Tuesday, 20 August 2019

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

؎ کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے


------------------------------
اے وائے انقلاب زمانے کے جور سے 

دلی ظفرؔ کے ہاتھ سے پل میں نکل گئی 



بہادر شاہ ظفر

-----------
ساحر لدھیانوی
آؤ کہ آج غور کریں اس سوال پر 

دیکھے تھے ہم نے جو وہ حسیں خواب کیا ہوئے 

دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا 

خوشحالئ عوام کے اسباب کیا ہوئے 

جو اپنے ساتھ ساتھ چلے کوئے دار تک 

وہ دوست وہ رفیق وہ احباب کیا ہوئے 

کیا مول لگ رہا ہے شہیدوں کے خون کا 

مرتے تھے جن پہ ہم وہ سزا یاب کیا ہوئے 

بے کس برہنگی کو کفن تک نہیں نصیب 

وہ وعدہ ہائے اطلس و کمخواب کیا ہوئے 

جمہوریت نواز بشر دوست امن خواہ 

خود کو جو خود دیے تھے وہ القاب کیا ہوئے 

مذہب کا روگ آج بھی کیوں لا علاج ہے 

وہ نسخہ ہائے نادر و نایاب کیا ہوئے 

ہر کوچہ شعلہ زار ہے ہر شہر قتل گاہ 

یکجہتئ حیات کے آداب کیا ہوئے 

صحرائے تیرگی میں بھٹکتی ہے زندگی 

ابھرے تھے جو افق پہ وہ مہتاب کیا ہوئے 

مجرم ہوں میں اگر تو گنہ گار تم بھی ہو 

اے رہبران قوم خطا کار تم بھی ہو  
============
آسی رام نگری
دل کی بات کیا کہئے دل عجیب بستی ہے 

روز یہ اجڑتی ہے اور روز بستی ہے 

پہلے اپنی حالت پہ ہنس لے خود ہی جی بھر کے 

دیکھ کر مجھے دنیا طنز سے جو ہنستی ہے 

آج کا زمانہ بھی واہ کیا زمانہ ہے 

زندگی بہت مہنگی موت کتنی سستی ہے 

اس سے دور کیا ہوگی تیرگی زمانے کی 

شمع روشنی کو خود آج جب ترستی ہے
---------------
ہم تو بدنام محبت تھے سو رسوا ٹھہرے 

ناصحوں کو بھی مگر خلق خدا جانتی ہے 

کون طاقوں پہ رہا کون سر راہ گزر 

شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے  
-----------------------

‏‎‎اب مرے خواب مرے خواب سے شرمندہ ہیں
میں وہاں ہوں کہ جہاں صرف بغاوت ہو گی
اس تعفن میں تنفس کی دعا رہنے دو
ایسے ماحول میں کیا خاک محبت ہو گی؟
----------------

‏جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے 
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے

‎---------------
مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی 
محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی

ہوا کے خوف سے لپٹا ہوا ہوں خشک ٹہنی سے 
کہیں جانا نہیں جانے کی تیاری نہیں کرنی

ہمارا دل ذرا اکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر 
یونہی بازار آئے ہیں خریداری نہیں کرنی

------------------------
حرف حرف، لہو لہو



مجھے خط ملا ہے غنیم کا

بڑی عجلتوں میں لکھا ہوا

کہیں رنجشوں کی کہانیاں

کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ



مجھے کہہ دیا ہے امیر نے

کرو حسنِ یار کا تذکرہ

تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن

کہو حاکموں کو برا بھلا



تمہیں فکرِ عمرِ عزیز ہے

تو نہ حاکموں کو خفا کرو

جو امیرِ شہر کہے تمہیں

وہی شاعری میں کہا کرو



کوئی واردات کہ دن کی ہو

کوئی سانحہ، کسی رات ہو

نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو

نہ غنیمِ وقت کی بات ہو



کہیں تار تار ہوں عصمتیں

مرے دوستوں کو نہ دوش دو

جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر

تو نہ کوتوال کا نام لو



کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے

مرے جاں نثار گلی گلی

ہیں مرے اشارے کے منتظر

مرے عسکری، مرے لشکری



جو تمہارے جیسے جوان تھے

کبھی میرے آگے رکے نہیں

انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا

وہ جو میرے آگے جھکے نہیں



جنہیں جان و مال عزیز تھے

وہ تو میرے ڈر سے پگھل گئے

جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو

انہیں بم کے شعلے نگل گئے



مرے جاں نثاروں کو حکم ہے

کہ گلی گلی یہ پیام دیں

جو امیرِ شہر کا حکم ہے

بِنا اعتراض وہ مان لیں



جو مرے مفاد کے حق میں ہیں

وہی عدلیہ میں رہا کریں

مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں

سبھی فیصلے وہ ہوا کریں



جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ

انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو

وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب

انہیں گردنوں سے مروڑ دو



وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں

انہیں زر کا سکہّ اچھال دو

جنہیں اپنے درش عزیز ہوں

انہیں کال کوٹھی میں ڈال دو



جو مرا خطیب کہے تمہیں

وہی اصل ہے اسے مان لو

جو مرا امام بیاں کرے

وہی دین ہے سبھی جان لو



جو غریب ہیں مرے شہر میں

انہیں بھوک پیاس کی مار دو

کوئی اپنا حق جو طلب کرے

تو اسے زمیں میں اتار دو



جو مرے حبیب و رفیق ہیں

انہیں خوب مال و منال دو

جو مرے خلاف ہیں بولتے

انہیں نوکری سے نکال دو



جو ہیں بے خطا، وہی دربدر

یہ عجیب طرزِ نصاب ہے

جو گنہ کریں، وہی معتبر

یہ عجیب روزِ حساب ہے



یہ عجیب رت ہے بہار کی

کہ ہر ایک زیرِ عتاب ہے

’’کہیں پر شکستہ ہے فاختہ

کہیں زخم زخم گلاب ہے‘‘



مرے دشمنوں کو جواب ہے

نہیں غاصبوں پہ شفیق مَیں

مرے حاکموں کو خبر کرو

نہیں آمروں کا رفیق مَیں



مجھے زندگی کی ہوس نہیں

مجھے خوفِ مرگ نہیں ذرا

مرا حرف حرف، لہو لہو

مرا لفظ لفظ ہے آبلہ



(ڈاکٹر سید صغیر صفیؔ)​
-----------------------

ہم تو بدنام محبت تھے سو رسوا ٹھہرے 

ناصحوں کو بھی مگر خلق خدا جانتی ہے 

کون طاقوں پہ رہا کون سر راہ گزر 

شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے 

-------------------


 

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry