Saturday, 6 March 2021

جدید انسان کی بیگانگی

 جدید انسان کی بیگانگی

از پیپن ہائم

ترجمہ:عرشہ صنوبر 

نظر ثانی ترجمہ: صبغت وائیں 

قسط نمبر 1.


یہ لیکچر 1964 میں امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ”امریکہ میں سوشلزم“ پر ہونے والی ایک طلباء کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ بعد ازاں ماہنامہ ”ریویو پریس“ کی جانب سے پمفلٹ کے طور پر شائع کیا گیا۔ لیکن اس بات کو کئی سال ہو چکے ہیں کہ یہ دوبارہ شائع نہیں ہوا۔ اب اس کو دوبارہ شائع کرنا عجیب لگ سکتا ہے، جب درمیانی دھائیوں میں اسی موضوع پر کئی اہم کام بشمول 1970 کے شروع میں استواں میزاروؔ کی ''مارکس کا نظریہ بیگانگی'' اور بیریٹل اولمینؔ کی  ''مغائرت'' کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن پیپن ہائم کے فہم کی بات ہی کچھ الگ ہے۔ نہ صرف اس کا ادراک بلکہ شروع سے آخر تک مارکس کے تصورِ بیگانگی اور تصورِ استحصال کے درمیانی تعلق پر اس کا مسلسل اپنی توجہ مرکوز رکھنا قابل دید ہے۔ پیپن ہائم مارکس کے نظریہ بیگانگی کو مقرونی جدوجہد سے کٹی ہوئی ایک مجرد اور کھوکھلی قسم کی انسانیت کی بنیاد کے طور پر استعمال کرنے اور مارکس کی سرمایہ داری پر شاندار سیاسی معیشتی تنقید سے جان چھڑوانے کا ایک ذریعہ بنانے کے (جیسا کہ بہت سے لوگ کرچکے ہیں) بجائے بیگانگی یا مغائرت کی دنیا اور استحصال کی دنیا کے درمیان گہرے اور ناقابلِ سلجھاؤ تعلق] کو سمجھنے[ پر زور دیتا ہے۔

(مدیر)

1. بیگانگی پر مارکس کے خیالات جنہیں ایک لمبا عرصہ نظر انداز کیا گیا، حالیہ برسوں میں خوب فیشن میں آ چکے ہیں۔ اکثر ان پر دوسرے نظریات، خاص طور پر وہ جو معیشت پر ہیں، کو قربان کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ طریقہ مارکس کو قابل احترام بنانے کی کوشش میں اور اس کے لئے نئے حامی جیتنے کی وجہ سے استعمال کیا جاتا ہے، خصوصاً دانشوروں کے حلقوں کی جانب سے جو کہ سوشلزم میں تو دل چسپی رکھتے ہیں لیکن ابھی تک ہمارے معاشرے کے مارکسی تجزیے کو قبول کرنے میں ہچکچا رہے ہیں۔ ان لوگوں کو اکثر بتایا جاتا ہے ”اُس پرانے مارکس کے بارے میں پریشان نہ ہوں جس نے سیاسی معیشت پر اور سرمایہ داری پر تنقید لکھی اور اپنی نا اہلی کے کارن نظریہ استحصال کو ٹھیک سے استوار نہ کر سکا۔ ابتدا والے مارکس پر غور کریں، جس کے 1844 کے معیشتی اور فلسفیانہ مسودات، جو انسانی اقدار اور انسانی زندگی میں اعلیٰ نوعیت کی چیزوں سے متعلق ہیں اور جس نے بیگانگی کے تصور کو ارتقاء دیا۔ (1)


