Monday, 29 July 2019
Sunday, 28 July 2019
Saturday, 27 July 2019
آرمی چیف کے نام کھلا خط
آرمی چیف کے نام کھلا خط
بخدمت جناب قبلہ و کعبہ، مرد مجاہد جرنل قمر جاوید باجوہ صاحب،
"اعتراف جرم"
ہم بلڈی سویلنز اپنے مندرجہ ذیل جراہم کا اعتراف کرتے ہوے آپ کے واٹر پالش سے چمکتے بوٹ پر اپنے ہونٹ ثبت کرتے ہوے آپ سے معافی کے طلبگار ہیں۔ امید ہے کہ آپ معاف کر کے ہمیں اپنی عظمت کا ثبوت دیں گے
1۔ ہم معذرت خواہ ہے کہ ہم نے 1948 والی قاہداعظم کی تقریر کو غاہب کیا اور پھر مسخ کر کے قوم کے سامنے پیش کیا۔ اس تقریر کی عدم دستیابی کی وجہ سے نظریہ پاکستان مسخ ہوا اور پاکستان مکمل طور پر مولوی کے قبضے میں چلا گیا
2۔ ہم سویلنز نے کشمیر میں لشکر بھیج کر بھارت کو فعج کشی کی دعوت دی اور آذاد اور خودمختار کشمیر کو بھارت کے قبضے میں دے دیا۔
3۔ ہماری غلطیوں کی وجہ سے بھارت نے 1965 میں پاکستان پر فوجکشی کی جس سے ہمارے آرمی کے مخلص جوانوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
4۔ ہم نے بنگالیوں کے چھوٹے قد کی وجہ سے ان کا مذاق اڑایا اور ہمارے الشمس بریگیڈ کی وجہ سے بنگال نے بھی مجبورا" بھارت سے مدد کی درخواست کی۔ ہمارے نوے ھزار بہادر فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ملک دو لخت ہو گیا
5۔ جس وقت مرد مومن مرد حق جناب ضیاءالحق صاحب روس کو توڑنے میں مصروف تھے اس وقت ہم بلڈی سویلینز نے امریکہ سے ڈالر کھا کر ایک جعلی جہاد کی ترویج کی۔ اپنے ھزاروں بچوں کو امریکہ کی آن پر ہم نے قربان کیا۔ آپ نے روس کو تباہ و برباد کر دیا مگر ہم بلڈی سویلینز کی وجہ سے آج فٹبال کا ورلڈ کپ روس میں ہو رہا ہے اور پاکستان میں ایک انٹرنیشنل کرکٹ میچ کروانا بھی ناممکن ہے۔
6۔ آپ نے کارگل کی عظیم چوٹیوں پر قبضہ کیا اور بھارت کو سخت مشکل میں ڈال دیا۔ مگر جب آپ وہاں پھنسے تو غدار نواز شریف آپ کو بچانے کے لیے امریکہ کی مدد مانگنے امریکہ پہنچ گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر غدار نواز شریف امریکہ نہ جاتا تو آپ نے جلد ہی اپنی مشکل کا خود ہی حل نکال لینا تھا اور پورے بھارت پر قبضہ کر لینا تھا
7۔ میں جرنل مشرف کی بہادری پر صدقے جاوں جس نے ایک سیکرٹری آف سٹیٹ کی کال پر اپنے فضائ اڈے امریکہ کے حوالے کر کے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچنے سے بچا لیا۔
8۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جب کرپٹ سیاستدان ملک لوٹ رہے تھے تو آپ نے امریکہ سے 33 ارب ڈالرز لیکر عوام کی فلاح پر خرچ کیے
9۔ ہمیں فخر ہے کہ آپ کے بہادر آفیسرز نے موٹر وے پولیس کی پٹائ لگای اور میجر صاحب نے میٹر چیک کرنے والے لاہن مین کو قتل کر کے واپڈا کی بدمعاشی ختم کر دی۔ آخر ملک کے محافظوں کا چلان کرنا یا انہیں بجلی کا بل بھیجنا ایک ناقابل تلافی جرم ہے۔
10۔ آپ نے مشرف کے اکاونٹ میں موجود اکیس بلین ڈالرز پر اسے سخت احتساب کا نشانہ بنایا۔ آپ نے 111 ارب کی کرپشن کرنے پر جرنل کیانی کا آسٹریلیا بدر کیا۔ آپ نے قومی راز افشا کرنے پر اسد درانی کو امریکہ بدر کیا۔
ہمارے جراہم اور آپ کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے۔
میں خطا ہی خطا
تو عطا ہی عطا
ہم غدار اور کرپٹ بلڈی سویلینز کو معاف کر کے ہم پر احسان عظیم کیجیے۔ ہم آپ کے کتوں کے بھی نوکر ہیں سرکار۔
ہم عہد کرتے ہیں کہ سارے پاکستانی صبح سویرے اٹھ کر جو بھی فوجی بھای نظر آے گا اس کے جوتے پر پیار کر کے اپنی حب الوطنی ثابت کریں گے۔
خدا آپ کی 55 بزنس کارپوریشنز کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا کرے
آپ کا نوکر
قاضی محمد اسد
بخدمت جناب قبلہ و کعبہ، مرد مجاہد جرنل قمر جاوید باجوہ صاحب،
"اعتراف جرم"
ہم بلڈی سویلنز اپنے مندرجہ ذیل جراہم کا اعتراف کرتے ہوے آپ کے واٹر پالش سے چمکتے بوٹ پر اپنے ہونٹ ثبت کرتے ہوے آپ سے معافی کے طلبگار ہیں۔ امید ہے کہ آپ معاف کر کے ہمیں اپنی عظمت کا ثبوت دیں گے
1۔ ہم معذرت خواہ ہے کہ ہم نے 1948 والی قاہداعظم کی تقریر کو غاہب کیا اور پھر مسخ کر کے قوم کے سامنے پیش کیا۔ اس تقریر کی عدم دستیابی کی وجہ سے نظریہ پاکستان مسخ ہوا اور پاکستان مکمل طور پر مولوی کے قبضے میں چلا گیا
2۔ ہم سویلنز نے کشمیر میں لشکر بھیج کر بھارت کو فعج کشی کی دعوت دی اور آذاد اور خودمختار کشمیر کو بھارت کے قبضے میں دے دیا۔
3۔ ہماری غلطیوں کی وجہ سے بھارت نے 1965 میں پاکستان پر فوجکشی کی جس سے ہمارے آرمی کے مخلص جوانوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
4۔ ہم نے بنگالیوں کے چھوٹے قد کی وجہ سے ان کا مذاق اڑایا اور ہمارے الشمس بریگیڈ کی وجہ سے بنگال نے بھی مجبورا" بھارت سے مدد کی درخواست کی۔ ہمارے نوے ھزار بہادر فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ملک دو لخت ہو گیا
5۔ جس وقت مرد مومن مرد حق جناب ضیاءالحق صاحب روس کو توڑنے میں مصروف تھے اس وقت ہم بلڈی سویلینز نے امریکہ سے ڈالر کھا کر ایک جعلی جہاد کی ترویج کی۔ اپنے ھزاروں بچوں کو امریکہ کی آن پر ہم نے قربان کیا۔ آپ نے روس کو تباہ و برباد کر دیا مگر ہم بلڈی سویلینز کی وجہ سے آج فٹبال کا ورلڈ کپ روس میں ہو رہا ہے اور پاکستان میں ایک انٹرنیشنل کرکٹ میچ کروانا بھی ناممکن ہے۔
6۔ آپ نے کارگل کی عظیم چوٹیوں پر قبضہ کیا اور بھارت کو سخت مشکل میں ڈال دیا۔ مگر جب آپ وہاں پھنسے تو غدار نواز شریف آپ کو بچانے کے لیے امریکہ کی مدد مانگنے امریکہ پہنچ گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر غدار نواز شریف امریکہ نہ جاتا تو آپ نے جلد ہی اپنی مشکل کا خود ہی حل نکال لینا تھا اور پورے بھارت پر قبضہ کر لینا تھا
7۔ میں جرنل مشرف کی بہادری پر صدقے جاوں جس نے ایک سیکرٹری آف سٹیٹ کی کال پر اپنے فضائ اڈے امریکہ کے حوالے کر کے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچنے سے بچا لیا۔
8۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جب کرپٹ سیاستدان ملک لوٹ رہے تھے تو آپ نے امریکہ سے 33 ارب ڈالرز لیکر عوام کی فلاح پر خرچ کیے
9۔ ہمیں فخر ہے کہ آپ کے بہادر آفیسرز نے موٹر وے پولیس کی پٹائ لگای اور میجر صاحب نے میٹر چیک کرنے والے لاہن مین کو قتل کر کے واپڈا کی بدمعاشی ختم کر دی۔ آخر ملک کے محافظوں کا چلان کرنا یا انہیں بجلی کا بل بھیجنا ایک ناقابل تلافی جرم ہے۔
10۔ آپ نے مشرف کے اکاونٹ میں موجود اکیس بلین ڈالرز پر اسے سخت احتساب کا نشانہ بنایا۔ آپ نے 111 ارب کی کرپشن کرنے پر جرنل کیانی کا آسٹریلیا بدر کیا۔ آپ نے قومی راز افشا کرنے پر اسد درانی کو امریکہ بدر کیا۔
ہمارے جراہم اور آپ کے احسانات کی فہرست بہت طویل ہے۔
میں خطا ہی خطا
تو عطا ہی عطا
ہم غدار اور کرپٹ بلڈی سویلینز کو معاف کر کے ہم پر احسان عظیم کیجیے۔ ہم آپ کے کتوں کے بھی نوکر ہیں سرکار۔
ہم عہد کرتے ہیں کہ سارے پاکستانی صبح سویرے اٹھ کر جو بھی فوجی بھای نظر آے گا اس کے جوتے پر پیار کر کے اپنی حب الوطنی ثابت کریں گے۔
خدا آپ کی 55 بزنس کارپوریشنز کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا کرے
آپ کا نوکر
قاضی محمد اسد
بیرون ملک پاکستانیوں
بیرون ملک پاکستانیوں سے زیادہ مفاد پرست ، بے رحم اور منافق نہیں دیکھا۔۔
یہ لوگ جب برطانیہ یورپ امریکہ جاتے ہیں۔۔اور ادھر ان کو ووٹ کا حق ملتا ہے
تو ادھر لیفٹ ونگ سوشل ڈیموکریٹک لیفٹ کو پسند کرتے ہیں۔۔ امریکہ میں
ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیں گے۔۔ برنی سینڈرز کا نام لیں گے۔۔۔برطانیہ میں
لیبر پارٹی کو ووٹ دیں گے اور ۔جیریمی کاربن ان کا پسندیدہ ہو گا۔۔ مگر
اسی سانس میں پاکستان میں یہ رائٹ ونگ فاشزم کو سپورٹ کریں گے۔۔ عسکری
جمہوریت ان کی آئیڈیل ہو گی۔۔ میڈیا پر پابندیوں اور شہری حقوق پر حکمران
طبقہ کے حملوں کے یہ رطب السان بن جائیں گے۔۔ یہ مغربی معاشروں میں ٹھیک
سے جذب نہیں ہو پاتے۔ ٹھیک سے پاکستانی رہتے ہیں نہ ٹھیک سے مغربی معاشرے
کا حصہ بن پاتے ہیں ،بالکل اسی طرح ان کی سیاسی سوچ بھی تضادات سے لبریز
رہتی ہے۔۔ اوپر سے ان کو یہ زعم بھی ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا دیکھی ہے۔۔ ہمیں
بہت پتہ ہے۔۔ سچ تو یہ ہے کہ بغیر کسی مضبوط اور درست نظریاتی بنیاد کے اس
طرح دنیا دیکھنا ان کو اکثر اوقات ایک کنفیوزڈ انسان بنا دیتا ہے۔۔
کامریڈ یاسر ارشاد کی وال سے۔۔۔
کامریڈ یاسر ارشاد کی وال سے۔۔۔
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ امریکا میں ہونے والا ہزاروں لوگوں کا اجتماع ہے.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے آسمان کو چھوتی مہنگائی نہیں بھگتنی ہے.
یقین جانیے ان میں سے کسی نےبھی تنخواہوں پر دگنے سے بھی زیادہ بڑھ جانے والا انکم ٹیکس نہیں دینا ہے.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی کمیٹیوں سے جمع ہوئی رقم سے اپنی اولاد کو تعلیم دلوانے پر ایف بی آر کو جواب نہیں دینا.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی عسکری پشت پناہی سے پلنے والے دہشت گردوں کے طفیل ملنے والی عالمی تنہائی کی قیمت نہیں چکانی ہے.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی کبھی گنگا رام ہسپتال یا جناح ہسپتال میں مفت علاج سے مستفید نہیں ہونا.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی میٹرو بس یا ٹرین میں سفر نہیں کرنا.
یہ ہماری قوم کا وہ بے رحم طبقہ ہے جو مغرب کی جمہوریت، ترقی و خوشحالی سے ہر طرح مستفید ہورہی ہے مگر یہ ہمارے سروں پر باجوے و غفورے کو اس اینٹرٹینر کے ذریعے راج کرتا دیکھنا چاہتی ہے. انہیں ہر سویلین میں کرپشن نظر آتی ہے. انہیں غریب کے لیے بننے والا ہر منصوبہ 'شوبازی' محسوس ہوتا ہے. یہ اجتماع نہیں بلکہ ہماری بدنصیبی ہے.
آصف شکیل
یقین جانیے ان میں سے کسی نے آسمان کو چھوتی مہنگائی نہیں بھگتنی ہے.
یقین جانیے ان میں سے کسی نےبھی تنخواہوں پر دگنے سے بھی زیادہ بڑھ جانے والا انکم ٹیکس نہیں دینا ہے.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی کمیٹیوں سے جمع ہوئی رقم سے اپنی اولاد کو تعلیم دلوانے پر ایف بی آر کو جواب نہیں دینا.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی عسکری پشت پناہی سے پلنے والے دہشت گردوں کے طفیل ملنے والی عالمی تنہائی کی قیمت نہیں چکانی ہے.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی کبھی گنگا رام ہسپتال یا جناح ہسپتال میں مفت علاج سے مستفید نہیں ہونا.
یقین جانیے ان میں سے کسی نے بھی میٹرو بس یا ٹرین میں سفر نہیں کرنا.
یہ ہماری قوم کا وہ بے رحم طبقہ ہے جو مغرب کی جمہوریت، ترقی و خوشحالی سے ہر طرح مستفید ہورہی ہے مگر یہ ہمارے سروں پر باجوے و غفورے کو اس اینٹرٹینر کے ذریعے راج کرتا دیکھنا چاہتی ہے. انہیں ہر سویلین میں کرپشن نظر آتی ہے. انہیں غریب کے لیے بننے والا ہر منصوبہ 'شوبازی' محسوس ہوتا ہے. یہ اجتماع نہیں بلکہ ہماری بدنصیبی ہے.
آصف شکیل
Sunday, 21 July 2019
انسانی حقوق کی ہومیو پیتھی
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: انسانی حقوق کی ہومیو پیتھی
وسعت اللہ خان
ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب نمازِ
جمعہ کے بعد امام صاحب مسلمانانِ عالم کے جان و مال اور عزت و آبرو کے
تحفظ کی رقت آمیز دعا کرواتے تھے اور پوری جامع مسجد آمین کی صدا میں ڈوب
جاتی تھی۔
دو علاقوں کا دعا میں باقاعدہ نام لیا جاتا تھا، فلسطین
اور کشمیر۔ البتہ از قسمِ چیچنیا، افغانستان، اریٹیریا اور بوسنیا وغیرہ
وقت و حالات کی نزاکت کے حساب سے دعائیہ فہرست میں کبھی داخل ہو جاتے کبھی
خارج۔
جہاں جہاں اپنے ملک کی مذہبی اقلیتوں اور دوست مسلمان ممالک
میں سٹیٹ یا نان سٹیٹ ایکٹرز کے مظالم کا نازک مرحلہ آتا تو کسی بالادست
ادارے ، طبقے، تنظیم یا خارجہ تعلقات کی نزاکت کو خطرے میں ڈالنے کی کھکیڑ
سے بچنے اور خود کو محفوظ رکھنے کے لئے امام صاحب ایک جینرک سی دعا پر
اکتفا کرتے۔
جیسے
الہی عالمِ اسلام کو متحد ہونے کی توفیق عطا فرما، جہاں جہاں مسلمان
آزمائش سے دوچار ہیں ان کے مصائب دور فرما، عالمِ اسلام کے خلاف اغیار کی
سازشوں کو نابود فرما، ہمارے درمیان کا نفاق مٹا دے، مانا کہ ہم گنہگار
ہیں، غافل ہیں مگر اپنی رحمت کے صدقے ہمیں اگلے جہان میں بلند مقام عطا
فرما۔
مگر بات اس سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔
ہمارے امام صاحب کے
تصور کا عالمِ اسلام کب کا غتر بود ہو چکا۔ چنانچہ مظلومیت کی تعریف بھی
بدل گئی ہے۔ اب صرف وہ مسلمان مظلوم ہے جس پر ظلم کرنے والا بھی کنگلا ہے۔
جیسے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم توڑنے والی برمی حکومت۔ پاکستان کے نقطہِ نظر
سے کشمیر بھارتی مظالم کی تجربہ گاہ ہے مگر دیگر مسلمان ممالک کے نزدیک
بھارت ایک بڑی افرادی و اقتصادی مارکیٹ۔
گذشتہ ہفتے جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق
کونسل کے 41ویں سالانہ اجلاس کے دوران 22 ممالک نے کونسل کے صدر اور اقوامِ
متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے نام ایک خط میں کہا کہ ہمیں چین
کے صوبہ سنکیانگ میں اویغور قومیت کے ایک ملین سے زائد مسلمانوں کی
کیمپوں میں نظربندی، کڑی نگرانی اور مذہبی رسومات پر پابندیوں کی مصدقہ
اطلاعات پر تشویش ہے۔
خط میں کہا گیا کہ انسانی حقوق کے احترام کی
بابت چینی حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی
نمائندے کے دورہِ سنکیانگ کے مطالبے پر چین نے جو مثبت رویہ ظاہر کیا ہے ہم
اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ سنکیانگ کے نسلی و مذہبی
حالات کا جائزہ لینے کے لئے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق
سمیت بین الاقوامی مبصرین کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
جن بائیس
ممالک کے سفیروں نے اس خط پر دستخط کئے ان میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ،
جاپان، کینیڈا، ناروے، آئس لینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ یورپی یونین کے
پندرہ ممالک ( فرانس، بلجیم، جرمنی، آسٹریا، برطانیہ، آئرلینڈ، سپین،
لکسمبرگ، ہالینڈ، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ، ایستونیا، لٹویا، لتھوینیا) کے
سفیر بھی شامل ہیں۔ کسی مسلمان ملک نے اس خط پر دستخط نہیں کیے۔
اس کے جواب میں 37 ممالک نے ایک خط کونسل کے صدر کے
نام لکھا جس میں انسانی حقوق کے مسئلے کو سیاسی رنگ دینے اور چین نے
سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے لئے جو تعلیمی و پیشہ ورانہ تربیتی مراکز
قائم کیے ہیں انھیں بعض ممالک کی جانب سے نظربندی کیمپ یا ری ایجوکیشن کیمپ
قرار دینے کی مذمت کی گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی و انتہا
پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے سنکیانگ کی مقامی آبادی کی پیشہ ورانہ
تعلیم و تربیت کے لئے چینی حکومت کے اقدامات قابِلِ تعریف ہیں۔ ان کے نتیجے
میں گذشتہ تین برس کے دوران سنکیانگ میں کوئی دہشت گردانہ کارروائی نہیں
ہوئی اور یہاں کے باشندے زیادہ محفوظ اور مطمئن ہیں۔
ہم اس چینی نظریے کی حمایت کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کا فروغ بذریعہ ترقی ہی ممکن ہے۔
اس
خط پر جن 37 ممالک کے سفیروں نے دستخط کئے ان میں بولیویا، وینزویلا،
کیوبا، شمالی کوریا، روس، بیلا روس، ترکمانستان، تاجکستان، لاؤس، کمبوڈیا،
میانمار، فلپینز، زمبابوے، انگولا، برونڈی، کانگو، ڈیموکریٹک ری پبلک آف
کانگو، جنوبی سوڈان، سوڈان، نائجیریا، برکینا فاسو، ٹوگو، کیمرون، گیبون،
کوموروز، اریٹیریا، صومالیہ، الجیریا، مصر، شام، قطر، بحرین، کویت، اومان،
متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور پاکستان شامل ہیں۔
ان 37 ممالک میں سے 20 ملک اسلامی کانفرنس کے رکن ہیں۔
Saturday, 20 July 2019
Sraboni Sen
Srabani Sen, also spelt as Sraboni Sen (Bengali: শ্রাবণী সেন), is a Bengali Indian exponent of Rabindra Sangeet and Bengali songs. She is a daughter of Sumitra Sen and sibling of the prolific artiste, Indrani Sen.
She is an able successor to the gharana, which has contributed
immensely to the spread of Tagore’s music across the world. Srabani’s
tutelage commenced under her mother’s able guidance followed by her
rigorous training at Geetabitan Music Institute from where she came out
with flying colours
She is the daughter of noted singer Sumitra Sen, and is the younger sister of another Rabindra Sangeet exponent Indrani Sen.
The patronage of the Medici, a family of bankers, served as a catalyst for the Renaissance.1397
The patronage of the Medici, a family of bankers, served as a catalyst for the Renaissance.1397
By the time Giovanni de’ Medici founded the Medici Bank in 1397,his family was already somewhat prosperous in 14th century Florence. Much of the Medici wealth had been
derived from the textile industry. However, the tremendous success of the bank brings with it even greater riches and political power in the city. While Giovanni shuns public office, he becomes one of the wealthiest men in Europe and establishes a dynasty that will shape the course of history for
more than 300 years.
As the Medici Bank becomes the largest in Europe and the principal
financial institution of the Roman Catholic Church, the family come to
dominate the Florentine political scene, and their influence spreads
throughout the western Mediterranean.
Eventually, nine branches of the Medici Bank are in operation.
Meanwhile, the family produces three popes and two queens of France.
Although the representative form of government is never abolished, and the city’s legislative councils sometimes
oppose the family’s wishes, three generations of the Medici generally control the Florentine political scene during the 15th century. The most significant contribution of the Medici family to the life of Florence and to Western culture takes place during the supremacy of Cosimo de’ Medici and Lorenzo de’ Medici, respectively the son and great-grandson of Giovanni.
Cosimo’s patronage during the Italian Renaissance — the transitional era from the Middle Ages to modern history
that produces a tremendous flowering of the visual arts, architecture, music, and philosophy — serves as a catalyst
for the continuation of the era.
Along with other leading families of Florence, Cosimo provides financial support
for such famed artists as the sculptor Donatello and painters Fra Angelico and Fra Filippo Lippi, while Lorenzo supports renowned artists Boticelli and Michelangelo, among others.
After nearly a century of operation, the Medici Bank collapses amid economic depression in 1494. However, the measure of its critical contribution to the wealth of the family and in turn
the progress of the Italian Renaissance is incalculable.
Eventually, nine branches of the Medici Bank are in operation.
Meanwhile, the family produces three popes and two queens of France.
Although the representative form of government is never abolished, and the city’s legislative councils sometimes
oppose the family’s wishes, three generations of the Medici generally control the Florentine political scene during the 15th century. The most significant contribution of the Medici family to the life of Florence and to Western culture takes place during the supremacy of Cosimo de’ Medici and Lorenzo de’ Medici, respectively the son and great-grandson of Giovanni.
Cosimo’s patronage during the Italian Renaissance — the transitional era from the Middle Ages to modern history
that produces a tremendous flowering of the visual arts, architecture, music, and philosophy — serves as a catalyst
for the continuation of the era.
Along with other leading families of Florence, Cosimo provides financial support
for such famed artists as the sculptor Donatello and painters Fra Angelico and Fra Filippo Lippi, while Lorenzo supports renowned artists Boticelli and Michelangelo, among others.
After nearly a century of operation, the Medici Bank collapses amid economic depression in 1494. However, the measure of its critical contribution to the wealth of the family and in turn
the progress of the Italian Renaissance is incalculable.
شکور بھائی چشمے والے، ٹرمپ اور قادیانی کارڈ
شکور بھائی چشمے والے، ٹرمپ اور قادیانی کارڈ
ارمغان احمد داؤد
کچھ مہینے گزرتے ہیں اور ہمارے پاکستانی ہم وطنوں کو پھر سے
اپنے اجماعی و متفقہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لئے
فیس بک کی راہوں پر
لٹھ لے کر بھاگنا دوڑنا پڑتا ہے۔
کہانی کچھ یوں ہوئی کہ کچھ سال پہلے پنجاب پولیس نے ربوہ شہر
میں اسی سالہ شکور بھائی چشمے والے کی دکان پر ریڈ کر کے “ممنوعہ لٹریچر”
رکھنے کے الزام میں انہیں گرفتار کر کے تعزیراتِ پاکستان کے دفعہ دو سو
اٹھانوے سی کے تحت مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے، احمدیت کی تبلیغ کرنے اور
نیپ کے تحت دہشت گردی کی دفعہ گیارہ ڈبلیو میں ممنوعہ لٹریچر کو چھاپنے
اور بیچنے کا مقدمہ دائر کر دیا۔ ریڈ کے وقت علامہ طاہر اشرفی کے بھائی
(غالباً حسن معاویہ نام ہے) بھی پولیس کے ساتھ موجود تھے جو کہ احمدیوں پر
اس طرح کے مقدمات کروانے کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ شکور بھائی پر مقدمہ چلا
اور انہیں ان دفعات کے تحت تین اور پانچ سال کی سزا سنا دی گئی۔
جس ممنوعہ لٹریچر پر سزا سنائی گئی اس کی لسٹ ہائی کورٹ اپیل کے فیصلے سے ملاحظہ ہو:
1- تفسیرِ صغیر (اردو ترجمہ قران از مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب، جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ)
2- اردو ترجمہ قران از مرزا طاہر احمد صاحب (جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ)
3- اردو لفظی ترجمہ قران از میر محمد اسحاق صاحب
4- کشتی نوح از مرزا غلام احمد صاحب (بانی جماعت احمدیہ)
5- تذکرۃ المہدی
6- روزنامہ الفضل
7- ماہنامہ مصباح
دو ہزار دس کے جس نوٹیفیکیشن کا حوالہ دیا گیا کہ یہ لٹریچر
اس کے تحت ممنوعہ ہے، اس نوٹیفیکیشن میں سوائے الفضل اور مصباح کے ان میں
سے کسی اور کتاب یا ترجمہ قران کا نام نہیں۔ روزنامہ اور ماہنامہ جو کہ
ویسے ہی حکومت کی اجازت سے نکلتے ہیں، اس کے کسی خاص ایشو کو بین کرنے کی
بجائے پچھلی اگلی سب اشاعتوں کو بین کر دینے میں جتنی عقلمندی ہے وہ اظہرمن
الشمس ہے۔ جب نوٹیفیکشن میں نام نہ ہونا ہائی کورٹ میں زیر بحث آیا تو
فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ تو کیا فرق پڑتا ہے، کچھ کتابیں تو ہیں نا جو
برآمد ہوئیں ہیں جن کے نام نوٹیفیکیشن میں ہیں۔ بس رہے نام اللہ کا۔
لٹریچر تو خیر بہانہ تھا، بدنیتی اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ تین
ساڑھے تین سال کے اس عرصے میں لاتعداد تاریخیں دے کر اس کیس کو دانستہ طور
پر التوا میں رکھا گیا۔ احمدیوں کے اکثریتی شہر میں احمدیوں کو قران اور
کتابیں بیچنے سے عامۃ المسلمین کے جذبات کیسے مجروح ہو جاتے ہیں یہ راز
ابھی تک طشت از بام نہیں ہوا۔ اگر یہی کرنا ہے تو مسلمانوں کے جذبات تو
احمدیوں کے سانس لینے سے بھی مجروح ہو جاتے ہیں، اب کیا احمدی سانس لینا
بھی چھوڑ دیں؟ یا سب احمدیوں کو جیل میں ڈال دیا جائے؟ خیر، ہائی کورٹ نے
شکور بھائی کی اپیل خارج کر دی مگر ساتھ ہی سزا پوری ہونے کا عندیہ دے دیا
جس کی وجہ سے شکور بھائی رہا ہوگئے۔
ظلم کی بات یہ کہ شکور بھائی کےایک ملازم، جو کہ شیعہ ہیں،
بھی ساتھ ہی گرفتار کئے گئے ان کو بھی پانچ سال کی قید کی سزا سنائی گئی
تھی۔
امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مذہبی آزادی کو فروغ
دینے اور مذہبی ایذارسانی کی سچی کہانیاں دنیا کے ساتھ شئیر کرنے کیلئے
انیس ملکوں سے تیس لوگوں کو دعوت دی گئی۔ اس میں مختلف ملکوں سے تیرہ
عیسائی، چین اور برما سے مسلمان، بنگلہ دیش سے ہندو، افغانستان سے ہزارہ
شیعہ، عراق سے یزیدی، ایران سے یہودی اور بہائی، پاکستان سے عبدالشکور
احمدی اور شان تاثیر (سلمان تاثیر کے بیٹے) اور باقی ملکوں سے کچھ لوگ اور
شامل تھے۔ ان کی امریکا کے صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات کرائی گئی اور شکور
بھائی نے ٹرمپ کو صرف وہی بتایا جو ان کے ساتھ ہوا۔ بس۔ مگر یہاں پاکستان
وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوا کہ الامان الحفیظ۔
اگر تو شکور بھائی نے ٹرمپ کے سامنے جھوٹ بولا تو وہ جھوٹ
واضح کیا جائے، اور اگر شکور بھائی نے سچ بولا جس سے آپ کے نزدیک پاکستان
کی بدنامی ہوئی، تو پاکستان کے شکور و تاثیر کی زبانوں کو تالے لگانے کی
بجائے ایسے قوانین ختم کریں جس سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی
ہوتی ہے۔ آپ کا دل ہے کہ آپ مذہبی شدت پسندی اور ظلم بھی کرتے رہیں اور
مظلوم آہ بھی نہ نکالے۔ ایسے نہیں ہو سکتا۔
جس ملک میں انتہا پسند نظریات رکھنے والے، تفرقہ پھیلانے والے
کھلے پھرتے ہوں۔ بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد کہلانے والے دھوپ چھاؤں کی
طرح ادھر ڈوبے، ادھر نکلے کی تصویر پیش کرتے ہوں، وہاں عبد الشکور جیسے
قران بیچنے والے ہی مجرم قرار پائیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
Saturday, 6 July 2019
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
سوپن جھڑے پھول سے
میت چبھے شول سے
لٹ گئے سنگار سبھی باغ کے ببول سے
اور ہم کھڑے کھڑے بہار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی
پاؤں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی
پات پات جھڑ گئے کہ شاخ شاخ جل گئی
چاہ تو نکل سکی، نہ پر عمر نکل گئی
گیت اشک بن گئے
چھند ہو دفن گئے
ساتھ کے سبھی دیے دھواں دھواں پہن گئے
اور ہم جھکے جھکے
موڑ پر رکے رکے
عمر کے چڑھاؤ کا اتار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
کیا شباب تھا کہ پھول پھول پیار کر اٹھا
کیا سروپ تھا کہ دیکھ آئنہ سحر اٹھا
اس طرف زمین اٹھی تو آسمان ادھر اٹھا
تھام کر جگر اٹھا کہ جو ملا نظر اٹھا
ایک دن مگر یہاں
ایسی کچھ ہوا چلی
لٹ گئی کلی کلی کہ گھٹ گئی گلی گلی
اور ہم لٹے لٹے
وقت سے پٹے پٹے
سانس کی شراب کا خمار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سنوار دوں
ہونٹھ تھے کھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں
درد تھا دیا گیا کہ ہر دکھی کو پیار دوں
اور سانس یوں کہ سورگ بھومی پر اتار دوں
ہو سکا نہ کچھ مگر
شام بن گئی سحر
وہ اٹھی لہر کہ دہ گئے قلعے بکھر بکھر
اور ہم ڈرے ڈرے
نیر نین میں بھرے
اوڑھ کر کفن پڑے مزار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے
مانگ بھر چلی کہ ایک جب نئی نئی کرن
ڈھولکیں دھمک اٹھیں ٹھمک اٹھے چرن چرن
شور مچ گیا کہ لو چلی دلہن چلی دلہن
گاؤں سب امڈ پڑا بہک اٹھے نین نین
پر تبھی زہر بھری
گاج ایک وہ گری
پونچھ گیا سندور تار تار ہوئی چنری
اور ہم انجان سے
دور کے مکان سے
پالکی لیے ہوئے کہار دیکھتے رہے
کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے.
گوپال داس نیرج
1925 - 2018علی گڑہ, ہندوستان
Thursday, 4 July 2019
Did England’s King Alfred the Great send two envoys to Christian shrines in India in 9th century?
One of the more intriguing references to early medieval contacts between Britain and the wider world is found in the Anglo-Saxon Chronicle, which mentions a late ninth-century AD embassy to India that was supposedly sent by King Alfred the Great. The following post offers a quick discussion of the evidence for this voyage before going on to consider its potential context and feasibility.
883: Sigehelm and Athelstan took to Rome – and also to St Thomas in India and to St Bartholomew – the alms which King Alfred had vowed to send there when they besieged the raiding-army in London; and there, by the grace of God, they were very successful in obtaining their prayers in accordance with those vows.Needless to say, this passage has been the subject of considerable interest. Some have suggested that “India seems an unlikely destination for two English thanes” and argued that we might thus see India/Indea as a mistranscription of Judea, based on variant forms in MSS B & C. However, whilst possible, this is by no means a necessary assumption, and a reading of Sigehelm and Æthelstan’s intended goal as indeed being India remains commonly accepted. Certainly, a final destination for Alfred’s two emissaries at shrines in India, rather than Judea, would fit well with contemporary Anglo-Saxon knowledge of the two saints mentioned in the Chronicle’s account. As the ninth-century Old English Martyrology attests, both St Thomas and St Bartholomew were said to have been martyred in India in tales that were current in King Alfred’s time; likewise, Cynewulf’s arguably ninth-century Old English poem The Fates of the Apostles explicitly links these two saints with India, and so too do the works of Aldhelm, d. 709, whom King Alfred notably considered England’s finest poet. Furthermore, it may well be that, rather than India being an “unlikely destination for two English thanes”, its remoteness from early medieval England was, in fact, the very point of Alfred’s gift: that, in return for success against a Viking raiding-army that had occupied London, King Alfred had deliberately pledged to send alms to the very furthest-known reaches of Christendom, to the land that was conceived of as mirroring Britain’s position on the very far edge of the known world.
With regard to their intended destination, the usual – and most credible – interpretation of alms being sent to India by King Alfred is that they were being sent to shrines located in southern India. The existence there of an early and notable Syriac Christian community, known usually as Thomas Christians after their claimed founder St Thomas the Apostle, is well-established. Although the exact circumstances of this community’s origins are much debated, there is little doubt that stories of St Thomas’s claimed missionary activity in India were circulating in the Mediterranean world by the third and fourth centuries AD, nor that there was indeed a permanent Christian community established in southern India by at least Late Antiquity. So, for example, the Chronicle of Se’ert is believed to offer plausible testimony for fifth-century Christians in India, referring to a bishop of Rev-Ardashir at coastal Persis (Fars, Iran) sending materials for use among Christians in India in c. AD 470, and Isho’dad of Merv mentions that “Daniel the Presbyter, the Indian”, assisted Mar Koumi in preparing a Syriac translation of a Greek text for Bishop Mari of Rev-Ardashir, something that must have taken place in the early to mid-fifth century. Likewise, two letters of Isho‘yabh III, bishop of Seleucia-Ctesiphon and Patriarch of the Church of the East from 649 to 659, refer to the metropolitan of Fars administering Indian episcopal sees then, and India received its own metropolitan bishop in the seventh century by his hand and then again – possibly after a period in which it was once more under the authority of Fars – in the eighth century.
Even in the Island of Taprobane [Sri Lanka] in Inner India, where also the Indian sea is, there is a church of Christians, clergy and believers... The same is true in the place called Male [Malabar, India], where the pepper grows, and the place called Kaliana, and there is a bishop appointed from Persia...
[Sri Lanka] has a church of Persian Christians who are resident in that country, and a priest sent from Persia, and a deacon, and all that is required for conducting the worship of the church.Even more intriguingly, Gregory of Tours – writing at Tours, France, towards the end of the sixth century – not only recounts a number of significant details regarding the shrine of St Thomas in India in his account of the saint, but also specifies the source of his knowledge of the shrine and church there as someone who had actually visited it, a point of considerable significance in the present context. The account in question is found in Gregory’s Glory of the Martyrs, chapter 31, finished c. AD 590, and runs as follows:
The tomb of the apostle Thomas... [I]n that region of India where he had first been buried there are a monastery and a church that is spectacularly large and carefully decorated and constructed. In this church God revealed a great miracle. A lamp was placed there in front of the spot where he had been buried. Once lit, by divine command it burned without ceasing, day and night: no one offered the assistance of oil or a new wick. No wind blew it out, no accident extinguished it, and its brightness did not diminish. The lamp continues to burn because of the power of the apostle that is unfamiliar to men but is nevertheless associated with divine power. Theodorus, who visited the spot, told this to me.All told, it thus seems clear that there was indeed an early Christian community in southern India that was associated with St Thomas, as per the Anglo-Saxon Chronicle, and which had a shrine and church – “spectacularly large and carefully decorated and constructed” – that visitors carrying alms from north-western Europe might journey to during the early medieval period. If the destination itself is therefore not implausible, what then of the second query outlined above, namely the context of such a visit and how two ninth-century Anglo-Saxons might have travelled to India?
I am black on the outside, covered with wrinkled skin, yet inside I have a glistening core. I season the delicacies of the kitchen: the feasts of kings and extravagant dishes and likewise sauces and stews. But you will find me of no value unless my inwards are crushed for their shining contents.Indeed, in the probably late ninth-century Bald’s Leechbook, written for Anglo-Saxon physicians in King Alfred’s reign, Indian pepper frequently occurs and is, it should be noted, mentioned more times than many native ingredients, being prescribed in more than thirty recipes in the first book alone. Perhaps most famously of all, however, several trade routes leading from western Europe to India and beyond were, in fact, documented during the mid-ninth century in Ibn Khordadbeh’s account of the Jewish Radhanite merchants found in his Book of Roads and Kingdoms:
These merchants speak Arabic, Persian, Roman (i.e. Greek and Latin), the Frank, Spanish, and Slav languages. They journey from West to East, from East to West, partly on land, partly by sea. They transport from the West eunuchs, female slaves, boys, brocade, castor, marten, and other furs, and swords. They take ship from Firanja (France), on the Western Sea, and make for Farama (Pelusium, Egypt). There they load their goods on camel-back and go by land to al-Kolzom (Suez), a distance of twenty-five farsakhs (parasangs). They embark in the East Sea (Red Sea) and sail from al-Kolzom to al-Jar (port of Medina) and Jeddah (port of Mecca), then they go to Sind, India, and China. On their return from China they carry back musk, aloes, camphor, cinnamon, and other products of the Eastern countries to al-Kolzom and bring them back to Farama, where they again embark on the Western Sea. Some make sail for Constantinople to sell their goods to the Romans; others go to the palace of the King of the Franks to place their goods. Sometimes these Jew merchants, when embarking from the land of the Franks, on the Western Sea, make for Antioch (at the mouth of the Orontes); thence by land to al-Jabia (? al-Hanaya on the bank of the Euphrates), where they arrive after three days’ march. There they embark on the Euphrates and reach Baghdad, whence they sail down the Tigris, to al-Obolla. From al-Obolla they sail for Oman, Sind, Hind, and China... These different journeys can also be made by land. The merchants that start from Spain or France go to Sus al-Aksa (Morocco) and then to Tangier, whence they walk to Afrikia (Kairouan) and the capital of Egypt. Thence they go to ar-Ramla, visit Damascus, al-Kufa, Baghdad, and al-Basra (Bassora), cross Ahwaz, Fars, Kirman, Sind, Hind, and arrive in China.In light of all this, it seems clear that Sigehelm and Æthelstan’s claimed late ninth-century journey from England to “St Thomas in India” was not only credible in terms of its proposed destination, as noted above, but also the availability of routes for getting there, to judge both from the continued availability of imports from India (and beyond) in north-western Europe and Ibn Khordadbeh’s testimony as to routes accessible in the ninth century for travelling from West to East and back again (note, a northern trade-route that brought a small number of Indian coins and at least one statuette of the Buddha to eighth- to tenth-century northern Europe and England also existed, but is perhaps less relevant to the present inquiry, not least because King Alfred is said to have sent Sigehelm and Æthelstan with alms for Rome as well as India).
He [Ealhstan, bishop of Sherborne] was followed as bishop by Heahmind, Æthelheah, Wulfsige, Asser and Sigehelm. Both the last two are known to have been bishops in the time of king Alfred, who was the fourth son of Æthelwulf... Sigehelm was sent overseas on almonry duties for the king, even getting as far as to St Thomas’s in India. Something which could cause wonder for people of this generation is that his journey deep into India was a marvellously prosperous one, as he brought back exotic precious stones, in which the land abounds, and some of them can still be seen in precious objects in the church.
Being devoted to almsgiving, he [King Alfred] confirmed the privileges of churches as laid down by his father, and sent many gifts overseas to Rome and to St Thomas in India. For this purpose he dispatched an envoy, Sigehelm bishop of Sherborne, who made his way to India with great success, an astonishing feat even today, and brought with him on his return gems of exotic splendour and the liquid perfumes of which the soil there is productive...This identification of Sigehelm is also briefly alluded to by John of Worcester in the early twelfth-century Chronicon ex Chronicis, in which he states that the “bishop of Sherborne”, Swithelm [sic], “carried King Alfred’s alms to St Thomas in India, and returned thence in safety”. Needless to say, the claim that Sigehelm returned from India bringing with him “exotic precious stones” that “can still be seen in precious objects in the church” suggests that William was basing his account on local traditions at Sherborne. Nonetheless, his identification has been subject to some scepticism on account of the fact that William omits the names of three bishops of Sherborne who come between Asser and Sigehelm in the preserved episcopal lists, and that Sigehelm signs charters as bishop from AD 925 to 932, not in Alfred’s reign, 871–99. Whether these discrepancies are fatal to William’s identification is open to debate, however. The mistaken attribution of Sigehelm’s episcopacy to Alfred’s reign and the omission of three intervening bishops in the Gesta Pontificum Anglorum may simply reflect an attempt by William and/or his source to reconcile a local Sherborne tradition that Sigehelm, bishop of Sherborne, was Alfred’s envoy to India – and that he returned with riches subsequently used to endow the church at Sherborne with, and which could still be pointed out in the early twelfth century – with the dates of King Alfred, working from a false assumption that Sigehelm must have been bishop when he was sent overseas. In this light, it is worth pointing out that Sigehelm could conceivably have both travelled to India in 883 and attested charters from 925–32 if his pilgrimage carrying alms to India for King Alfred took place in his relative youth and he had become the Bishop of Sherborne in his relative old age.
Advertisement
On the other hand, if the early tenth-century
bishop of Sherborne named Sigehelm was not the Sigehelm sent to India
in 883, contrary to what William of Malmesbury appears to have been told
and shown of his supposed spoils from his trip at Sherborne, then
identifying him is significantly more difficult: he could be the western
Kentish ealdorman killed by the Danes in 902, as some have speculated, but he could equally well be another Sigehelm active in the era, either recorded
or otherwise. As to Sigehelm’s companion, Æthelstan, he is even more
obscure, and unfortunately no recorded traditions of his identity
survive. He may be a Mercian priest and chaplain of this name who was
associated with Alfred according to Asser’s contemporary Life of Alfred, but the name is very common
and there are multiple alternative candidates available, including at
least two thegns and an ealdorman active in Alfred’s reign.In conclusion, what can be said of King Alfred’s apparent embassy to India in the 880s? All told, it seems credible that India was indeed the intended destination for the alms carried by Sigehelm and Æthelstan in 883. Not only is this reading of the text the most commonly supported position and backed by the majority of the manuscripts, but it accords well with the identity of the two saints whose shrines were to be visited according to the Anglo-Saxon Chronicle, St Thomas and St Bartholomew: these were both explicitly and repeatedly associated with India in material current in Alfred’s day. Indeed, India’s remoteness from early medieval England could well have been the very point of Alfred’s gift, as noted above, and it would moreover fit with what we know of Alfred’s own intellectual curiosity about the wider world and its limits, as Oliver Pengelly has recently pointed out. Beyond this, it would seem that such a journey would also have a good context. It is clear that there was indeed a permanent Christian community in India from at least Late Antiquity, if not before, and knowledge of a shrine and church dedicated to St Thomas at Mylapore had spread to the west by c. 500; indeed, Gregory of Tours’ account of the church and monastery of St Thomas in India indicates that Sigehelm and Æthelstan would have been by no means the first to visit this shrine in the early medieval era. Furthermore, a journey from western Europe to southern India appears plausible in terms of not only its proposed destination, but also the availability of routes for getting there, given the continued availability of imports from India and Ibn Khordadbeh’s account of ninth-century trans-continental routeways. Finally, whilst the identity of King Alfred’s two emissaries, Sigehelm and Æthelstan, remains uncertain, it can be tentatively suggested that we should be wary of rejecting outright the apparent Sherborne tradition recorded by William of Malmesbury in the early twelfth century that Sigehelm, bishop of Sherborne, was one of those who travelled to India; likewise, it is not impossible that Æthelstan may have been the Mercian priest of that name who appears in Asser’s contemporary Life of Alfred as Alfred’s close confidant.
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
کئی دنوں سے مجھے وہ میسج میں لکھ رہی تھی جنابِ عالی حضورِ والا بس اِک منٹ مجھ سے بات کر لیں میں اِک منٹ سے اگر تجاوز کروں تو بے شک نہ...
-
حضرت علامہ کو خواب میں دیکھا۔ محمد علی جناح کے ساتھ شطرنج کھیل رپے تھے۔ پاس ایک باریش بزرگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے یقین تو نہیں مگر خی...