچھ دیر سوچتا رہا، خالی کاغذ پر کچھ حاشیے بنائے۔ سوال پھر سے پڑھا۔ شاید کچھ پلے پڑ جائے ، کوئی اشارہ مل جائے مگر ان تلوں میں تیل کہاں۔ وقت محدود تھا۔ جب ہر راہ مسدود نظر آئی تو جیب میں ہاتھ ڈالا اور پچاس پیسے کا ایک سکہ برآمد کیا جو شاید کسی ایسی ہی الجھن کے واسطے جیب میں رکھا تھا۔ نگران کی حیرانی کو کمال تغافل سے نظر انداز کرتے ہوئے سکہ اچھالا اور ایک ہتھیلی پر گرا کر اسے دوسری سے ڈھانپ لیا۔ لیجیے چت ہے تو مساوات نمبر 1 نہیں تو مساوات نمبر 2۔ ہتھیلی اٹھائی تو سامنے پٹ۔ احتیاط سے سکہ ایسے ہی کسی دوسرے وقت کے لیے جیب میں رکھا اور انتہائی دلجمعی سے چار گھنٹے پہلے رٹی ہوئی مساوات نمبر 2 حرف بحرف امتحانی کاپی ہر تحریر کر دی۔

یہ تو آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ اصل جواب کیا تھا لیکن امید یہی ہے کہ ٹاس میرے حق میں ہی گیا تھا کہ امتحانی نتیجہ آیا تو مجموعی طور پر تحریری پرچوں میں میرے اسی فیصد نمبر تھے۔  وہ الگ بات کہ ہر پرچے کے چند گھنٹے بعد یاد کی ہوئی ہر چیز میرے ذہن سے ہمیشہ کے لیے محو ہو جاتی۔ شاید اس لیے کہ اگلے رٹے کی جگہ بن سکے۔ اس لطیفے سے بتانا یہ مقصود ہے کہ نظام میں اس وقت بھی کجی ایسی تھی کہ ایک رات میں بغیر سمجھے ایک رٹا دو سال کی محنت سے بڑھ کر نمبر دلا سکتا تھا۔

طبیعیات میں ایک اڑچن ابھی باقی تھی اور وہ تھا عملی امتحان کو پاس کرنا۔ پچاس میں سے کم ازکم سترہ نمبر درکار تھے اور عمومی طور پر اوسط بچے بھی پینتیس چالیس نمبر آرام سے لے لیتے تھے پر میں نے کبھی لیب میں قدم رکھا ہو تو نا۔
خیر اس کا حل پھر وہی کریش کورس کی صورت میں ایک پرائیوٹ اکیڈمی کی لیب میں چھ سات پریکٹیکلز کی ساری ترتیب یاد کرنا تھا جس میں میرے پانچ دن صرف ہوئے۔ عملی امتحان میں جو بھی کیا وہ تو یاد نہیں پر اتنا ہو گیا کہ ممتحن نے ترس کھا کر رعایتی سترہ نمبر میرے میزانیے میں جوڑ دیے۔ یہ اور تحریری امتحان کے اسی فیصد نمبر ملا کر طبیعیات میں نتیجہ کافی بہتر ہی نکل آیا۔ وہ الگ بات تھی کہ اس نتیجے کا میری طبیعیات کی سمجھ بوجھ سے کوئی رشتہ، کوئی ناتہ نہیں تھا۔

خدا جانے کس طرح لیکن باقی مضامین میں بھی فیل ہونے کی نوبت نہیں آئی لیکن سات نمبروں کے فرق سے زندگی میں پہلی دفعہ سیکنڈ ڈویژن کا مزا چکھ لیا۔ اس دفعہ امی ابو کا غصہ ، مایوسی ، حیرانی سب پہلے سے سوا تھے۔ گھر میں بہت دن ایک عجیب سی یاسیت چھائی رہی پھر ابو نے تجویز کیا کہ مجھے دوبارہ امتحان دینا چاہیے۔ میں اس کے لیے تو آمادہ نہ ہو سکا پر بی اے کا نجی داخلہ پنجاب یونیورسٹی کو بھیج دیا۔ ادب، صحافت اور فارسی کو اختیاری مضمون کے طور پر رکھ کر تیاری شروع کی تو وہ ہفتے دس دن میں ہی ختم ہو گئی۔ فارسی کی ایک مختصر سی کتاب تھی، صحافت پر دو کتابیں تھیں جس میں لکھی شاید ہی کوئی ایسی بات تھی جو پہلے سے پتہ نہ تھی اور ادب کی تین کتابیں بہت بچگانہ لگیں کہ پنجاب پبلک لائبریری میں گزارے گئے وہ کئی سال مجھے اس مرحلے سے بہت آگے لے آئے تھے جہاں اس کتاب کا نشان منزل گڑا تھا۔ باقی رہے لازمی مضامین تو ان میں کوئی خاص مسئلہ نہ پہلے تھا نہ اب پایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند دن بعد میں اس پڑھائی سے بھی دور ہٹ گیا۔ امتحان ہوا، جامعہ پنجاب میں اس تقریبا نہ کی جانے والی تیاری کی بعد بھی پانچویں پوزیشن نے یہ واضح کر دیا کہ سوشل سائنسز کے مضامین میں میرا رجحان زیادہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ مجھے طبیعیات کے مضمون سے بھی عشق تھا اور ریاضی بھی دل کے قریب معلوم ہوتی تھی پر ان مضامین کی درسی کتب کے اسلوب سے ہم آہنگی کا کوئ سرا اس وقت تک مل نہیں پایا تھا۔

رجحان وغیرہ تو اپنی جگہ پر آگے کیا کیا جائے، اس بارے میں ہر راہ دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ بھیڑ چال میں انجینئیر بننے کی راہ تو مسدود ہو چکی تھی۔ کیرئیر رہنمائی کے لیے کونسلر نامی مخلوق ابھی پائی نہیں جاتی تھی۔ انٹرنیٹ کا وجود نہیں تھا اور اردگرد سب مجھ جیسے ہی تھے۔ پوچھیے تو کس سے پوچھیے اور کیا پوچھیے۔ گریجویشن اور ماسٹرز کے داخلے بیچ اس زمانے میں پورے ایک سال کا فاصلہ تھا۔ اس دوران آرٹس میں بی اے کرنے کے علاوہ ہر اس ڈگری میں جہاں درخواست بھیجنا ممکن تھا وہاں درخواست بھیج دی گئی۔ جہاں زمانے کی رو لے جائے۔ اس ضمن میں بھی کئی سخت مقام آئے۔ کچھ لطیفے بھی ہیں پر یہ کہانی کسی اور دن کے لیے۔

گھر اخبار تو آتا ہی تھا اس میں ایک دن آئی بی اے کراچی کے ایم بی اے پروگرام میں داخلے کا اشتہار نظر سے گزرا۔ داخلہ ایک معروضی امتحان کی بنیاد پر تھا جس میں شرکت کی واحد شرط گریجویشن میں پچاس فی صد نمبر تھے۔ یہ تو پتہ تھا کہ ایم بی اے اچھی ڈگری ہوتی ہے کہ ہمارے سابقہ استاد اور حالیہ دوست عقیل صاحب بھی پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کر رہے تھے جہاں ہمارے داخلے کا کوئی امکان نہیں تھا کہ اسی پچاسی فی صد سے کم وہاں کا میرٹ نہیں تھا اور ہمارے دامن میں محض ایک سیکنڈ ڈویژن۔ آئی بی اے کے بارے میں البتہ کچھ پتہ نہیں تھا۔ بہرحال درخواست بھیج دی۔ 

کچھ دن بعد ہی ایم بی اے بینکنگ کا امتحان تھا۔ اشتہار کی ہدایات کی روشنی میں ہی اردو بازار سے معروضی امتحانات کی تیاری سے متعلق کچھ کتابیں خریدیں اور الٹی سیدھی تیاری کر کے کمرہ امتحان میں پہنچ گئے۔ ہفتے دس دن بعد نتیجہ آیا تو معلوم پڑا کہ نہ صرف امتحان میں مجموعی نمبر ایک خاص حد تک ضروری تھے بلکہ جزوی حصوں کا الگ الگ سکور بھی ایک خاص حد تک چاہیے تھا۔ اب ہمارے مجموعی نمبر تو اس حد سے بہت اوپر تھے۔ سارے جزوی حصوں میں بھی معاملہ ٹھیک تھا لیکن ایک جزو جو کہ بٹلر فیری ٹیسٹ کہلاتا تھا وہاں مطلوبہ نمبر چاہیے تھے بارہ اور میرے نمبر تھے گیارہ ۔ لیجیے اس بنیاد پر داخلہ مسترد ہو گیا۔ بٹلر فیری ٹیسٹ میں مختلف شکلوں کے درمیان مطابقت ڈھونڈنا مقصود تھا۔ تھوڑی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ بٹلر فیری کا یہ مخصوص ٹیسٹ بنیادی طور پر پلمبنگ یا سول انجینئرنگ کے لیے بنایا گیا تھا۔ یا حیرت۔ کچھ پلے نہ پڑا کہ اس کا ایم بی اے کے رجحان کی پیمائش سے کیا تعلق تھا۔ خیر ، مایوس ہو کر بیٹھ گئے اور باقی بھیجی گئی درخواستوں میں سے کسی ایک کی قبولیت کے لیے دعائیں شروع کر دیں۔

تین ماہ گزر گئے۔ داخلہ تو کہیں نہ ہوا لیکن آئی بی اے کا ایک اور اشتہار آ گیا ۔ یہ ان کے مشہور عالم ریگولر ایم بی اے کے داخلے کا اشتہار تھا۔ معلوم ہوا کہ اس میں مقابلہ ایم بی اے بینکنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی اور انتخاب کہاں تھا۔ پھر درخواست بھیجی۔ پھر کمرہ امتحان میں پہنچے۔ پھر وہی ملتا جلتا معروضی امتحان اور اس میں وہی منحوس بٹلر فیری ٹیسٹ۔ اس دفعہ مجموعی نتیجہ پہلے سے بھی بہتر تھا۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس سال ہزاروں امیدواروں میں بلحاظ مجموعی سکور میری دوسری پوزیشن تھی۔ ساتھ ساتھ معجزہ یہ بھی ہو گیا کہ بٹلر فیری میں بھی بارہ نمبر پورے پورے مل ہی گئے۔ ایک نمبر ادھر ادھر ہوتا تو خدا جانے آج میں کیا کر رہا ہوتا۔

اس طرح آئی بی اے کراچی جا پہنچے۔ ایم بی اے کس چڑیا کا نام ہے یہ تو معلوم نہیں تھا اور کئی سال سے پڑھائی کو بھی طلاق تھی پر ہوا یہ کہ پہلی ہی کلاس حساب کی تھی اور پہلا ہی سوال یہ تھا کہ اگر ایک دعوت میں اتنے مہمان ہوں، اتنے برتن ہوں، اتنے ویٹر ہوں، اتنے کھانے ہوں اور اتنا وقت ہو تو میٹرکس کا استعمال کر کے دعوت کی بہترین منصوبہ بندی کیونکر ممکن ہے۔ ارے، تو یہ میٹرکس اس لیے ہوتے ہیں ۔ دو چار دن میں ڈفرنسئیشن اور ویکٹر وغیرہ کا عملی اطلاق بھی معلوم ہوا تو ریاضی سے روٹھی محبت اچانک واپس آ گئی۔ درسی کتب پھر سے اچھی لگنے لگیں۔ اکاؤنٹنگ میں بھی وہی اعداد مل گئے جو بولتے تھے، پڑھنے والے سے کلام کرتے تھے۔  باقی مضامین بھی خود یہ بتانے لگے کہ زندگی میں ان کا کردار کیا ہے۔ ٹھوکر کھاتے کھاتے گویا اچانک راستہ مل گیا۔ آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ یہ طرز اور یہ طریق تعلیم کے ہر مرحلے پر اپنانے میں رکاوٹ کیا ہے۔

آئی بی اے کی داستان بہت طولانی ہے لیکن دو سال بعد کانووکیشن ہوا تو فنانس کے اختصاص میں پہلی پوزیشن اور اوور آل گولڈ میڈل دونوں میرے ساتھ تھے۔ پچھلے تعلیمی گناہ پورے خاندان کی آنکھوں سے دھل گئے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گیا۔
اس پوری کہانی میں کوئی سبق ہے یا نہیں ، یہ تو میں آپ پر چھوڑ دیتا ہوں لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میری زندگی کی راہ متعین کرنے میں ملک کے تعلیمی نظام نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ منظم تعلیم سے مجھے متنفر کرنے میں نصاب سے زیادہ عمل انگیز اور کچھ نہیں تھا اور میں جو بھی بنا ، وہ محض اتفاق ہی تھا۔ میرے وہ دوست جو بہت سارے نمبر سمیٹ کر بالآخر انجینئر بنے، آج ان میں سے نوے فی صد انجینئرنگ سے وابستہ نہیں ہیں اور جو ہیں ان میں سے بھی شاذ ہی کوئی خوش ہے۔ ہم سب وقت کی لہروں پر بہتے جن سمجھوتوں کے جزیروں میں جا پہنچے ہیں، انہی کو اب مقدر سمجھ لیا ہے۔ پر اس سوچ سے کیسے پیچھا چھڑائیں کہ کاش کہیں زندگی کے سمندر کے تھپیڑوں میں کسی مینارہ روشنی کا سہارا مل جاتا تو ہم بھی سچی خوشی اور حقیقی کامیابی کی دھوپ میں چمکتے کسی ساحل پر اتر سکتے تھے۔

Urdu Poetry