Tuesday, 9 November 2021

اقبال کی شاعری

M Sinan Usmani Awan 

اقبال کی نظم "پیام صبح" لانگ فیلو کی نظم" ڈے بریک" کا آزاد ترجمہ ھے اقبال کی نظم "ماں کا خواب " ولیم بارنس کی نظم کا ترجمہ ھے اقبال کی نظم "مکڑا اور مکھی" Mary Haworthکی نظم The Spider and The Fly کا آزاد ترجمہ ہے۔ اصل انگریزی نظم چالیس سطروں ﴿مصرعوں﴾ پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ اقبال کا منظوم ترجمہ ۲۴ اشعار پر مشتمل ہے اقبال کا منظوم ترجمہ " رخصت اے بزم جہاں" ایمرسن کی نظم Good Bye کا منظوم ترجمہ ہے اقبال کی نظم "بچے کی دعا" مٹیلڈا بینتھم ایڈورڈس کی نظم ۔ سے لی گئی ھے۔۔"لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری"۔۔۔ اقبال کی نظم "پرندہ اور جگنو" ﴿۳:۵۹﴾ ولیم کوپر کی نظم The Nightingale And The Glowworm ﴿ کا آزاد ترجمہ ہے۔ یہ ۱۹۰۵ء کے پہلے کی نظم ہے۔ اقبال نے اصل شاعر کا حوالہ نہیں دیا اور نہ دوسرے منظوم ترجموں کی طرح ماخوذ ہونے کی صراحت کی ہے ۔ البتہ مولوی عبدالرزاق نے کلیات اقبال میں لکھا ہے یہ نظم انگلستان کے ایک نازک خیال شاعر" ولیم کوپر" کی ایک مشہور و مقبول نظم " اے نائٹ اینگل اینڈ گلوورم" سے ماخوذ ہے۔ اقبال نے اپنی دونوں نظموں میں ولیم کوپر کی ایک ہی نظم کے خیال کو الگ الگ استعمال کیا ہے، ہمدردی کو ہم ماخوذ قرار دے سکتے ہیں جب کہ "ایک پرندہ اور جگنو" آزاد ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمہ میں مفہوم کو باقی رکھتے ہوئے لفظی ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے اقبال سے پہلے بانکے بہاری لال نے " حکایت بلبل اور شب تاب کی " اور رحیم اللہ نے بلبل اور جگنو کی حکایت کے عنوان سے منظوم ترجمے کئے تھے۔

اقبال - حاشر ابن ارشاد

مائیکل ایچ ہارٹ کی کتاب دی ہنڈرڈ میں دنیا کی تاریخ کے سو بااثر ترین لوگوں کی فہرست میں صرف ایک شاعر ہومر مذکور ہے۔ شکسپئر کا ذکر ڈرامہ نگاری کے حوالے سے ہے۔ جبکہ فہرست میں سائنس دانوں کی بھرمار ہے۔ ہومر کو گذرے لگ بھگ تین ہزار سال ہو گئے ہیں۔ اس دوران کوئی ایک شاعر بھی ہارٹ کو دستیاب نہیں ہوا جس نے انسانی فکر پر گہرا اثر چھوڑا ہو یا زمانے کے چلن کا تعین کیا ہو۔ 

شاعر آپ کی حس جمال کی تسکین کرتا ہے اور یہ بڑا کام ہے۔ انسان جذبات اور احساسات کا پیکر ہے اور شاعری اس صورت گری میں وہ ضرورت ہے جس کے بغیر انسان کی جمالیاتی تشکیل ادھوری رہ جاتی ہے۔ وہ لوگ جو شاعری پڑھتے نہیں ، سمجھتے نہیں، ان کی بدقسمتی گویا طے شدہ امر ہے۔ 

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسانی ترقی، فکری روایت،  شعور اجتماعی کی بنت، معاشرتی اور معاشی عروج میں شاعری اور شاعر کا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ اقبال ہوں، غالب ہوں، میر ہوں یا انیس ہوں ، ان کا دائرہ کار شاعری کے بند دائرے میں ہی اثر پذیر ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ شاعری کی ایک روایت یا جہت کا تعین کرتا ہے۔ 

