پاکستان کے تقریبا 50 ادیبوں، فنکاروں، صحافیوں اور شاعروں نے ہند کے اپنے
ہم پیشہ و ہم مشرب سے 21 تا 23 فروری تین دنوں تک چلنے والے رنگارنگ
پروگرام میں ایک ایسا ساز چھیڑا جس کی بازگشت دور تک اور دیر تک سنائی دے
گی۔
حالانکہ اس میں شرکت کرنے والی شخصیات میں وہ معتبر نام نہیں تھے جو ہمیشہ ہندو پاک دوستی پر ہونے والے مذاکرات، جلسوں اور مشاعروں میں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے پروگرام کی کوارڈینیٹر رخشندہ جلیل نے کہا کہ ’آؤٹ ریچ پروگرام کے تحت ہماری یہ کوشش تھی کہ ہم ہندو پاک کے دوسری صف کے ادیبوں، فنکاروں، صحافیوں اور شاعروں کو باہم اختلاط و ارتباط کا موقعہ دیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام سے بلاواسطہ جڑے ہوئے ہیں اور ہر سطح کی پیش رفت میں یہ وہ حصہ ہیں جو چھوٹ جاتے ہیں۔
اس تین روزہ کانفرنس میں جہاں ہندو پاک رشتوں، سیاست اور امن کی اشاعت میں فنون کے کردار پر عالمانہ گفتگو کا ایک سلسلہ رہا وہیں کتابوں اور پینٹنگز کی نمائش اور بلوچی، سندھی، اردو، پنجابی اور سرائیکی ادب سے قرات کا اہتمام بھی کیا گیا۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی شاعرہ بشرٰی فرخ
لاہور کے استاد بدرالزماں اور استاد قمرالزماں جیسے کلاسیکی فنکاروں نے اس میں شرکت کی اور تسنیم ہاشمی کی غزل سرائی سے اس تین روزہ کنونشن کا آغاز ہوا۔
بھارت کے مشہور جرنلسٹ ونود مہتا نے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اس تقریب کو ایک اہم قدم قرار دیا اور اس ضمن میں اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اسی موقع سے بھارت میں مقیم پاکستان کے سفیر عزیز احمد خاں نے بھی انھی خیالات کا اظہار کیا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے جرنلسٹ ارشاد امین جو اس سے قبل بھی پچھلے سال سجاد ظہیر تقریب کے سلسے میں بھارت آ چکے ہیں انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ارتبات کے اہتمام سے ہی رشتوں کی اصل روح نظر آتی ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ بشرہ فرخ نے کہا کہ اہل سیاست جس طرح چاہیں اپنے رشتے رکھیں اہل قلم کم از کم اتنی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنی جانب سے رشتوں کو خوشگوار بنائے رکھیں۔
بھارتی شاعر مخمور سعیدی مشاعرے کے دوران
بسنت کی سرمئی شام میں کھلے آسمان تلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اوپن ایئر تھیٹر میں پاک بھارت شاعروں نے وہ سماں باندھا کہ پاکستان سے آنے والے شاعر ساجد علی ساجد نے اپنے اس سفر کو ’پیار ہی پیار‘ کا نام دے ڈالا اور انھوں نے اپنی نظم ’پیار کا پیغام‘ میں ہندو پاک کے اٹوٹ رشتے کو اشعار میں اس طرح باندھا، ملاحظہ ہو:
امن کی جوت جگانے میں یہاں آیا ہوں
پیار کے گیت سنانے میں یہاں آیا ہوں
آپ کے دل بھی کشادہ ہیں مجھے ہے معلوم
آپ کو اپنا بنانے میں یہاں آیا ہوں
جب انھوں نے یہ بند پڑھا تو ایک سناٹا سا چھا گیا
میں وہاں ہوں میرے اجداد کی قبریں ہیں یہاں
یہ تعلق ہے کچھ ایسا کہ مٹائے نہ بنے
جسم میرا ہے وہاں روح کا مسکن ہے یہاں
کیا کروں مجھ سے کسی طور نبھائے نہ بنے
