تلخ حقائق جن سے ہمیں آگاہ نہیں کیا جاتا
اسلام کی بعثت سے آج تک صرف حضرت عمر کا مختصر سا دور ہے جسے مسلمانوں کیلئے امن اور مذہب کے نفاذ کا دور کہا جاسکتا ہے اور یہ دور صرف دس برسوں پر محیط ہے۔ پیغمبروﷺ کی زندگی میں پہلے مشرقینِ مکہ سے جنگیں درپیش رہیں۔ اس کے بعد یہودیوں کے ساتھ مبارزت درپیش ہوگئی۔ اس سے نجات ملی تو نبوت کے نئے دعویداروں سے نمٹنے کا سخت مرحلہ درپیش ہوگیا۔ اسی دوران جہاں کہیں قبیلے اسلام سے منحرف ہوگئے وہیں کچھ قبیلوں نے ریاستِ مدینہ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔
حضرت عثمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہی شہید کردیے گئے اور یوں انارکی جو جو دور شروع ہوا، وہ جنگِ جمل اور صفین سے ہوتا ہوا کربلا جیسےسانحے پر منتج ہوا جس میں خود پیغمبرﷺ کے گھرانے کو ہی تہ تیغ کردیا گیا۔
معاملہ اس کے بعد بھی تھما نہیں بلکہ مختار ثقفی نے بنوامیہ کیساتھ کربلا والاسلوک پوری وحشت کے ساتھ دہرایا۔ گویا جسے اسلام کہا جاتا ہے ، ان ادوار میں اس کا نفاذ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہونے والی یہ قتل و غارت اور بدامنی کا تعلق خود مسلمانوں کے آپسی اختلافات سے تھا جسے ہم یہودی یا عیسائی سازش بھی نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اسلام دنیا تو ایک طرف خود مسلمانوں کیلئے بھی امن کا باعث بنا ہو۔
مسلم امہ، علماء اور سکالرز اس بات پر متفق ہیںکہ خلافتِ راشدہ یعنی اسلام کے حقیقی نفاذ کا زمانہ معاویہ کے خلیفہ بننے کے بعد ختم ہوگیا تھا اور پھر آج تک بحال نہیں ہوسکا۔ وہ نزع جو حضرت عثمان کی شہادت سے شروع ہوا، اس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پہلے خارجیوں کا فرقہ وجود میں آیا، اس کے بعد شیعانِ علی اور ان کے مخالفین۔ڈیڑھ صدی بعد معتزلہ، اشعری اور ماتریدی وجود میں آگئے اور ان کے بیچ مذہبی مناظرہ بازی کا میدان گرم ہوا۔ اس پر مسرزاد چار امام جوایک دوسرے کے چار مخالف فرقوں کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اس کے بعد رنگا رنگ صوفی فرقے جن میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
اوپر بیان کردہ منظر یہ بتاتا ہے کہ ایک مختصر دور کے سوا اسلام بطور نظامِ حیات کبھی بھی نافذ نہیں ہو پایا اور ماضی قریب یا دورِ حاضر میں اگر کہیں نافذ ہوا بھی تو اس کے نتائج قابلِ تقلید نہیں نکلے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک علماء اور حکمرانوں نے اپنے اپنے گھٹیا مفادات کیلیے مذہب کے نفاذ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور قوم ان کے ان مفادات کی قیمت چکائے جارہی ہے۔
سعید ابراہیم
No comments:
Post a Comment