کبھی اِس مکاں سے گزر گیا، کبھی اُس مکاں سے گزر گیا
ترے آستاں کی تلاش میں، میں ہر آستاں سے گزر گیا
ترے آستاں کی تلاش میں، میں ہر آستاں سے گزر گیا
ابھی آدمی ہے فضاؤں میں، ابھی آدمی ہے خلاؤں میں
یہ نجانے پہنچے گا کس جگہ اگر آسماں سے گزر گیا
یہ نجانے پہنچے گا کس جگہ اگر آسماں سے گزر گیا
کبھی تیرا در، کبھی دربدر، کبھی عرش پر، کبھی فرش پر
غمِ عاشقی ترا شکریہ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
غمِ عاشقی ترا شکریہ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
یہ مرا کمالِ گنہ سہی، مگر اس کو دیکھ، مرے خدا
مجھے تُو نے روکا جہاں جہاں میں وہاں وہاں سے گزر گیا
مجھے تُو نے روکا جہاں جہاں میں وہاں وہاں سے گزر گیا
جسے لوگ کہتے ہیں زندگی وہ تو حادثوں کا ہجوم ہے
وہ تو کہیے میرا ہی کام تھا کہ میں درمیاں سے گزر گیا
وہ تو کہیے میرا ہی کام تھا کہ میں درمیاں سے گزر گیا
چلو عرشؔ محفلِ دوست میں کہ پیامِ دوست بھی ہے یہی
وہ جو حادثہ تھا فراق کا سرِ دشمناں سے گزر گیا
وہ جو حادثہ تھا فراق کا سرِ دشمناں سے گزر گیا
عرش ملسیانی
No comments:
Post a Comment