جتنا اور جس قدر کوئی شاعر کسی کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اقبال بھی اتنا ہی اثرانداز ہوتا ہے۔ پسند ناپسند ذاتی واردات اور قلبی معاملہ ہے۔ اس لیے اس سے بھی بحث نہیں ہے۔ اقبال کی شاعری کو مقصدیت کی جس فضول بھٹی میں جھونک کر ہم نے قوم کے لیے خنجر اور شمشیر بنانے کی کوشش کی اس کا نتیجہ تو یوں بھی سامنے آ گیا ہے۔

ہم شاید اقبال کی شاعری سے مطمئن نہیں تھے اس لیے ہم نے انہیں کئی اور تاج پہنانے کی بھی کوشش کی۔ 

اقبال ایک بڑے شاعر تھے ، اس سے کون کم بخت انکار کر سکتا ہے۔ برصغیر کے دس بڑے شعراء کی فہرست سے کوئی ان کا نام قیامت تک خارج نہیں کر سکتا لیکن وہ عالمی سطح کے شاعر تو کیا، ایشیا کی حد تک بھی عظیم تر شاعر تسلیم نہیں کیے گئے۔ 

 اقبال کو فوق البشر اور رد استعمار کی علامت کا چولا بھی زبردستی پہنایا گیا۔ رد استعمار کی علامت اقبال نہ کل تھے نہ آج ہیں۔ یہ تقریروں کی حد تک مبالغہ آرائئ جائز ہے کہ ان کی شاعری نے مسلمانان ہند کو ولولہ آزادی سے سرشار کر دیا اور ان کی شاعری نے برصغیر میں  آگ لگا دی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

 
اگر  ٹیپو سلطان پر لکھے گئے چند اشعار سے ان کی انگریز مخالفت برآمد کرنی ہے تو مسولینی پر لکھی گئی نظم سے ان کی فاشزم سے محبت بھی نکل آئے گی۔ ویسے ہم نے تو بہت ڈھونڈا ، ہمیں کوئی عنوان ایسا نہ ملا  جو براہ راست انگریز حکومت یا سامراج مخالفت پر مبنی ہو ۔ باقی تشریح کرنے میں تو ان کے اشعار سے یار لوگوں نے جوہری توانائی کا فارمولا بھی نکال لیا ہے۔

 
ملکہ وکٹوریا کے قصیدے کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ اقبال اس وقت نادان تھے۔ جارج پنجم کے قصیدے پر نظر کریں تو کندھے پر ہاتھ رکھ کر بتایا جاتا ہے کہ یہ تو ایسے ہی ایک دوست کی فرمائش پر لکھ دیا تھا۔ ٹیپو پر لکھے گئے سے اگر ان کی انگریز دشمنی ثابت ہوتی ہے تو بھگت سنگھ ، اشفاق اللہ خان اور چندر شیکھر آزاد پر ان کی خاموشی سے انگریز محبت کی دلیل بھی نکالی جا سکتی ہے۔ 

 
جلیانوالہ باغ کا سانحہ پنجاب میں ہوا تو بنگال میں ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا ۔ اقبال تو اسی پنجاب کے بیٹے تھے لیکن وہ اس وقت شہنشاہ برطانیہ کا قصیدہ لکھتے رہے۔ اپنے گھر میں  بیتی اس قیامت پر ایک لفظ ان کے قلم سے نہ ٹپکا اور بعد میں اسی خون آشام سامراج سے ملنے والا  سر کا خطاب ایک اعزاز کی طرح وہ قبر میں ساتھ لے کر گئے۔

ابھی دلی اور لاہور کے طالب علم جب جبر واستبداد کے خلاف بسمل صابری اور فیض کی نظموں کے پرچم بنا کر باہر نکلے تھے تو کسی کو اقبال کا کوئی شعر اس موضوع پر کیوں نہیں ملا۔ 47 سے پہلے کی تحریک آزادی میں اقبال کی کون سی نظم عوام گاتے پھرتے تھے ؟ اقبال کی شاعری نہ اس وقت عوامی تھی نہ اب ہے۔ نہ وہ اس وقت سامراج مخالفت میں گلیوں میں بلند ہوئی تھی نہ اب ہوئی ہے۔ یہ دعوی کہ تحریک آزادی میں ان کی شاعری کا کوئی کردار تھا ، سراسر مبالغہ ہے۔  

رہا مفکر پاکستان ہونے کا الزام تو اس کی تردید اقبال نے ای تھامپسن کو لکھے گئے خط میں خود کر دی تھی۔ باقی جس کا دل کرے ، خطبہ الہ آباد خود پڑھ لے تاکہ تسلی ہو جائے۔  فرزند اقبال بھی ساری عمر لوگوں سے پوچھتے رہے کہ کوئی انہیں بھی بتا دے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے کس شب کو دیکھا تھا۔ 

فلسفے کی دنیا میں بھی ان کی کوئی فکری روایت عالمی منظر نامے پر توجہ نہیں پا سکی۔ جرمن فلسفے کو اسلام کا لبادہ اوڑھانا کوئی ایسا بڑا کارنامہ نہیں تھا۔ تو لے دے کر ایک شاعری ہی بچ جاتی ہے۔ اس پر شخصی سطح پر یا معاشرے پر اثر کے پیمانے پر  دنیا تو چھوڑیں، پاکستان میں بھی انہیں ڈاکٹر عبدالسلام یا ایدھی کے قد کے برابر بھی رکھنا ممکن نہیں۔ شعری روایت میں غزل میں غالب اور نظم میں ن م راشد کا کینوس ان سے کہیں وسیع ہے۔ 

اقبال دراصل ہمارے فکری افلاس کے لیے ایک زنبیل کا کام کرتے ہیں جس میں ہم سیاست، فلسفہ، شاعری اور مذہبی علم سب ڈال کر ایک عبقری برآمد کر کے اپنی تسلی کر لیتے ہیں کہ مشاہیر زمانہ کے مقابلے میں ہمارے پاس کیا ہمہ جہت شخص موجود ہے وہ الگ بات ہے کہ نہ عالم کو اقبال کی خبر ہے نہ زمانے کو۔ 

آج ان کی سال گرہ ہے۔ میں انہیں ایک اچھا شاعر سمجھتا ہوں لیکن اس سے بڑھ کر ان کی تحسین میرے لیے ممکن نہیں ہے، اس لیے مجھے معاف رکھیے۔ یہ سب بھی اس لیے لکھا کہ ان کی خاطر خواہ تعریف نہ کرنے پر دوست صبح سے خفا خفا پھر رہے ہیں۔ 

آپ بہرحال اپنا بت بنانے میں آزاد ہیں۔ ویسا ہی جیسے ایک تھکے ماندے نیم استراحت کرتے اقبال کے ہاتھ میں قرآن رکھ کر مصور نے بنایا ہے۔

Wednesday, 3 November 2021

نیا مطالعہ پاکستان

‏" نیا مطالعہ پاکستان"

ریاست پاکستان ایشیا کے جنوب میں واقع ہے
اس کا کل رقبہ جتنا بھی ہے سب پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن  
رہی ہیں

ریاست کا پوار نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اسلام اور جمہوریت دونوں سے ہی محروم ہے

ریاست کے جھنڈے میں دو رنگ ہیں
سبز رنگ مولویوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا
‏ہے اور سفید رنگ اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری کو ظاہر کرتا ہے

چاند ستارے سے مراد یہ کہ ریاست کے کرتا دھرتا صرف وہی ہیں جن کی وردی پہ چاند ستارہ بنا ہوا ہے

ریاست چار باقاعدہ اور ایک بے قاعدہ صوبے پر مشتمل ہے

ریاست پاکستان 1947 میں انگریزوں سے آزاد ہوئی
مگر انگریزوں کے غلاموں سے تاحال
‏آزاد نہیں ہو سکی