 ذاتی طور پر میں مارکس کے تصورِ بیگانگی کو تصورِ استحصال سے الگ کرنا ایک غلطی سمجھتا ہوں۔ بیگانگی اور استحصال ایک دوسرے سے مشروط ہیں۔ نتھی ہیں یہ اک دوجے کے ساتھ۔ مارکس کی بصیرت کا جوھر انسانی بیگانگی کو معاشی حالات اور رجحانا ت سے الگ کرنا نہیں ہے۔۔ جیسا کہ ہیگل اور فلسفہ عینیت کے پیروکاروں نے کیا ہے۔۔ بلکہ سرمایہ دارانہ معیشت  اور سماج کے بنیادی ڈھانچے اور ارتقاء میں سے بیگانگی کو کھوج نکالا ہے۔ لیکچر کے دوسرے حصے میں، میں یہ دکھانے کی کوشش کروں گا۔ لیکن پہلے یہ چاہوں گا کہ آپ لوگوں کے ساتھ مل کر اس بات کا جائزہ لوں کہ جب لوگ بیگانگی کی بات کرتے ہیں تو آخر اس کا مطلب کیا لیتے ہیں۔ اور اس اصطلاح کا مسلسل استعمال کس طرح  سے اس (بیسویں) صدی کے درمیان میں امریکی سوچ کی جھلک پیش کرتا ہے۔

 اگر ہم بیگانگی کو سمجھنا چاہیں تو ہم ضرور یہ پوچھیں کہ ”بیگانگی، مگر کس سے؟''

  بیگانگی تین طرح کی ہے۔ سب سے پہلے انسان کی اپنی ذات سے بیگانگی ہے۔ جدید انسان اکثر وہ ہونا جو کہ وہ ہے، محال پاتا ہے۔ وہ خود سے ہی اجنبی ہو چکا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ساتھی انسان سے بھی بُعد کا شکار ہو چکا ہے۔ اورآخر کار وہ اس دنیا سے بیگانگی کے تجربے سے گزرتا ہے جس میں کہ وہ رہ رہا ہے۔ 

 بیگانگی کی یہ تینوں صورتیں۔۔ خود سے، دوسرے لوگوں سے، اور اپنی دنیا سے۔۔ ایک دوسرے سے نتھی ہیں۔ یہ اصل میں ایک ہی عمل کے تین مراحل کو ظاہر کرتی ہیں۔ مارکس خاص طور پر ان کے آپسی تعلق پر زور دیتا ہے۔ یہی مارکس کی بیگانگی کے مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کلید ہے۔ 


جدید انسان کی بیگانگی

از پیپن ہائم

ترجمہ: عرشہ صنوبر

نظر ثانی ترجمہ: صبغت وائیں

قسط نمبر 2.

میں نے اپنی کتاب میں ایک نوجوان شوقیہ فوٹو گرافر کا حال بیان کرتے ہوئے بیگانگی کی مختلف صورتوں کے مابین تعلق کو واضح کیا ہے(2)۔ اس نے ایک مشہور جریدے کی جانب سے سپانسر کیے جانے والے ایک فوٹوگرافی کے مقابلے کے بارے پڑھا تھا؛ ہمہ وقت کچھ زیادہ کما پانے اور اپنانام  چھپا ہوا دیکھنے کی چاہ میں اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس مقابلے میں حصہ لے گا۔ اس نے ایک ٹریفک حادثے کی ایسی تصویر لے کر جس میں حادثے کے ایک شکار کو جان کنی کے عالم میں دیکھا جا سکتا تھا، یہ انعام حاصل کر لیا۔ فوٹو گرافر کا یہ عمل میرے لئے ہر تجربے کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ، یا ”شئے“ commodityمیں تبدیل کرنے کی ضرورت کے حامل، ایسے مغائرت زدہ انسان کی علامت کے طور پر ہے جو کسی بھی واقعے یا انسان کا سامنا کرنے پر صرف ایک سوال پوچھ سکتا ہے کہ ”اس میں میرے لئے کیا ہے؟“۔ اور حتیٰ کہ یہ حسابی کتابی ذہنیت موت کا سامنا کرنے پر بھی برقرار ہے۔

 آپ میں سے کچھ کہیں گے: کہ یقیناًہم ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو اس فوٹوگرافر کی طرح سوچتے ہیں اورعمل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے چیزیں اور انسان اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنے کہ وہ ان کے مقصد کے لئے مفید ہیں۔لیکن کیا یہ ایک چھوٹی اور استثنائی اقلیت نہیں ہیں؟ 

