Thursday, 9 December 2021

اور  فاشسٹوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟  ابن عاصی

اور فاشسٹوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟
 ابن عاصی
موجودہ وزیراعظم عمران دھرنے میں پولیس والوں کو گریبان سے پکڑنے کی دھمکیاں لگایا کرتے تھے، بجلی کے بل جلایا کرتے تھے، اس وقت کے وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کی باتیں کیا کرتے تھے، ملک کے مین اسٹریم میڈیا پر بھارتی فنڈنگ سے چلنے کے الزامات عائد کیا کرتے تھے، شہر کیا پورا ملک زبردستی بند کرنے کے اعلانات کیا کرتے تھے، پولیس کسٹڈی سے زبردستی اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑایا کرتے تھے تو ان کے ٹائیگرز بھی ان کی پیروی میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی بلڈنگوں پر شلواریں سوکھنے کے ڈالتے ہوئے ملتے تھے، ایس پی لیول کے افسروں کو تشدد کا نشانہ بناتے نظر آتے تھے اور میڈیا کی خاتون ورکرز سے انتہائی بے ہودگی کی شرمناک کہانیاں رقم کرتے دکھتے تھے اور ایسے میں اگر ان کے وزیر دفاع پرویز خٹک نے لوگوں کو قتل کرنے پر یہ کہہ دیا ہے کہ
”بچے ہیں، ذرا جذبات میں آ گئے تھے تو قتل وغیرہ ہو گیا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں، اس سے یہ کہنا کہ پاکستان تباہی کی طرف جا رہا ہے بالکل غلط ہے“
یہ صاحب ایسی بات کیوں نہ کریں کہ ان کا لیڈر بھی ایسا ہی ہے جو دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کا اعزاز پاکر امریکیوں کے ہاتھوں مرنے اور سمندر برد ہونے والے اسامہ بن لادن کو بھری پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ”شہید“ کہتا ہے اور ایک بار نہیں کئی بار ایسا کہتا ہے، ایسا لیڈر کہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے طالبان کا پشاور میں دفتر کھولنے کی صلاح دیتا ہے، ایسا لیڈر جو طالبان کے آنے پر ان سے زیادہ مسرور ہوتا ہے جو اے پی ایس کے معصوم بچوں کے قاتلوں کی گرفتاری پر عدالت میں یہ کہہ کر ججز کو حیران کر دیتا ہے کہ
”ان بچوں کے ورثا کو معاوضہ دے دیا ہے اور میں کیا کر سکتا ہوں“
جو اپنے سیاسی مخالفین کی بہو بیٹیوں کو ”شہزادی اور نانی“ کہہ کر ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتا ہے، جو ایک مرد سیاسی مخالف کو ”بلاول صاحبہ“ پکار کر ذہنی تسکین حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے، جو چین کے حکمرانوں کے سے ”اختیارات“ چاہتا ہے جو ایف آئی اے سربراہ کو بلا کر مخالفین پر غداری کے مقدمات درج کرنے کو کہتا اور بشیر میمن صاحب کے انکار پر برہمی سے کہتا ہے
”میرے ساتھ چلو سعودی بادشاہ کے سامنے کوئی نہیں بولتا ہے“
تب اسے بتایا جاتا ہے کہ یہاں بادشاہت نہیں ہے تو وہ مزید تپ جاتا ہے اور میمن ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں، ایسا لیڈر جو ایسا اذیت پسند ہے کہ مخالفین بارے شرمناک کمنٹس پاس کرنے والے اپنے چوہانی رہنماؤں کو ”میرا چیتا“ کہہ کر خوشی سے ان کو گلے لگاتا ہے، جو ایسا عجیب لیڈر ہے کہ اپنے کرپٹوں کو پروں تلے چھپا لیتا ہے اور مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر بھی انہیں لٹکانے کے باتیں کرتا ہے۔ جس کے فیصل واوڈے منافقت کا اعلی شاہکار ہونے کے باوجود مخالفین کو چیرنے پھاڑنے کی سوچ پالے ہوئے ملتے ہیں، جس کے مراد سعید لائیو ٹی شو میں بیٹھے سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کے منہ پر تھپڑ مار دیتے ہیں، جس کے نعیم الحق ٹی وی چینلوں پر آ کر مخالفین پر پانی بھرے گلاس پھینکتے ہیں اور دانیال عزیز سے لوگوں کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیتے ہیں، جس کے علی امین گنڈاپور مخالف سیاسی خواتین کو ”عوام کا مال“ کہتے نہ شرماتے ہیں، جس کی فردوس عاشق اعوان کی غلیظ ترین گفتگو سن کر مرد بھی شرما جاتے ہیں،
جی ہاں ایسا لیڈر جو عدلیہ بارے لفظ ”شرمناک“ استعمال کرتا ہے جو ملک کی ممتاز شخصیات پر پر بھارت سے تعلقات کے جھوٹے الزامات لگا کر ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتا ہے، جو ملک میں انتشار، فساد اور سرکاری اہلکاروں کے قتل تک میں ملوث مذہبی فرقہ وارانہ جماعت کی اپوزیشن دنوں بھی کھلے عام سپورٹ کرتا ہے اور اقتدار میں آ کر بھی ان کے قتل معاف کر کے اپنے سینیٹر اعجاز چودھری کو اس جماعت کے رہنما کو پھول بھیجتا ہے اور اعجاز چودھری کا انتخاب بھی خوب ہے کہ یہ شخص پنجاب اسمبلی کے سامنے کھڑے ہو کر اسے انسانوں سمیت جلانے کی سفاکانہ بات کرتا ہے۔
جی ہاں یہ لیڈر اور اس کے فدائین اس وقت مملکت خداداد پر مسلط ہیں اور ان کی سوچ اور عمل فاشسٹوں سے کم نہ ہیں اور بدقسمتی سے میرے دیس کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہے۔