اور آزادی کیلئے کوئی بھی کوشش جاری نہیں ہے
کہ ریاستی عوام کو روٹی ،کپڑا اور مکان کی بنیادی ضروریات کا اسیر بنا کر رکھا جا رہا ہے

ریاست پاکستان درحقیقت کئی سو ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے
جہاں ہر ریاست کے اپنے اپنے قوانین ،قاعدے اور ضابطے ہیں

اگر ایک ریاست دوسری ‏ریاست کے معاملے میں ٹانگ اڑائے تو ٹانگ توڑ دی جاتی ہے

جیسا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے
کہ ریاست پاکستان کی ایک ہمسایہ ریاست ہے "ریاست لال مسجد"

ریاست لال مسجد نے ایک بار ریاست پاکستان کی رٹ کو چیلنج کیا

جواب میں ریاست پاکستان نے اس پہ حملہ کر دیا

جواب میں ریاست پاکستان کے گیارہ سپاہی‏موقع پر مار دئیے گئے

اور پھر پوری ریاست پاکستان میں خود کش دھماکوں سے ریاست کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی
وہ تو شکر ہے ریاست کے اصل محافظوں نے اسے جوں توں کر کے بچا لیا

آج کل ریاست پاکستان کے ریاست لال مسجد سے بہت اچھے تعلقات ہیں

ایسی ہی ایک ریاست " ریاست سندھ" ہے ،اس پر ‏پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے

اس ریاست کے شہری بری حالت میں ہیں۔ ریاست کی حکومت ظالم اور کرپٹ ہے۔ مگر ریاست پاکستان اس ریاست کے شہریوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی

کیونکہ ریاست سندھ مزید آزادی کے نعرے لگانا شروع کر دیتی ہے

ایسی ہی ایک ریاست خادم رضوی نے 2017 میں قائم کی جس کا دارلخلافہ ‏لاہور ہے

اس ریاست کا نام لبیک ہے
اس نے ریاست پاکستان پہ چھ حملے کئے مگر ہر بار ریاست پاکستان نے مذاکرات کے ذریعے ان کو رام کیا
اور اپنی عوام کو ان کے شر سے نہ بچا سکی
اپنے دس پولیس والے مروا کر قاتلوں کو محفوظ راستہ دینے پر مجبور ہو گئی

ایسے ہی اور بھی بہت سے مولوی ہیں جنہوں ‏نے اپنی اپنی الگ ریاستیں بنا رکھی ہیں

اگر ریاست پاکستان کبھی ان کے معاملات میں مداخلت کی کوشش بھی کرے تو یہ مدارس کے سپاہی لے کر سڑکوں پہ نکل آتے ہیں

اور ریاست پاکستان کا سانس بند کر دیتے ہیں

مزے کی بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان ایٹمی طاقت بھی ہے
ریاست کے اندر تمام ادارے بھی الگ ‏ریاستوں کی حیثیت رکھتے ہیں کہ کوئی بھی ادارہ ریاست پاکستان کے کنڑول میں نہیں ہے

اور دور دور تک اس کے کوئی امکانات بھی نہیں ہیں

ریاست پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت ہے
مگر گندم باہر سے امپورٹ کی جاتی ہے

دفاع اس قدر مضبوط ہے کہ چھ گنا بڑے ملک انڈیا کو دن میں تارے دکھا سکتا ہے ‏اور کمزور اتنا ہے کہ چار مولوی کہیں نکل آئیں تو قابو نہیں آتے

ریاست کے تاجر عوام کو جی بھر کر لوٹتے ہیں
مگر ریاست کو ٹیکس دیتے ہوئے انہیں باقاعدہ موت پڑتی ہے

ریاست کی سب سے بڑی صنعت مذہب ہے

دوسرے نمبر پہ سیاست اور تیسرے نمبر پہ تعلیم ہے

صحت اور انصاف بھی بڑے کاروباروں میں شمار‏ہوتے ہیں

ریاست کا آئین جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے

اور دستور کے مطابق جنگل کا قانون نافذ ہے

ریاست کا معاشی ڈھانچہ ایسا ہے
کہ امیر ،امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے
ریاست پاکستان کو چلانے والے سب لوگ اس ریاست سے اتنی محبت رکھتے ہیں

کہ سب نے دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کر رکھی ہے ‏جیسے ہی اقتدار یا عہدے سے فارغ ہوتے ہیں فوراً اپنے اصلی ممالک کو روانہ ہو جاتے ہیں

ریاست میں رشوت لینا اور دینا لازم ہے
ورنہ آپ کا معمولی سا کام بھی اٹک جائے گا

ریاست کا عام آدمی اگر دفاعی اداروں کو برا بھلا کہے تو گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے

مگر کوئی چور اچکا یا بڑا مجرم جتنی مرضی‏مدر سسٹر کر دے
کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی

ریاست میں امن و امان صرف طاقتور کو دستیاب ہے
غریب آدمی اللہ آسرے پہ زندہ ہے

ریاست بڑے مجرموں کو وی آئی پی پروٹوکول دیتی ہے
اور چھوٹے مجرموں کو جوتے مارتی ہے

انصاف ،تعلیم اور صحت اوقات کے مطابق دی جاتی ہے

اگر آپ پاکستانی شہری ہیں تو ‏آپ عظیم انسان ہیں

آپ دنیا میں ہی اتنی تکلیفوں سے گزر جائیں گے کہ آخرت ان شاءاللہ بھلی ہو گی

بس ایک احتیاط رکھیں

اس ملک میں عاشق رسول بہت زیادہ ہیں، ان سے بچ کر رہیں
ورنہ آپ کو مارا جا سکتا ہے

اور آپ کی دکان جلائی جا سکتی ہے!
منقول

Tuesday, 2 November 2021

پاکستان اور مولبی 😅 قمر نقیب

پاکستان میں ذاتی دشمنیاں نمٹانے اور دوسروں کے خلاف اپنے نفرت بھرے مذہبی جذبات کی تسکین کے لئے توہین مذہب یا توہین رسالت کے الزامات لگا دئیے جاتے ہیں۔ کوئی اہل سنت ہو تو توہین رسالت کا الزام، کوئی اہل تشیع ہو تو توہین صحابہ کا الزام. اتنے سنگین مسئلہ کو لوگوں نے بہت ہلکا لینا شروع کر دیا ہے، اوریا مقبول جان اور عامر لیاقت جیسے نامور صحافی میڈیا پر بیٹھ کر بہتان اور الزام تراشی کرتے ہوئے اللہ سے  ذرا نہیں ڈرتے۔ ایسے نوے فیصد الزامات عدالتی سطح پر ثابت نہیں ہوتے، جو ثابت ہو جاتے ہیں ان کے ملزمان کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے، ان کی سزاؤں پر تقریباً کبھی بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ کسی پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا، مقدمہ درج ہونے اور عدالت میں پیش ہونے کی نوبت ہی نہ آئی اور مشتعل ہجوم نے اسے تشدد کر کے قتل کر دیا۔

ایسے میں پولیس موقع  پر  پہنچ بھی جائے تو بھی ملزم کو بچا نہیں سکتی، ایک بار ضلع شیخوپورہ کے گاؤں مکی میں ایک ان پڑھ مسیحی جوڑا کہیں سے پرانا پینافلیکس اٹھا لایا، جس پر مختلف کالجوں کے نام اور سلوگن لکھے تھے۔ مسیحی جوڑا سونے کے لیے اس پینا فلیکس کو بطور بستر استعمال کرنے لگا، کچھ دن بعد ان کے حجام پڑوسی کی نظر پڑ گئی، اس حجام نے دو لوکل مولویوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اس مسیحی جوڑے پر توہینِ مذہب کا الزام لگا دیا. ارد گرد آبادی کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اس غریب جوڑے کو مار مار کر گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے، ان پڑھ غریبوں کو پتا بھی نہیں تھا کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ قریب تھا کہ وہ ہجوم اس جوڑے کی جان لے لیتا کہ پولیس آفیسر سہیل ظفر چٹھہ نے بروقت مداخلت کی اور اس مظلوم جوڑے کو ہجوم کے ہاتھوں مرنے سے بچا لیا، مولوی کو گرفتار کر لیا گیا اور حجام بھاگ گیا. لیکن قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن کا مسیحی جوڑا اتنا خوش قسمت نہیں تھا، نومبر 2014 میں قرآنی آیات کی بےحرمتی کا الزام لگا کر اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مسیحی میاں بیوی شہزاد اور شمع کو اسی اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ وہ لگ بھگ پندرہ سو لوگوں کا ہجوم تھا جس نے پہلے ان دونوں پر اینٹوں، پتھروں اور ڈنڈوں کی بارش کر دی اور پھر جب ان دونوں میں ایک رمق زندگی باقی رہ گئی تو انہیں اسی بھٹے میں زندہ جلا دیا.

مولوی کو گستاخی ثابت کرنے کے لیے کسی وجہ کی، کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اس مُلک کا  دادا ہے ، وہ اس شہر کا بھائی ہے، حکومتی ادارے بھی مولویوں کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتے، یاد ہے جب پیمرا نے حمزہ عباسی کے پروگرام پر پابندی لگائی تھی؟ شائستہ واحدی کا شو بند کیا گیا تھا؟ لہٰذا آپ کو جہاں بھی ایسے انتہا پسند مولوی نظر آئیں، ایمان اور جان بچا کر بھاگیں، مولویوں سے بحث نہیں کرنی، یہ لوگ گالی دے کر، الٹی سیدھی کرامات سنا کر آپ کو غصہ دلائیں گے، پھر آپ کچھ بھی کہیں وہ آپ کے خلاف چارج شیٹ ہو گی، یہ آپ پر گستاخی کا الزام لگا کر قتل کرا دیں گے، یہی ان کا طریقہ واردات ہے.

یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی گستاخ گستاخ کھیلتے رہتے ہیں. اور کبھی کبھار خود اسی گڑھے میں اوندھے منہ گِر جاتے ہیں، چیچہ وطنی تھانہ غازی آباد کے نواحی علاقے میں مقامی مسجد کے خطیب محسن ارشاد جوش خطابت میں کچھ کا کچھ بول گیا. علاقہ مکینوں نے اس گستاخی پر احتجاج کیا، اور محسن کو علاقہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ “آج تک” ٹی وی کے جرنلسٹ روہت سردانا پر بھی یہ الزام تھا کہ اس نے گستاخی پر مبنی کچھ ٹویٹس کی تھیں، مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ندیم جیمز پر بھی الزام تھا کہ اس نے پیغمبر اسلام سے متعلق ایک متنازعہ نظم اپنے ایک قریبی دوست کو واٹس ایپ پر بھیجی تھی اور وہ دوست فون اٹھا کر تھانے پہنچ گیا. اسلام آباد کی بارہ سالہ رمشا مسیح تو آپ کو یاد ہی ہو گی جس پر قرآنی صفحات جلانے کا الزام لگایا گیا تھا، بالآخر اسے بھی فیملی سمیت پاکستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا. لیکن اگر آپ کو پاکستان سے زندہ بھاگنے کا موقع مل گیا ہے تو واپس آنے کی غلطی مت کریں.  آپ دس سال بعد بھی اگر واپس آئے تو مارے جائیں گے، سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں فضل عباس نامی شخص پر گستاخی رسول کا الزام لگا تھا اور وہ جان بچا کر بیرون ملک بھاگ گیا، تیرہ سال بعد وہ پاکستان واپس آیا تو اسی کے محلے کی رہائشی تین بہنوں نے اسکے گھر میں گھس کر فضل عباس کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

آسیہ بی بی، مشہور زمانہ کیس ہے. آسیہ کا تعلق ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے اِٹانوالی سے تھا، وہ پانچ بچوں کی ماں تھی. آسیہ بی بی نے ایس پی انویسٹیگیشن شیخوپورہ محمد امین شاہ بخاری اور مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعترافِ جرم کیا اور کہا کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے، لہٰذا اسے معاف کردیا جائے۔ آسیہ بی بی نے اپنے خلاف مقدمے کے مدعی قاری سالم سے بھی معافی مانگی، لیکن قاری کی طرف سے مؤقف اپنایا گیا کہ توہین رسالت کے مجرم کو معافی نہیں دی جا سکتی۔ وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا، گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے بھی شیخوپورہ جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات کی آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ وہ آسیہ بی بی کو صدر آصف علی زرداری سے معافی دلوانے کی کوشش کریں گے۔ سلمان تاثیر نے 295 سی پر بھی تنقید کر دی جس سے ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ پھر ایک دن سلمان تاثیر کے گارڈ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو موت کے گھاٹ اتار دیا.

 کراچی سے ایک تبلیغی جماعت چِلّے کے لیے نکلی، مرکز سے جماعت کی تشکیل چنیوٹ سے بیس کلومیٹر دور ایک گاؤں موضع عاصیاں میں ہوئی. عصر کی تعلیم کے حلقے میں حافظ اکرم خان عاصی ولد شیر خان کی تبلیغی جماعت کے افراد سے بحث چھڑ گئی. اس وقت مسجد کے باقی افراد نے معاملہ رفع دفع کر دیا. حافظ اکرم مسجد سے نکلا اور اپنے مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھنے چلا گیا. مولانا نے بتایا کہ یہ تو سراسر گستاخی ہے اور تبلیغی جماعت کے لوگ گستاخ ہیں. اکرم گھر واپس آیا اور زمین کھودنے والا تیز دھار پھاؤڑا اٹھا کر مسجد کی طرف روانہ ہو گیا. رات کے پچھلے پہر مسجد میں سوئے ہوئے تبلیغی جماعت کے تیرہ افراد پر اکرم نے حملہ کر دیا. پہلی ضربیں ولی الرحمان کے سر اور گردن پر پڑیں، ولی الرحمان کا کام تمام ہوا تو اس کے ساتھ سوئے عبداللہ پر پھاؤڑے کے وار شروع کر دئیے. اسی اثنا میں شور شرابا سن کر باقی افراد اٹھ گئے اور چار پانچ  لوگوں نے  حافظ اکرم کو دبوچ لیا. دو مزید جانیں ضائع ہوئیں مگر ہم نے کچھ نہ سیکھا.

پشاور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں ایک ملزم کو قادیانی گستاخ قرار دے کر قتل کر دیا گیا، خوشاب نیشنل بینک کے منیجر محمد عمران کو سکیورٹی گارڈ نے گستاخی کا الزام لگا کر گولی مار دی، حالانکہ بینک منیجر نے صرف اتنا کہا تھا کہ فرض نماز پڑھو اور اپنی ڈیوٹی کرو. سنتیں اور نوافل کوئی ضروری نہیں. ابھی دو ماہ قبل صادق آباد میں پولیس کانسٹیبل حافظ وقاص نے توہینِ رسالت کے الزام میں تین سال بعد جیل سے ضمانت پر رہا ہونے والے شخص کو ٹوکے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، بھائی بچانے آیا تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا.. 

گستاخی کیا ہے، گستاخی کا تعین کون کرے گا، گستاخی کی سزا کیا ہے، سزا پر عملدرآمد کون کرے گا؟ ان تمام سوالات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنا عشق رسول ثابت کرنے کے لیے ہم جلاد بنے ہوئے ہیں.
ہمیں اپنے معاشرے پر نظر کرنی چاہیے. اصل گستاخی تو یہ ہے کہ کسی ملزم کو صفائی پیش کرنے کا موقع ہی نہ دیا جائے. گستاخی تو یہ ہے کہ رحمت للعالمین کے نام لیوا وحشت اور بربریت سے معصوم لوگوں کی جان لے لیں. گستاخی تو یہ ہے کہ بچے اور بچیاں بھی ہماری جنسی درندگی کا شکار بن جائیں. گستاخی تو یہ ہے کہ ملک کی چھیانوے فیصد عوام مسلمان ہو اور پھر بھی عدل و انصاف ناپید ہو جائے.

Urdu Poetry