- سسی کا بھنبھور لٹا تھا، ہمارے چوبارے، گلیارے اور کٹریاں فنا ہو گئی ہیں۔ اب شہر بڑے ہو گئے ہیں پر دنیا سمٹ کر ہاتھ کی ہتھیلی میں آگئی ہے۔ اب ہر ایک کی اپنی دیوار ہے۔ ایک انگلی کا اشارہ چاہیے، قدم نہیں اٹھانے پڑتے، نیا موڑ آ جاتا ہے، نئی دیوار نظر کے سامنے ہوتی ہے۔ اب بات چند سو یا ہزار سے نہیں ہوتی، کلام لاکھوں سے ہوتا ہے۔ اب کوئی مطالبہ نہیں کرتا، فتوی دیتا ہے۔ سب سچ جانتے ہیں، سب حق کے داعی ہیں۔ سب عشق کے مارے ہیں، سب جنون گزیدہ ہیں۔ منطق، اصول، دلیل، محبت کے چراغوں کا تیل ختم ہے اور نفرت، عقیدے، دشنام اور بہتان کی سرخ آندھی سڑکوں پر راکھ اڑاتی رقصاں ہے۔ اب پھانسی فیشن میں نہیں ہے، سر تن سے جدا کرنے کا زمانہ ہے۔ پہلے دیواروں کے مالک شکوہ کناں ہوتے تھے کہ رات کی تاریکی میں کون ان کی دیوار پر سیاہ تحریر لکھ جاتا تھا۔ اب نہیں ہوتے کہ اب سب کی اپنی اپنی دیواریں ہیں۔ اور ہر دیوار کے سامنے عشاق کا ہجوم۔ عشق دلیل نہیں مانتا، عشق تجزیہ نہیں مانگتا، عشق اب سر مانگتا ہے۔ عشق کے مضراب سے اب نغمہ تار حیات نہیں پھوٹتا، موت کی وحشی دھن نکلتی ہے۔ عشق دیوار کی ہر تحریر کو صحیفہ آسمانی سمجھتا ہے اور اس پر اپنی جان لٹانے کو دائمی عیش کا رستہ۔ برسوں اس ہجوم نے زہر عشق جرعہ جرعہ پیا ہے اور اس کی قیمت عقل بیچ کر چکائی ہے۔ سودے میں چشم بینا بھی گئی ہے اور درد دل بھی
Wednesday, 11 November 2020
سب عشق کے مارے ہیں، سب جنون گزیدہ ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
-
کئی دنوں سے مجھے وہ میسج میں لکھ رہی تھی جنابِ عالی حضورِ والا بس اِک منٹ مجھ سے بات کر لیں میں اِک منٹ سے اگر تجاوز کروں تو بے شک نہ...
-
حضرت علامہ کو خواب میں دیکھا۔ محمد علی جناح کے ساتھ شطرنج کھیل رپے تھے۔ پاس ایک باریش بزرگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے یقین تو نہیں مگر خی...
No comments:
Post a Comment