مائیکل ایچ ہارٹ کی کتاب دی ہنڈرڈ میں دنیا کی تاریخ کے سو بااثر ترین لوگوں کی فہرست میں صرف ایک شاعر ہومر مذکور ہے۔ شکسپئر کا ذکر ڈرامہ نگاری کے حوالے سے ہے۔ جبکہ فہرست میں سائنس دانوں کی بھرمار ہے۔ ہومر کو گذرے لگ بھگ تین ہزار سال ہو گئے ہیں۔ اس دوران کوئی ایک شاعر بھی ہارٹ کو دستیاب نہیں ہوا جس نے انسانی فکر پر گہرا اثر چھوڑا ہو یا زمانے کے چلن کا تعین کیا ہو۔
شاعر آپ کی حس جمال کی تسکین کرتا ہے اور یہ بڑا کام ہے۔ انسان جذبات اور احساسات کا پیکر ہے اور شاعری اس صورت گری میں وہ ضرورت ہے جس کے بغیر انسان کی جمالیاتی تشکیل ادھوری رہ جاتی ہے۔ وہ لوگ جو شاعری پڑھتے نہیں ، سمجھتے نہیں، ان کی بدقسمتی گویا طے شدہ امر ہے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسانی ترقی، فکری روایت، شعور اجتماعی کی بنت، معاشرتی اور معاشی عروج میں شاعری اور شاعر کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ اقبال ہوں، غالب ہوں، میر ہوں یا انیس ہوں ، ان کا دائرہ کار شاعری کے بند دائرے میں ہی اثر پذیر ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ شاعری کی ایک روایت یا جہت کا تعین کرتا ہے۔
جتنا اور جس قدر کوئی شاعر کسی کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اقبال بھی اتنا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ پسند ناپسند ذاتی واردات اور قلبی معاملہ ہے۔ اس لیے اس سے بھی بحث نہیں ہے۔ اقبال کی شاعری کو مقصدیت کی جس فضول بھٹی میں جھونک کر ہم نے قوم کے لیے خنجر اور شمشیر بنانے کی کوشش کی اس کا نتیجہ تو یوں بھی سامنے آ گیا ہے۔
ہم شاید اقبال کی شاعری سے مطمئن نہیں تھے اس لیے ہم نے انہیں کئی اور تاج پہنانے کی بھی کوشش کی۔
اقبال ایک بڑے شاعر تھے ، اس سے کون کم بخت انکار کر سکتا ہے۔ برصغیر کے دس بڑے شعراء کی فہرست سے کوئی ان کا نام قیامت تک خارج نہیں کر سکتا لیکن وہ عالمی سطح کے شاعر تو کیا، ایشیا کی حد تک بھی عظیم تر شاعر تسلیم نہیں کیے گئے۔
اقبال کو فوق البشر اور رد استعمار کی علامت کا چولا بھی زبردستی پہنایا گیا۔ رد استعمار کی علامت اقبال نہ کل تھے نہ آج ہیں۔ یہ تقریروں کی حد تک مبالغہ آرائئ جائز ہے کہ ان کی شاعری نے مسلمانان ہند کو ولولہ آزادی سے سرشار کر دیا اور ان کی شاعری نے برصغیر میں آگ لگا دی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے
اگر ٹیپو سلطان پر لکھے گئے چند اشعار سے ان کی انگریز مخالفت برآمد کرنی ہے تو مسولینی پر لکھی گئی نظم سے ان کی فاشزم سے محبت بھی نکل آئے گی۔ ویسے ہم نے تو بہت ڈھونڈا ، ہمیں کوئی عنوان ایسا نہ ملا جو براہ راست انگریز حکومت یا سامراج مخالفت پر مبنی ہو ۔ باقی تشریح کرنے میں تو ان کے اشعار سے یار لوگوں نے جوہری توانائی کا فارمولا بھی نکال لیا ہے۔