تلخ حقائق جن سے ہمیں آگاہ نہیں کیا جاتا

تلخ حقائق جن سے ہمیں آگاہ نہیں کیا جاتا

اسلام کی بعثت سے آج تک صرف حضرت عمر کا مختصر سا دور ہے جسے مسلمانوں کیلئے امن اور مذہب کے نفاذ کا دور کہا جاسکتا ہے اور یہ دور صرف دس برسوں پر محیط ہے۔ پیغمبروﷺ کی زندگی میں پہلے مشرقینِ مکہ سے جنگیں درپیش رہیں۔ اس کے بعد یہودیوں کے ساتھ مبارزت درپیش ہوگئی۔ اس سے نجات ملی تو نبوت کے نئے دعویداروں سے نمٹنے کا سخت مرحلہ درپیش ہوگیا۔ اسی دوران جہاں کہیں قبیلے اسلام سے منحرف ہوگئے وہیں کچھ قبیلوں نے ریاستِ مدینہ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔
حضرت عثمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہی شہید کردیے گئے اور یوں انارکی جو جو دور شروع ہوا، وہ  جنگِ جمل اور صفین سے ہوتا ہوا کربلا جیسےسانحے پر منتج ہوا جس میں خود پیغمبرﷺ کے گھرانے کو ہی تہ تیغ کردیا گیا۔ 
معاملہ اس کے بعد بھی تھما نہیں بلکہ مختار ثقفی نے بنوامیہ کیساتھ کربلا والاسلوک پوری وحشت کے ساتھ دہرایا۔ گویا جسے اسلام کہا جاتا ہے ، ان ادوار میں اس کا نفاذ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہونے والی یہ قتل و غارت اور بدامنی کا تعلق خود مسلمانوں کے آپسی اختلافات سے تھا جسے ہم یہودی یا عیسائی سازش بھی نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اسلام دنیا تو ایک طرف خود مسلمانوں کیلئے بھی امن کا باعث بنا ہو۔
مسلم امہ، علماء اور سکالرز اس بات پر متفق ہیںکہ خلافتِ راشدہ یعنی اسلام کے حقیقی نفاذ کا زمانہ معاویہ کے خلیفہ بننے کے بعد ختم ہوگیا تھا اور پھر آج تک بحال نہیں ہوسکا۔ وہ نزع جو حضرت عثمان کی شہادت سے شروع ہوا، اس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پہلے خارجیوں کا فرقہ وجود میں آیا، اس کے بعد شیعانِ علی اور ان کے مخالفین۔ڈیڑھ صدی بعد معتزلہ، اشعری اور ماتریدی وجود میں آگئے اور ان کے بیچ مذہبی مناظرہ بازی کا میدان گرم ہوا۔ اس پر مسرزاد چار امام جوایک دوسرے کے چار مخالف فرقوں کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اس کے بعد رنگا رنگ صوفی فرقے جن میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
اوپر بیان کردہ منظر یہ بتاتا ہے کہ ایک مختصر دور کے سوا اسلام بطور نظامِ حیات کبھی بھی نافذ نہیں ہو پایا اور ماضی قریب یا دورِ حاضر میں اگر کہیں نافذ ہوا بھی تو اس کے نتائج قابلِ تقلید نہیں نکلے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک علماء اور حکمرانوں نے اپنے اپنے گھٹیا مفادات کیلیے مذہب کے نفاذ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اور قوم ان کے ان مفادات کی قیمت چکائے جارہی ہے۔
سعید ابراہیم

Urdu Poetry