پاک بھارترشتے کے حوالے سے تقریبًا تمام شاعروں نے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھا، ملاحظ کیجیۓ چند اشعار:
نییتیں گر صاف ہوں اور صدق ایماں ہو نصیب
دور کر سکتی نہیں ہم کو حدود ہند و پاک
لطف یہ ہے آج پھر اردو زباں کے فیض سے
آ ملے ہیں سینہ چاکان وطن پھر پرتپاک
پنڈت آنند موہن گلزار زتشی نے اردو اور ہند و پاک کے حوالے سے یہ قطعہ بھی پڑھا جسے کافی پسند کیا گیا۔
آئین تو ہم روز بدل سکتے ہیں
اخلاق میں ترمیم نہیں ہو سکتی
ہم روز نئے ملک بنا سکتے ہیں
تہذیب کی تقسیم نہیں ہو سکتی
دھلی کے استاد شاعر مخمور سعیدی کے ساتھ ساتھ دوسرے شعراء نے بھی اس عنوان کے تحت چند اشعار پڑھے ، ملاحظ کیجیئے:
اچھا ہے زمانے کا کہا مان لیں دونوں
کچھ تم بھی بدل جاؤ کچھ ہم بھی بدل جائیں
تم آؤگے تو نئی محفلیں سجائیں گے
پھر ایک بار محبت کو آزمائیں گے (علی ظہیر، پاکستان)
مشاعرہ کسی یونیورسٹی میں ہو اور عشق و محبت کے اشعار نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔ چنانچہ تمام شعراء وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے تمام سن و سال کے باوجود جوش و جوانی میں ڈوبے ہوئے رنگین اشعار سنانا نہ بھولے۔ ملاحظ کیجیئے چند اشعار:
کچھ خواب ناک جسم مہکتے تھے دھیان میں
ان سے بہ اہتمام کوئی دم نہ مل سکے
کافی ہے دل کے قریۂ برباد کے لیے
ان لڑکیوں کی یاد جنہیں ہم نہ مل سکے (سعید احمد، پاکستان)
عجیب دور تھا کیا سر پھرے زمانے تھے
کسی کو دیکھنا اور دیکھتے ہی مر جانا (ہمایوں ظفر زیدی)
لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے ( مخمور سعیدی)
بدمست سی الڑھ سی کنواری پلکیں
راتوں کی جگی نیند سے بھاری پلکیں
ان پلکوں پہ جس وقت سے ڈالی ہے نظر
جھپکی نہیں واللہ ہماری پلکیں (گلزار زتشی،دہلی
حالانکہ اس میں شرکت کرنے والی شخصیات میں وہ معتبر نام نہیں تھے جو ہمیشہ ہندو پاک دوستی پر ہونے والے مذاکرات، جلسوں اور مشاعروں میں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے پروگرام کی کوارڈینیٹر رخشندہ جلیل نے کہا کہ ’آؤٹ ریچ پروگرام کے تحت ہماری یہ کوشش تھی کہ ہم ہندو پاک کے دوسری صف کے ادیبوں، فنکاروں، صحافیوں اور شاعروں کو باہم اختلاط و ارتباط کا موقعہ دیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام سے بلاواسطہ جڑے ہوئے ہیں اور ہر سطح کی پیش رفت میں یہ وہ حصہ ہیں جو چھوٹ جاتے ہیں۔
اس تین روزہ کانفرنس میں جہاں ہندو پاک رشتوں، سیاست اور امن کی اشاعت میں فنون کے کردار پر عالمانہ گفتگو کا ایک سلسلہ رہا وہیں کتابوں اور پینٹنگز کی نمائش اور بلوچی، سندھی، اردو، پنجابی اور سرائیکی ادب سے قرات کا اہتمام بھی کیا گیا۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی شاعرہ بشرٰی فرخ
لاہور کے استاد بدرالزماں اور استاد قمرالزماں جیسے کلاسیکی فنکاروں نے اس میں شرکت کی اور تسنیم ہاشمی کی غزل سرائی سے اس تین روزہ کنونشن کا آغاز ہوا۔
بھارت کے مشہور جرنلسٹ ونود مہتا نے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اس تقریب کو ایک اہم قدم قرار دیا اور اس ضمن میں اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اسی موقع سے بھارت میں مقیم پاکستان کے سفیر عزیز احمد خاں نے بھی انھی خیالات کا اظہار کیا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے جرنلسٹ ارشاد امین جو اس سے قبل بھی پچھلے سال سجاد ظہیر تقریب کے سلسے میں بھارت آ چکے ہیں انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ارتبات کے اہتمام سے ہی رشتوں کی اصل روح نظر آتی ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ بشرہ فرخ نے کہا کہ اہل سیاست جس طرح چاہیں اپنے رشتے رکھیں اہل قلم کم از کم اتنی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنی جانب سے رشتوں کو خوشگوار بنائے رکھیں۔
بھارتی شاعر مخمور سعیدی مشاعرے کے دوران
بسنت کی سرمئی شام میں کھلے آسمان تلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اوپن ایئر تھیٹر میں پاک بھارت شاعروں نے وہ سماں باندھا کہ پاکستان سے آنے والے شاعر ساجد علی ساجد نے اپنے اس سفر کو ’پیار ہی پیار‘ کا نام دے ڈالا اور انھوں نے اپنی نظم ’پیار کا پیغام‘ میں ہندو پاک کے اٹوٹ رشتے کو اشعار میں اس طرح باندھا، ملاحظہ ہو:
امن کی جوت جگانے میں یہاں آیا ہوں
پیار کے گیت سنانے میں یہاں آیا ہوں
آپ کے دل بھی کشادہ ہیں مجھے ہے معلوم
آپ کو اپنا بنانے میں یہاں آیا ہوں
جب انھوں نے یہ بند پڑھا تو ایک سناٹا سا چھا گیا
میں وہاں ہوں میرے اجداد کی قبریں ہیں یہاں
یہ تعلق ہے کچھ ایسا کہ مٹائے نہ بنے
جسم میرا ہے وہاں روح کا مسکن ہے یہاں
کیا کروں مجھ سے کسی طور نبھائے نہ بنے
پاک بھارترشتے کے حوالے سے تقریبًا تمام شاعروں نے کچھ نہ کچھ ضرور پڑھا، ملاحظ کیجیۓ چند اشعار:
نییتیں گر صاف ہوں اور صدق ایماں ہو نصیب
دور کر سکتی نہیں ہم کو حدود ہند و پاک
لطف یہ ہے آج پھر اردو زباں کے فیض سے
آ ملے ہیں سینہ چاکان وطن پھر پرتپاک
پنڈت آنند موہن گلزار زتشی نے اردو اور ہند و پاک کے حوالے سے یہ قطعہ بھی پڑھا جسے کافی پسند کیا گیا۔
آئین تو ہم روز بدل سکتے ہیں
اخلاق میں ترمیم نہیں ہو سکتی
ہم روز نئے ملک بنا سکتے ہیں
تہذیب کی تقسیم نہیں ہو سکتی
دھلی کے استاد شاعر مخمور سعیدی کے ساتھ ساتھ دوسرے شعراء نے بھی اس عنوان کے تحت چند اشعار پڑھے ، ملاحظ کیجیئے:
اچھا ہے زمانے کا کہا مان لیں دونوں
کچھ تم بھی بدل جاؤ کچھ ہم بھی بدل جائیں
تم آؤگے تو نئی محفلیں سجائیں گے
پھر ایک بار محبت کو آزمائیں گے (علی ظہیر، پاکستان)
مشاعرہ کسی یونیورسٹی میں ہو اور عشق و محبت کے اشعار نہ ہوں یہ کیسے ممکن ہے۔ چنانچہ تمام شعراء وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے تمام سن و سال کے باوجود جوش و جوانی میں ڈوبے ہوئے رنگین اشعار سنانا نہ بھولے۔ ملاحظ کیجیئے چند اشعار:
کچھ خواب ناک جسم مہکتے تھے دھیان میں
ان سے بہ اہتمام کوئی دم نہ مل سکے
کافی ہے دل کے قریۂ برباد کے لیے
ان لڑکیوں کی یاد جنہیں ہم نہ مل سکے (سعید احمد، پاکستان)
عجیب دور تھا کیا سر پھرے زمانے تھے
کسی کو دیکھنا اور دیکھتے ہی مر جانا (ہمایوں ظفر زیدی)
لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے ( مخمور سعیدی)
بدمست سی الڑھ سی کنواری پلکیں
راتوں کی جگی نیند سے بھاری پلکیں
ان پلکوں پہ جس وقت سے ڈالی ہے نظر
جھپکی نہیں واللہ ہماری پلکیں (گلزار زتشی،دہلی
No comments:
Post a Comment