Tuesday, 3 November 2020

"کجا ہستی جان پدر"




گزشتہ روز کابل یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے موبائل فون اور دوسری ذاتی اشیاء اکٹھے کررہا تھا ہر شہید طالب علم کے سیل فون پر بے شمار گھنٹیاں آرہی تھی ، بہت سوں کو جواب دیا بھی مگر کچھ نمبرز کو جو اماں اور ابا جان کے نام سے محفوظ تھے کو اٹھانے کی سکت نہ تھی ایک طالبہ کے سیل فون پر ایک سو بیالیس بار کال کی گئی تھی اور آخر میں ایک میسج آیا جس نے ہلا کے رکھ دیا ۔

"کجا ہستی جان پدر"
( امید مہریار )

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry