میاں لوگو
میں غریب شاعر ، علم کا مبتدی مگر عقیدے کا مولائی اور محبت کا داعی پچھلے دس برس سے شعر اور فکشن لکھنے پر مامور تھا۔ مگر عوض اِس کے کسی نواب سے مشاہرہ نہیں پاتا تھا نہ انگریز سرکار سے وظیفہ کھاتا تھا ۔ وراثت میں جائداد بالکل نہ تھی جسے قرق کیا گیا ہو ۔ اِس سبب سے میرے پاس عدالت میں خواہی نہ خواہی نالش کرنے کا عذر بھی نہیں تھا ۔ جامعات میں داخلہ میری کج طبعی اور وہاں کے مدرسین کے جہلِ قطعی کے باعث ممنو ع تھا ۔ بارے معیشت کو علی مولا کے سہارے کر دیا کہ وہ آپ اِس مشکل کو آسان کریں اور عرضی اُن کی جانب بھجوا دی ۔ مولا مشکل کشا کو اور اب کام ہی کیا رہا تھا ؟ وہ اس وقت نہ خیبر کی مہم پر ہیں ۔ نہ جمل کی راہ میں ہیں ۔ وہاں سے جواب آیا میاں ناطق تم ہمارے غم خواروں میں ہو ہم ضرور تم پر کرم کی نگاہ رکھتے ہیں ۔ با ایں کار اُن کی رحمتِ بے یاں نے ہمیں قنبر کی ہم مشربی کا پروانہ عطا کیا یعنی اپنی بارگاہ میں سے ایک مناسب روزینہ مکرر کر دیا کہ جتنا کھاتا جاوں گا اتنا زائد ہوتا جاوے گا ۔ اور اُس کا وسیلہ راجا ناصر عباس کو مقرر فرمایا ، ۔ خدا اُس کو خضر سے دراز عمر کرے ۔ اب تفصیل اِس امر کے بیان کرنے کی یہ ہے کہ روٹی کی فکر نہیں ۔وہ اُنھوں نے ہمارے واسطے کئی خانساماں مامور کر دیے ہیں ۔ ، لباس کی حاجت نہیں رہی کہ برسوں کی خلعتیں سِل کر آ گئیں ہیں ۔ مزاج حضرت ناصر عباس کا آصف الدولیانہ ہے ، عزت وہ ہماری میر کے مرتبے کے موافق کرتے ہیں۔ ہر طرح کی آسائش ہمارے واسطے بہم پہنچا رکھی ہے ۔ ناول کوفہ کا مسافر لکھنے کے لیے جو کچھ ہم نے کوفہ پہنچ کر تحقیق کے لیے قیام و طعام رکھنا تھا اُس کا بندوبست اُنھوں نے اپنی عطا سے خوب کر دیا ہے ۔ یعنی سب ملا کر سمجھو چھ سات برس کا توشہ اور اسباب میسر ہے ۔ آگے اللہ اللہ ۔ شکر اُس ذات کی نیاز مندی کا جس نے کسی غیر کا دامن گیر نہیں کیا ہے اور سب کچھ اپنی ہی جناب سے دیا ہے ۔
میں دنیا داری کے لباس میں فقیری کر رہاہوں، لیکن فقیر آزاد ہوں، نہ شیّاد، نہ کیّاد۔ چھیالیس برس کی عمر ہے، بے مبالغہ کہتا ہوں، لاکھ ہزار آدمی نظر سے گزرے ہوں گے زمرہء خاص میں سے، عوام کا شمار نہیں ۔
میں عربی کا عالم نہیں ، تاریخ کا مفسر نہیں مگر جس قدر شہرت اور عوام کے دلوں میں میری محبت مولا نے راسخ کی ہے کسی اور میں کم ہی دیکھی ہو گی ۔ بس اتنی بات ہے کہ اپنے کام سے مخلص ہوتا ہوں اور عوام الناس کے حق میں اخلاص رکھتا ہوں اور شعر و ادب کی خدمت کا کوئی امر نہیں چھوڑتا ، علما سے پوچھنے کا محتاج اور سند کا طلب گار رہتا ہوں۔ شاعری اور افسانہ کہنے میں مبدا فیاض سے مجھے وہ دست گاہ ملی ہے اور اس کے رموز میرے ضمیر میں اس طرح جاگزیں ہیں، جیسے فولاد میں جوہر۔
اور شہرت کا عالم یہ ہے کہ چھیالیس برس سے بلاد پاکستان میں رہتا ہوں۔ ہزارہا خط اطراف و جوانب سے آتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ محلہ کا نام نہیں لکھتے ہیں۔ مگر خطوط اور پیغام برابر پہنچتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ . مولانا علی اکبر ناطق علیہ الرحمہ ان دنوں میں بہت خوش ہیں۔ پچاس سا ٹھ جزو کی کتاب فسانہ آزاد کی داستان انتخاب کرنے کے واسطے آ گئی۔ خورو نوش کی کئی برس کی رسد توشہ خانہ میں موجوود ہے،۔ شراب و ناب کی خواہش نہیں رکھتا ۔ دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں، رات بھر شعر اور افسانہ کہا کرتے ہیں ۔ صحت بھی اِن دنوں بہت کچھ درست ہے ۔ اِس کے بعد زندگی مزید رہی تو اللہ مالک ہے
غلامِ قرآن ِ ناطق
علی اکبر ناطق
No comments:
Post a Comment