 اس خیال سے تسلی تو ہو سکتی ہے، لیکن یہ حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہے۔ فوٹوگرافر کا اختیار کردہ رویہ بہت مضبوط بنیاد پکڑ چکا ہے۔ یہ یونیورسل جیسی ہی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ قریب قریب ہم سب میں یہ رجحان موجود ہے کہ ہم لوگ واقعات کو، یا دوسرے انسان کو ان کی کلیت میں مکمل طور پر جوڑ کر نہیں دیکھتے؛ ہم صرف اس ایک حصے کوکاٹ لیتے ہیں جو کہ ہماری ذات کے لئے اہمیت کا حامل ہے اور باقی تمام سے ایک لاتعلق مشاہدہ کرنے والا بنے رہتے ہیں۔ نوجوان آدمی جس کے بارے میں بات کی گئی ہے بڑے ہی اچھے انسان کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ کسی بھی مصیبت میں مبتلا کی بھاگ کر مدد کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اگر اس قسم کا انسان بھی ایک مرتے ہوئے شخص کو کرب کے عالم میں دیکھ کر صرف یہ سوچے کہ اسے محض ایک تصویر لینی ہے، تو یہ انعام کے خواستگار ایک فوٹو گرافر اور اس کے اندر کے انسان کے مابین ایک پھاڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں اس صورت حال سے جس سے دوچار ہے اورخود اپنے آپ سے مغائرت کا شکار ہے۔ 

 مجھے ایسا لگتا ہے جیسے سوچ کی یہ تقسیم ہم سب میں خاص طور پر ہے۔ ہم ہمیشہ حقیقت کے اسی حصے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ہمارے مقصد پورے کرتا ہے، باقی تمام حقائق جن سے ہمیں واسطہ نہیں،  بیگانے رہتے ہیں۔ جتنے زیادہ ہم اس اکلاپے کی طرف جا رہے ہیں اتنا ہی زیادہ ہم خود اپنے آپ میں بھی خلیج پیدا کرتے جا رہے ہیں۔

 میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں۔ میں البامہ کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ایک سفید فام مشنری مبلغ کو جانتا ہوں۔ وہ بھی نسلی امتیاز کے اتنا ہی خلاف ہے جتنے کہ اس ہال میں موجود زیادہ تر لوگ۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا ہے: ''ان علیحدگیوں سے چمٹے رہنے کا مطلب مسیح کی تعلیمات کا محض زبانی جمع خرچ ہے۔ ''مگر جب اس سے دینی تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالبعلم نے پوچھا: ”آپ مسیحی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اپنا گرجا گھر تمام نسلوں کے عبادت گزاروں کے لئے کب کھول رہے ہیں؟“ تو اس کا اداس، غم زدہ اور شرمندگی سے بھرپور جواب یہ تھا، ''میری طرح تم بھی یہ جانتے ہو کہ جس دن میں نے ایسا کیا میرے پاس کوئی گرجا نہیں رہے گا۔ ''یہاں صورت حال اسی فوٹو گرافر سے مشابہ ہے۔ جب وہ تبلیغی مکمل انجیل کو قابل توجہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کا وہ حصہ جو اسے مشکلوں میں ڈال سکتا ہے، الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو وہ اس مبلغ جو کہ مسیح کی تعلیمات کا سختی سے پابند ہے اور مذہبی اجتماع کے لئے بھاڑے کے اس مزدور، جو کہ اپنی نوکری بچانے کی خاطر سزا تسلیم کرتا ہے، کے درمیان ہونے والے اندرونی انتشار کے تجربے سے نہیں بچ سکتا۔ یہ خلیج صرف عوامی زندگی کی شخصیات ہی کا نہیں بلکہ ہم سب کا مقدر بن چکی ہے۔  


جدید انسان کی بیگانگی

از پیپن ہائم

ترجمہ: عرشہ صنوبر

نظر ثانی ترجمہ: صبغت وائیں

قسط نمبر 3.

امریکہ میں بہت سے لوگ ایسے گرجاؤں کی رکنیت رکھتے ہیں جن کے عقائد اور مذہبی روائتوں کے ساتھ وہ میل نہیں کھاتے؛ وہ چرچ سے محض اس لئے تعلق رکھتے ہیں کہ اس کی رکنیت انہیں ایک خاص درجے کی توقیر اور سماجی مرتبہ فراہم کرتی ہے۔ میں نے ایسے فنکار دیکھے ہیں جو کہ نئے اور تخلیقی افکار کے لئے  خود کو وقف کر چکے ہیں۔ ان کے کام کو عموماً قبول نہیں کیا گیا اور وہ مارکیٹ میں کوئی مقام نہ بنا سکے۔ ان میں سے بہت سوں نے ایک تنہا جدوجہد کرنے والے فنکار کی زندگی اس لیے ترک کی کہ ان کو کسی اشتہاری ایجنسی کے آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں نقشہ نویس کی حیثیت سے کام مل جائے۔ اور میں ان خواتین کو بھی جانتا ہوں جنہیں ہم ”کارپوریشن بیویاں“ کہتے ہیں۔ جو اپنے شوہروں کے کیریئرکی خاطر اپنے دوست ان لوگوں میں سے چننے کی بجائے جو کہ ان کو اپنی دوستی کے لیے مناسب لگیں، ''مناسب لوگوں '' میں سے چنتی ہیں۔ 

 اس ملک میں اس طرح کی مغائرت اور انسانوں سے لاتعلقی کے بہت سے المناک مظاہر سامنے آتے ہیں۔ مارچ 1964میں ایک آدمی نے ایک عورت پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے پہلے اسے زخمی کیا اور پھر مار ڈالا۔ یہ حادثہ نیویارک کے قریب ایک رہائشی حصے ''کیو گارڈنز'' کی پارکنگ  میں پیش آیا۔ حملہ آدھا گھنٹہ جاری رہا جس دوران 38 لوگوں نے یہ قتل ہوتے دیکھا، اور وہ سب متوسط طبقے کے قابل احترام اور قانون پسند شہری تھے۔ ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ خونی ڈرامہ اپنے ''گھر'' کی کھڑکیوں سے دیکھا اور مظلوم کی مدد کے لئے پکار سننے کے باوجود پولیس کو بلانا ضروی سمجھا ہو۔ ان میں سے زیادہ تر تشدد کا یہ مظاہرہ دیکھنے کے بعد دوبارہ سونے  کے لئے چل دیے۔

 چند ہفتوں بعد نیویارک کے علاقے ''البانے'' میں ایک 19 سالہ نوجوان جو دماغی خلل کا شکار تھا، بظاہر کودنے کے ارادے سے ایک ہوٹل کی بارہویں منزل پر کونے والے چھجے پر دیکھا گیا۔ کوئی چار ہزار  کے قریب لوگ اسے نیچے سے دیکھ رہے تھے۔ چند ایک اس کے نتیجے پر شرطیں لگا رہے تھے۔ باقی سب چلا رہے تھے ”چھلانگ لگاؤ! کود جاؤ!  بزدل مت بنو۔“ ایک خوش لباس صاحب نے اپنے ساتھی سے کہا کہ، ”خدا کرے وہ اِدھر ہی چھلانگ لگائے ورنہ ہم اسے دیکھ نہیں پائیں گے۔“ آخر کار لڑکے کو اس کے سات سالہ بھانجے نے عمارت کی چھت کی دوسری جانب سے ہاتھ دے کر بچا لیا۔ بہت سے تماشائیوں نے شکایت کی؛ انہیں ایک سنسنی خیز نظارے سے محروم کر دیا گیا تھا۔

 یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ دوسروں سے لاتعلقی کس حد تک جا چکی ہے، کس قدر بیگانہ ہو چکا ہے ہمارے دور کا انسان۔ لیکن لازمی نہیں کہ یہ مغائرت فرد کے شعور میں داخل ہو، وہ لوگ جو کہ اپنی مغائرت سے باخبر ہیں، اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بیگانہ آدمی اکثر ایک کامیاب آدمی ہوتا ہے۔ جیسے جیسے کامیابی طول پکڑتی جاتی ہے اکثر ایک مخصوص نوعیت کی بے حسی پیدا کرتی چلی جاتی ہے، جو اس بات کی قیمت ہے جو کہ اس[کامیاب]فرد کو چکانی ہے، جو اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ وہ خود سے بیگانہ ہوچکا ہے۔ وہ صرف مصیبت و ابتلاء کے دنوں ہی میں اپنی بیگانگی سے با خبر ہو پاتا ہے۔ سماج بھی اکثر بیگانگی کی قوتوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ صرف اپنی تاریخ کے نازک قسم کے ادوار ہی میں وہ اس مسئلے سے خبردار ہو پاتے ہیں۔

