Sunday, 27 December 2020

احمد فراز کی غزل، مبشر علی زیدی کی کارروائی

 احمد فراز کی غزل، مبشر علی زیدی کی کارروائی
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
مثال خاک کہیں پہ بکھر کے دیکھتے ہیں (حمیرا راحت)
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے (منیر نیازی)
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں (فیض)
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے (محسن نقوی)
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
چنے ہوئے ہیں لبوں پر ترے ہزار جواب (جون ایلیا)
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
خدا کے بعد تو بے انتہا اندھیرا ہے (احمد ندیم قاسمی)
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے (قمر جلالوی)
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا (جمال احسانی)
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر (عباس تابش)
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
رکی ہوئی ہے ابھی تک بہار آنکھوں میں (پروین شاکر)
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا (ظفر اقبال)
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا (عبید اللہ علیم)
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
جنھیں کہ دیدہ شاعر ہی دیکھ سکتا ہے (جگر)
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں
شب وصال ہے گل کردو ان چراغوں کو (داغ)
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
قبائے جلوہ فزا ہے لباس عریانی (غالب)
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ (انیس)
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
ہماری شہر کے دانش وروں سے یاری ہے (راحت اندوری)
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے (علامہ اقبال)
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر (افتخار عارف)
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں (ساغر صدیقی)
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
زمانہ کود پڑا آگ میں یہی کہہ کر (فراق)
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا (عرفان ستار)
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

No comments:

Post a Comment

Urdu Poetry