ملکہ وکٹوریا کے قصیدے کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ اقبال اس وقت نادان تھے۔ جارج پنجم کے قصیدے پر نظر کریں تو کندھے پر ہاتھ رکھ کر بتایا جاتا ہے کہ یہ تو ایسے ہی ایک دوست کی فرمائش پر لکھ دیا تھا۔ ٹیپو پر لکھے گئے سے اگر ان کی انگریز دشمنی ثابت ہوتی ہے تو بھگت سنگھ ، اشفاق اللہ خان اور چندر شیکھر آزاد پر ان کی خاموشی سے انگریز محبت کی دلیل بھی نکالی جا سکتی ہے۔
جلیانوالہ باغ کا سانحہ پنجاب میں ہوا تو بنگال میں ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا ۔ اقبال تو اسی پنجاب کے بیٹے تھے لیکن وہ اس وقت شہنشاہ برطانیہ کا قصیدہ لکھتے رہے۔ اپنے گھر میں بیتی اس قیامت پر ایک لفظ ان کے قلم سے نہ ٹپکا اور بعد میں اسی خون آشام سامراج سے ملنے والا سر کا خطاب ایک اعزاز کی طرح وہ قبر میں ساتھ لے کر گئے۔
ابھی دلی اور لاہور کے طالب علم جب جبر واستبداد کے خلاف بسمل صابری اور فیض کی نظموں کے پرچم بنا کر باہر نکلے تھے تو کسی کو اقبال کا کوئی شعر اس موضوع پر کیوں نہیں ملا۔ 47 سے پہلے کی تحریک آزادی میں اقبال کی کون سی نظم عوام گاتے پھرتے تھے ؟ اقبال کی شاعری نہ اس وقت عوامی تھی نہ اب ہے۔ نہ وہ اس وقت سامراج مخالفت میں گلیوں میں بلند ہوئی تھی نہ اب ہوئی ہے۔ یہ دعوی کہ تحریک آزادی میں ان کی شاعری کا کوئی کردار تھا ، سراسر مبالغہ ہے۔
رہا مفکر پاکستان ہونے کا الزام تو اس کی تردید اقبال نے ای تھامپسن کو لکھے گئے خط میں خود کر دی تھی۔ باقی جس کا دل کرے ، خطبہ الہ آباد خود پڑھ لے تاکہ تسلی ہو جائے۔ فرزند اقبال بھی ساری عمر لوگوں سے پوچھتے رہے کہ کوئی انہیں بھی بتا دے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے کس شب کو دیکھا تھا۔
فلسفے کی دنیا میں بھی ان کی کوئی فکری روایت عالمی منظر نامے پر توجہ نہیں پا سکی۔ جرمن فلسفے کو اسلام کا لبادہ اوڑھانا کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں تھا۔ تو لے دے کر ایک شاعری ہی بچ جاتی ہے۔ اس پر شخصی سطح پر یا معاشرے پر اثر کے پیمانے پر دنیا تو چھوڑیں، پاکستان میں بھی انہیں ڈاکٹر عبدالسلام یا ایدھی کے قد کے برابر بھی رکھنا ممکن نہیں۔ شعری روایت میں غزل میں غالب اور نظم میں ن م راشد کا کینوس ان سے کہیں وسیع ہے۔
اقبال دراصل ہمارے فکری افلاس کے لیے ایک زنبیل کا کام کرتے ہیں جس میں ہم سیاست، فلسفہ، شاعری اور مذہبی علم سب ڈال کر ایک عبقری برآمد کر کے اپنی تسلی کر لیتے ہیں کہ مشاہیر زمانہ کے مقابلے میں ہمارے پاس کیا ہمہ جہت شخص موجود ہے وہ الگ بات ہے کہ نہ عالم کو اقبال کی خبر ہے نہ زمانے کو۔
آج ان کی سال گرہ ہے۔ میں انہیں ایک اچھا شاعر سمجھتا ہوں لیکن اس سے بڑھ کر ان کی تحسین میرے لیے ممکن نہیں ہے، اس لیے مجھے معاف رکھیے۔ یہ سب بھی اس لیے لکھا کہ ان کی خاطر خواہ تعریف نہ کرنے پر دوست صبح سے خفا خفا پھر رہے ہیں۔
آپ بہرحال اپنا بت بنانے میں آزاد ہیں۔ ویسا ہی جیسے ایک تھکے ماندے نیم استراحت کرتے اقبال کے ہاتھ میں قرآن رکھ کر مصور نے بنایا ہے۔
No comments:
Post a Comment