 ہمارا سماج آج اسی بحران کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ لفظ ”مغائرت“ اس قدر رواج میں آ چکا ہے۔ ہمارے پاس یہاں اتنا کافی وقت نہیں کہ ہم اس مسئلے کے الگ الگ مظاہر کا مطالعہ کریں: جدید زندگی کی بے معنویت اور خالی پن، فرد کا ہولناک اکلاپا، اس کا کٹ جانا اور بچھڑاؤ۔۔ اور دیگر۔۔۔  یہ سب کچھ صرف عمرانیات ہی میں نہیں بلکہ آرتھر ملر کے ڈراموں جیسے کہ، ایک سیلز مین کی موت، خزاں کے بعد، اور ٹینے سی ولیمز کے کاموں میں جیسے کہ، سالنگر، کیروکؔ، اپ ڈائیک ؔاور بہت سے دیگر میں کافی سے زیادہ پیش کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یہ وجودیت کے فلسفے پر کئے گئے کچھ بنیادی کاموں میں نظر آتا ہے، جو کہ اپنے مرکزی خیال میں انسان کو لیتے ہی بطور ایک قطعی اجنبی کے روپ میں ہیں اور اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ اکلاپا اور بے گھر ہونا ہی انسان کی قسمت ہے۔ 

 ھائیڈگرؔ کہتا ہے، بے گھر ہونا، اب ہر کسی کی تقدیر ہے، یہی اس دنیا کی قسمت ہے۔ وجودیت والے  ہمیشہ اس انسان کو موضوع بناتے ہیں جس کا کسی انسان سے اور کسی بھی چیز سے کوئی رشتہ، کوئی تعلق نہ ہو، جو مکمل طور پر گُمشدہ، لہروں کے رحم و کرم پر بہتا، بنا کسی امتیازی نشان کے صحراؤں میں بھٹک چکا ہو۔ ہائیڈگر ایسی ہر کوشش کو حقیر جانتا ہے جس سے اقدار کے کسی ایسے فلسفے کو پیش کیا جائے جو اس  بیابان میں انسانوں کے امتیازی نشان کے طور پر کام آ سکے۔

 امریکہ میں مجھے بہت سے ایسے لوگ ملے جو کہتے ہیں، ”میرے بہت سے واقف ہیں، مگر ایک بھی دوست نہیں ہے۔“ ”اجتماعیت“ کی طرف رجحان اور، فیلو شِپ، دوست اور ہمسائے جیسے الفاظ  کی مقبولیت کی بجائے اکیلے اور تنہا رہ جانے کی یہ آگہی بلاکم وکاست طاقتور ہو رہی ہے۔ اس قسم کے الفاظ اب حالیہ زمانے میں زیادہ معنی نہیں رکھتے۔ بالکل یہی حقیقت لفظ ”کمیونیٹی“ کی ہے جو بہت کثرت سے استعمال ہوتا ہے مگر بہت سے لوگوں کے لئے مجرد، لایعنی اور بیگانہ ہے۔ شاید یہ ایک وجہ ہے کہ ہمیں غفلت، بدعنوانی، رشوت ستانی، نوسربازی، دھوکا دینے کے لیے تیار کیے گئے ٹی وی شوز، کالجوں میں نقل اور تعلقاتِ عامہ میں سکینڈلز کے بارے میں اتنا کچھ سننے میں آتا ہے۔”چند سال پہلے جب میرے ٹی وی سکینڈلز دم توڑ رہے تھے تو“ جون سٹین بیک نے انگلینڈ میں قیام سے واپسی پر ادالائی سٹیونسنؔ کو ایک خط میں لکھا کہ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ اس نے واپس آکر ٹھیک بھی کیا  تھا یا نہیں؟ نہ صرف ہمارے ٹی وی شوز بلکہ پورا اخلاقیات کا نظام ہی بِک چکا ہے۔ یہ قبیح حقائق ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ جب تک لوگ خود کو سماج کا حصہ نہ مانتے ہوئے اس سے بیگانہ رہتے ہیں اور اس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، ہمیں یہی کچھ دیکھنا پڑے گا۔


جدید انسان کی بیگانگی

از پیپن ہائم

ترجمہ: عرشہ صنوبر

نظر ثانی ترجمہ: صبغت وائیں

 قسط نمبر 4.

اسی تناظر میں یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو بطور ایک انفرادی شخصیت اور بطور ایک شہری ہونے کے اپنے وجود کے درمیان انتشار کو محسوس کرتے ہیں ۔ یہ اکثر سیاست کے معاملات سے علیحدگی کا سبب بنتا ہے، ایک ایسی پسپائی جو کہ محض مردم بیزار لوگوں میں نہیں ہے، بلکہ آج کی نوجوان نسل کا بنیادی خاصہ بن کر سامنے آئی ہے ۔ نوجوانوں کو سیاسی طور پر بے حس ہونے کا ملزم ٹھہرانا آسان کام ہے ۔ لیکن ان کے رویے غیرمتوقع نہیں ہیں ۔ ان میں سے بہت سوں سے سیاسی ذمہ داریوں کے متعلق کوئی بھی بات کرنا بالکل بے کار ہے ۔ اب ہم ان نوجوانوں کو کیا بتائیں جو اس شبہے میں ہیں کہ ہماری سیاسی زندگیوں میں کردار ادا کرنے والے لوگ واقعتاً عظیم نوعیت کے سیاسی معاملات سے نبرد آزما ہیں۔ سیاسی راہنما اور ریاستی اہلکار اکثر ہی خود کو بیگانہ کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ ان تاریخی قوتوں کے ساتھ ضروری تعلق توڑ بیٹھتے ہیں جو کہ ہمارے زمانے کی تشکیل کر رہی ہوتی ہیں ۔ اسی لئے وہ اپنے دور کے فیصلہ کن معاملات کو سمجھ پانے سے معذور ہیں ۔ تاریخی رجحانات کو حقیقتاً سمجھنے کے بجائے وہ انہیں اپنی سوچ اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے مقاصد اکثر انتہائی محدود ہوتے ہیں ۔ سیاسی "راہنما" زیادہ سے زیادہ تعلقات عامہ والوں جیسے بن جاتے ہیں ایسے چھابڑی فروش جو اپنا مال بیچنے کی غرض سے لئے مناسب "ٹھیا" (اڈا) تلاش کر رہا ہو ۔ اس طور کے سیاسی مسائل کو سمجھنے کے لئے میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں ۔


چند سال پہلے جب رچرڈ اور پیٹ نکسن نے لاطینی امریکہ کا دورہ کیا تو ناراض عوام نے پولیس کے حلقے توڑ کر ان ’’نیک نیت سفیروں ‘‘ کے چہروں پر تھوک دیا ۔ لیکن دل دہلا دینے والی اس حقیقت کو ہرگز سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کہ یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جاتی کہ جنوبی امریکہ میں آخر چل کیا رہا ہے اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کی جانچ دوبارہ سے کی جائے ۔ بلکہ ان مشن سے واپس آنے والوں کا اس طرح سے استقبال کیا گیا گو کہ وہ کوئی فاتح ہوں ۔ ان کے دورے کو امریکی عوام کے سامنے ایک قابل شرم شکست کے بجائے فتح کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ۔


اس سے کچھ سال بعد کیوبا کے انقلاب میں ایک نعرہ ابھرا جس کی گونج سارے لاطینی امریکہ میں سنائی دی ۔ اس نے سائبیریا میں مورچہ بند بے ترتیب فوج کے جذبے کوچار سادہ سے الفاظ کی شکل دی ۔ ’’کیوبا ہاں ، یانکی نہ‘‘ صدر کینیڈی نے ان الفاظ کی انقلابی حیثیت کو اپنے ذاتی نعرے سے تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔ لاطینی امریکہ سے 250 سیاستدانوں کی آمد اور وائٹ ھاؤس میں کانگرسی لیڈر کو اور ان کی بیویوں کے لئے، ترقی کے معاہدے کی تقریب کے موقعے پر اس نے ایک خوبصورت نعرہ تجویز کیا، ’’ترقی ہاں ، ظلم نہیں‘‘ یہ ایک دلکش جملہ ہے، مگر ایسا کہنا جنوبی امریکہ کے گہری جڑوں والے جامد مسائل کے بارے میں بھلا کیا کہنا ہو گا؟


عمومی طور پر میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ آج حقیقت کو دیکھنے کے بجائے اسے چھپانے کی کوششیں زیادہ کی گئی ہیں ۔ چند سال پہلے ایک برطانوی ماہر عمرانیات نے لکھا، ’’پچھلے سو سال میں کسی بھی وقت سے زیادہ آج برطانوی سماج زندگی کے سماجی حقائق کو دریافت کرنے، جمع کرنے اور ان کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے‘‘ (3) ۔ میرے خیال میں یہ بیان امریکی معاشرے پر زیادہ زوردار طریقے سے لاگو ہوتا ہے اور نہ صرف اوسط درجے کے امریکی بلکہ بزرگ دانشور جن کے ذہین دماغوں نے انہیں واءٹ ہاؤس میں خاص مشیر بننے کی صلاحیت دی ۔ انہی خاص مشیروں میں ایک نامی گرامی مورخ آرتھر ایم شلے سنجرؔ نے چند برس پہلے ایک آرٹیکل لکھا جس میں ایک ایسے ملک میں ایک لبرل کے کردار کی مشکلات کو بیان کیا گیا تھا جہاں "معاشی ڈھانچے کے اہم مسائل حل ہوتے نظر آتے تھے"۔ اس نے اپنا آرٹیکل یہ کہتے ہوئے شروع کیا،’’آج کا لبرل 1950 کے امریکہ کا مایوسی سے سامنا کرنے پر مجبور ہے ۔ جہاں تک ہمارے ملک میں پھیلی ہوئی غربت کا سوال ہے، ہم نے بہرحال ایک باقاعدہ ابھرتا ہوئی قومی ترقی حاصل کر لی ہے اور بے روزگاری سے مکمل چھٹکارا پا لیا ہے (جیسے ایک ڈیموکریٹ سیاستدان نے 1952 کے الیکشن میں کہا تھا "مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں غریبوں کا کال پڑ گیا ہے") (4) ۔ میں نہیں جانتا کہ امریکہ کے صدر کے’’غربت کے لئے جنگ‘‘(وار آن پاورٹی) کے اعلان کو ضروری سمجھ لینے کے بعد مسٹر شلے سنجر آج اس بیان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ یہ واقعی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ میں نے اس کا حوالہ صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے دیا ہے کہ ہمارے کچھ مورخین کے خیالات ہماری تاریخی حقیقت سے کس قدر اجنبی اور بیگانے ہوچکے ہیں اور یہاں تک کہ دانش ور لوگ ایسی توضیحات پیش کرتے ہیں جو ہمارے دور کے اصل رجحانات کو جاننے میں افسوس ناک حد تک معذوری کو ظاہر کرتی ہیں ۔


مسٹرشلے سنجر اور اسی طرح کے دیگر دور اندیش مورخین کوئی بہت انوکھے کیس نہیں ہیں ۔ وہ اچھی خاصی تعداد میں ہیں ۔ مثال کے طور پر کچھ ایسے ماہرین عمرانیات ہیں جو کہ تجریدی و کھوکھلے نظریات اور نظاموں کے خلاف ایک قابل فہم بغاوت کرنے کے چکر میں نام نہاد تجربیت میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔ یہ سب اچھا ہو سکتا تھا ۔ لیکن محض کٹے ہوئے حقائق اور معلومات کے ڈھیر معاشرے کے اہم رجحانات اور معاشرتی حقیقت کو سمجھنے کے لئے خود میں کافی نہیں ہیں ۔ پچھلی دہائیوں میں ہم نے ایک بڑی مقدار میں ان سوالوں کے بارے تفصیلی معلومات کا ذخیرہ جمع کیا ہے جو کہ انتہائی خصوصی نوعیت کی ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر غیر متعلق بھی ہیں ۔ مجھے افسوس ہے کہ اب وقت نہیں ہے کہ میں ان پیچیدہ مگر معمولی مسائل کی مثالیں دوں جن کے لئے ماہر ینِ عمرانیات اپنی تمام کوششیں وقف کرتے ہوئے ہ میں یہ نتاءج فراہم کر رہے ہیں کہ وہ یا تو ہماری معاشی حقیقت کے تمام مسائل سے قطع نظر کرتے ہیں یا وہ ان کی اصلیت جاننے میں ناکام ہیں ۔


No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry