Friday, 30 October 2020

کیا روضہ رسول میں جانا ممکن ہے ؟؟؟کیا روضہ رسول میں جانا ممکن ہے ؟؟؟

 

کیا روضہ رسول میں جانا ممکن ہے ؟؟؟
ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے کہ سعودی حکام نے چیچن صدر رمضان قدیروف کیلئے بارہ ربیع الاول کے روز روضۂ رسولؐ کھول دیا۔ جس میں صدر صاحب کو پردے سے لپٹ کر روتے اور درود و سلام پیش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والے مناظر کو اس دعوے کے ساتھ سوشل میڈیا میں خوب پھیلایا جا رہا ہے:”تاریخ میں پہلی بار روضۂ اطہر کی عکس بندی ہوئی ہے، جسے دیکھ کر اپنے ایمان کو جلا بخشیں۔“ اس لئے ضروری خیال کیا کہ اس حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے کہ کیا یہ واقعی قبر مبارک والے حجرہ شریف کے اندرونی مناظر ہیں؟ کیا موجودہ زمانے میں سعودی حکام سمیت کسی نے بھی روضۂ اطہر کو دیکھنے کی سعادت حاصل کی ہے؟ یقینا گنبد خضرا وہ گنبد ہے، جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے دل میں گنبد خضرا کی زیارت کی خواہش انگڑائی نہ لیتی ہو۔ قبر اطہر پر یہ گنبد مملوک سلطان سیف الدین قلاوون کے دور 1279ءبمطابق 678ھ میں تعمیر کروایا گیا۔ اصل ساخت میں لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ ہر نئے حکمران کی طرف سے بحالی کے کاموں کے دوران اسے مختلف رنگ کئے جاتے رہے۔ 1481ءمیں مسجد نبوی میں آگ لگی، جس کے نتیجے میں گنبد بھی جل گیا۔ گنبد کی دوباہ تعمیر کا کام مملوک سلطان قائتبائی نے شروع کیا۔ اس مرتبہ ایسے حادثات سے بچاﺅ کےلئے لکڑی کے بجائے اینٹوں کا ڈھانچہ بنایا گیا اور لکڑی کے گنبد کی حفاظت کےلئے سیسہ کا استعمال کیا گیا۔ سولہویں صدی میں عثمانی سلطان سلیمان اعظم نے گنبد کو سیسے کی چادروں کے ساتھ مڑھوایا، پھر 1818ءمیں عثمانی سلطان محمود بن عبد الحمیدؒ نے اسے سبز رنگ کروایا۔ اس کے بعد سے یہ ایسا ہی ہے۔ اسی سبز رنگ کی وجہ سے اسے ”گنبد خضرا“ اور ”القبة الخضرا“ (Green Dome) کہا جاتا ہے۔ یہ گنبد فن تعمیر کا ایک شاہکار ہونے کے ساتھ مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ 1925ءمیں جب آل سعود نے مدینہ منورہ کو فتح کیا تو مقامی علما کے حکم پر جنت البقیع میں قبور پر بنے تمام گنبد گرا دیئے گئے۔ کیونکہ شرعاً قبروں پر گنبد وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔ پھر انہوں نے گنبد خضراءکے بھی انہدام کا ارادہ کیا۔ جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی۔ مختلف ممالک کے علما نے انہیں منع کیا تو انہوں نے مناظرے کا چیلنج دیا۔ اس دوران ہندوستان سے بھی علما کا ایک وفد سعودی عرب پہنچا۔ شامی، عراقی اور ترک علما پہلے سے موجود تھے۔ تمام علما نے مناظرے کیلئے ہندوستانی وفد کے رکن علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو آگے کردیا۔ انہوں نے ناقابل تردید دلائل سے عرب علماء کوقائل کرلیا کہ گنبد خضراءکو نہیں گرایا جاسکتا۔یوں گنبد خضراءکے انہدام کا ارادہ ملتوی کردیا گیا۔ خدا کے محبوب نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰؐ کے روضہ مبارک پر قائم اس گنبد خضرا کے نیچے اور روضہ شریف کے اندر کیا ہے، اس کے متعلق کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی جعلی تصاویر گردش میں رہتی ہیں۔ انواع و اقسام کی قبروں کو قبر رسول کے نام سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی آدمی کی تصویر اس دعوے کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے کہ یہ روضہ رسول کے خادم ہیں اور قبر مبارک کی صفائی کی خدمت پر مامور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سب دعوے بے بنیاد اور مصنوعی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ روضہ شریف کے اندر کیا ہے؟ کیا کوئی قبر مبارک تک رسائی رکھتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات کچھ عرصہ قبل سعودی حکومت نے باضابطہ طور پر دیئے ہیں اور اندرونی ہال کی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں، جن سے سب خرافات اور بناوٹی باتوں کا قلع قمع ہوتا ہے۔ آنحضرت کا وصال ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ مبارک میں ہوا تھا اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔ اس کے بعد پھر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی وہاں مدفون ہوئے۔ اس طرح روضہ شریف کے اندر اس وقت تین قبریں ہیں۔ اس طرح کوئی بھی ایسی تصویر جس میں صرف ایک قبر ہو، وہ کسی صورت رسول اقدس کے مرقد شریف کی نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی خدا کا شکر کہ آپ کی قبر مبارک کی کوئی تصویر دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔ وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحابؓ کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے، جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے بنوائی تھی اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں، لہٰذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ روضہ رسول کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔ قبر مبارک کی صفائی کے متعلق بھی بہت سی کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں۔ یہ بھی سو دس فیصد جھوٹ ہیں، کیوں کہ اندرونی دیواروں میں دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے قبر مبارک تک رسائی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ تاہم ان دیواروں کے ساتھ اور جالیوں کے پیچھے کی صفائی کی جاتی ہے، لیکن اس کےلئے کوئی وقت متعین نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی شخص مقرر ہوتا ہے، بلکہ ایک جماعت کی صورت میں کچھ لوگ آتے ہیں اور کسی بھی خادم کو پکڑکر ان جالیوں کے متصل پیچھے اور دیوار کے ساتھ صفائی کروائی جاتی ہے، جتنی مٹی وغیرہ جمع ہو، اسے ایک لفافے میں ڈال کے وہ ساتھ لے جاتے ہیں، تاکہ لوگ اس کو حاصل کرنے کے فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔ روضہ رسول پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضرت کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے، لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔ گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے، سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ السمہودیؒ کے بیان کے مطابق وہ خود۔ مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ سرور کونین کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے، یعنی جنت البقیع کی سمت۔ یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمة الزہرہؓ کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔ العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی، جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔ 91 ہجری سے 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا تھا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودیؒ مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ (ہمارے بچپن کے دوست منیب حسین کے مطابق علامہ سہمودی مدینہ طیبہ کے مفتی تھے۔ منیب حسین عرب امور کے ماہر اور محقق عالم دین ہیں) علامہ سمہودیؒ لکھتے ہیں کہ 14 شعبان 881ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اقدس اور آپ کے دونوں خلفائے راشدینؓ کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا اُبھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر فاروقؓ کی قبر مبارک تھی۔ مقدس قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ السمہودی نے اپنی کتاب میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبویؐ کے فرش سے تقریباً 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔ اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی، جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا، جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے حجرے کی چھت پر واقع اس گنبد کے حوالے سے بڑی عجیب بات لکھی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں شدید قحط سالی ہوگئی تو لوگوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے شکایت کی تو انہوںنے فرمایا کہ اپنے نبی کی قبر کے اوپر چھت کھول دو، تاکہ اس کے اور آسمان کے مابین کوئی پردہ نہ رہے۔ چنانچہ صدیقہؓ کے حجرے کی چھت قبر اطہرکے اوپر کھولی گئی تو موسلادھار بارش سے مدینہ منورہ جل تھل ہوگیا۔ اس سال اتنی بارش ہوئی کہ ہرطرف ہریالی ہوگئی، اونٹ خوب موٹے ہوگئے تو اس سال کا نام ہی ”عام الفتق“ پڑ گیا۔ (ابن حجرؒ نے یہ روایت مشکوٰة شریف کی شرح 362/5 میں نقل کی ہے) روضہ اطہر سے متعلق مذکورہ بالا معلومات معروف کتاب ”وفاءالوفاءبا اخبار دار المصطفیٰ“ کے مولف السمہودیؒ نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں۔ مسجد نبوی، حجرہ شریف اور قبر مبارک کے حوالے سے یہ کتاب سب سے مستند حوالہ ہے۔ یہاں تک کہ وکی پیڈیا میں روضہ اطہر سے متعلق درج تمام تفصیلات بھی اسی سے اخذ شدہ ہیں۔ اس کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ سے متعلق تمام معلومات جمع کی گئی ہیں۔ علامہ السمہودیؒ کی وفات 911 ہجری میں ہوئی۔ 881 ہجری یا 1477 عیسوی سے لے کر اب تک تقریباً ساڑھے پانچ سو سال کے عرصے میں کوئی انسان آنحضرت کی قبر مبارک کی زیارت نہیں کر سکا ہے۔ تو چیچن صدر کہاں سے قبر مبارک تک پہنچ گئے؟ جہاں تک صدر صاحب کو لے جایا گیا، یہ سیدہ فاطمہؓ کی محراب والا کمرہ ہے۔ وہاں سے آگے روضہ اطہر تک مزید چار دیواریں اور ہیں۔ جیسے کہ آپ نقشے میں دیکھ سکتے ہیں۔

https://www.facebook.com/profile.php?id=100009666136877&__cft__[0]=AZU3uegC3DavmFniMuRxzxnEiAtcafzjVOVmOcl49oLWA3OG9vCpPIWSw6kX4vzoE-l4uJWUWF0mTxkuPlKMqlLsb1L3df6VedDYlPlvFusUiNjuZD6CZdwgK35TwicYpc0&__tn__=-UC%2CP-R

Sunday, 11 October 2020

مقتول (مبشر علی زیدی)

 مقتول

(مبشر علی زیدی)
۔
پولیس کے محرر نے
قتل کی ایف آئی آر لکھ لی ہے
حاکم کے ترجمان نے
قاتلوں کی فوری گرفتاری کے حکم والا بیان تیار کرلیا ہے
اپوزیشن لیڈر نے
مذمتی بیان ریکارڈ کروادیا ہے
چیف جسٹس ازخود نوٹس لینے کا اعلان کرنے والے ہیں
اخبار کے ایڈیٹر نے
خون آلود شہہ سرخی بنالی ہے
اس سانحے کی
جو ابھی رونما نہیں ہوا
لیکن سب کو یقین ہے
کہ وہ ضرور ہوگا
جلد ہوگا
میں نے بھی ایک نوحہ کہہ ڈالا ہے
اس شخص کے لیے
جسے مناسب موقع پر
قتل کردیا جائے گا
میں نے اس نوحے میں
مقتول کا نام نہیں لکھا
کیونکہ ابھی اسے قتل نہیں کیا گیا
نام کے بجائے
ایک نمبر ڈال دیا ہے
اس نمبر سے پہلے کئی ہزار نمبر ہیں
اور اس کے بعد بھی کئی ہزار نمبر آئیں گے
میں نے اس نوحے میں
مقتول کا پیشہ نہیں لکھا
لیکن وہ کوئی عالم ہوگا یا استاد
کیونکہ ان کے رونے والے زیادہ ہوتے ہیں
میں نے مقتول کا مسلک نہیں لکھا
لیکن یقین ظاہر کیا ہے کہ
قتل کا سبب یہی ہوگا
کیونکہ کسی اور وجہ سے قتل کرنے میں
اتنا ثواب نہیں ملتا
اتنا لطف بھی نہیں آتا
میں نے اس نوحے میں
قتل کا الزام
سرحد پار کے قاتلوں پر لگایا ہے
کیونکہ وہ کبھی پکڑے نہیں جاتے
ملک کی کئی سرحدوں میں سے
قاتل کی سرحد کا تعین
قتل کے بعد کیا جائے گا

Thursday, 8 October 2020

اگرگھربیٹھ کرمیری زمین پر قبضہ کرسکتےہیں توگھر بیٹھے پیسے بھی دے دینے چاہیں





 1996
کوئٹہ میں 4ایکڑ زمین لی، کاغذات تیارکروائےجب اپنی زمیں پرگھربنانےکی پلاننگ کی توآرمی کیطرف سےمجھےروک دیاگیااور میری اپنی زمیں پرمجھےداخل ہونےسےمنع کردیاگیا،میری طرح اورکئی لوگ جووہاں زمین کے مالک تھےانکواپنےحق سےمحروم ہوناپڑا۔وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ فائرنگ رینج ہےوغیرہ وغیرہ 
اب اسی زمیں پرڈی ایچ ایےبن رہا ہے،جنرل سلیم باجوہ میرے دوست ہیں،2016میں جب کینیڈا شفٹ ہواتواس سےپہلےمیں نے انکوایک کال کی اوربتایاکہ میری کوئٹہ والی زمیں کاکیابنےگا؟ انہوں نےمجھےجواب دیا"کہ گھربیٹھ کرتوآپکوکوئی پیسے نہیں دےگا،مجھےکاغذات بھجوائیں میں ڈی ایچ اےوالوں سےبات کروں گاوہ آپکوپیسے دےدیں گے۔"جنرل صاحب کابہت شکریہ کہ انہوں نے تعاون کی یقیں دہانی کروائی لیکن میں نےدل میں سوچا کہ اگرگھربیٹھ کرمیری زمین پر قبضہ کرسکتےہیں توگھر بیٹھے پیسے بھی دے دینے چاہیں .جب میں سول سروسز میں تھاتو میرے کورس میٹ کے والد بریگیڈئیرتھےشہرکےبیچ کنٹونمنٹ میں انکاگھرتھا،ان کے گھرکےسامنےایک پلازہ تعمیرکیاجا رہاتھا،اس پلازہ کی عمارت جب بریگیڈئیرصاحب کےگھرسےاونچی ہونےلگی تواس پلازہ کی عمارت کو سیکورٹی رسک قراردےکر رکوادیا گیادنیاکےکسی بھی ملک میں افسرشہرکے بیچ و بیچ نہیں رہتےکیوں کہ پلازہ کی اونچی عمارت سیکوڑٹی رسک نہیں بلکہ آپ اردگرد رہنے والے کئی سویلینز کے لیے سیکوڑٹی رسک ہیں، آپکو رہنا ہے تو کہیں بارڈرکےپاس یاسویلین آبادی سےدوربسیراکریں۔راولپنڈی میں اکثرشام کی چائے دوستوں کےساتھ پینےکنٹونمنٹ میں واقع ایک ہوٹل پرجاتےتھے، اس ہوٹل میں رش لگاہوتاتھا کیونکہ لوگ اسکی چائے کےدیوانےتھے،ایک دن جب ہم چائےپینےگئےتودیکھاکہ اس ہوٹل کےپاس دوسائن بوڑڈزلگےتھے" out of bound"دوکان کھلی تھی،چونکہ کنٹونمنٹ کاایریاتھا تواسی نوٹس بوڑڈکےپاس ایک" ایم پی"والابھی کھڑاتھاہم نے ہوٹل والےسےاس سارےماجرے کی وجہ پوچھی تواس نےبتایاکہ ساتھ ہی ایک کرنل صاحب کاڈیری فارم ہے،توکرنل صاحب کافی عرصےسےبضدتھے کہ ہوٹل کیلیےدودھ انکےفارم سے لیاجائے،میں نےوہ دودھ try بھی کیا،لیکن اس دودھ کی چائےکاوہ ذائقہ نہیں جس کےگاہک شوقین ہیں تومیں نےکرنل صاحب سےمعذرت کی کہ میں جہاں سےدودھ لیتا ہوں وہیں سےcontinueکروں گا۔اسی بات پراتنا تنازعہ بڑھتا چلاگیا اورآج یہ ساری صورت حال ہے۔میں اکثر ایسے فوج کے افسروں کو بھی جانتا ہوں جوdown to earth ہیں،میری اسٹیبلشمنٹ سے مرادوہ طبقہ ہےجو عدالتوں کے فیصلوں کوایک کاغذکاٹکڑا تصور کرتے ہیں۔جو لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرتےہیں وہاں dhaبناتے ہیں۔جن کے لیےایک پلازہ کی عمارت سیکورٹی رسک ہےجواس ملک کےکسی ادارےکوترقی نہیں کرنےدیتے، کیونکہ ادارےترقی کرجائیں تو انکی من مانی اورمرضی کیسے چلے گی۔اسی طرح ان سب کی اولادیں اور سرمایہ اس ملک سے باہر ہے،دنیا کےکسی بھی ملک کاافسردوسرے ملک شفٹ نہیں ہوسکتا۔کیونکہ اسکےپاس اہم ملکی رازہوتےہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ سب کی اولادیں اورکاروبارملک سےباہر کیوں ہیں؟کوئی ان سےسوال نہیں کرسکتا۔کیایہ اس ملک کےلیے خطرہ نہیں ہیں؟
جوحوالداربارڈرپرشہیدہوتاہےاسے سلام لیکن اس حوالدارکی قربانی کوکسی مخصوص طبقےکاپیٹ 

بھرنےکی قطعی اجازت نہیں دےسکتا۔

Wednesday, 7 October 2020

Begum Akhtar: The Queen of Ghazals

 

For Begum Akhtar, also known as the Mallika-e-Ghazal (The Queen Ghazals), it was a series of personal tragedies that formed the basis of her legendary vocal performances. Her magic lay in not merely expressing this pain, love and hope, but translating these emotions in ways that future generations would empathise with and understand.

Rita Ganguly, a student of the great Begum, once said that her soulful voice emerged from the depths and years of “loneliness, pain, suppression and silence”. Her unforgettable voice took to the masses, the various forms of semi-classical and classical Hindustani music like the ghazal, thumri and dadra that were once restricted to private mehfils (audiences).

It was her voice which brought life and a certain soul to the remarkable poetry of literary giants like Mirza Ghalib, Kaifi Azmi, Shakil Badayuni, Mir Taqi Mir and Jigar Moradabadi.

For the only artist allowed to smoke in the premises of the All India Radio’s recording studios, it was music which had literally kept her alive amidst a series of personal tragedies until it finally consumed her. Posthumously awarded the Padma Bhushan, Begum Akhtar espoused a unique spirit in her voice which inspired legends like Pandit Jasraj to become a singer as a six-year-old and Agha Shahid Ali, the Kashmi-American poet, to pick up the pen.





Born on 7 October 1914, in Faizabad, Akhtar probably endured more heartaches than most of us do in a lifetime. Her lawyer father, Asghar Hussain, abandoned his wife, Mushtari, a small-time tawaif (courtesan, a profession Akhtar would don till her eventual marriage) and his two children – Akhtar and Zohra (twin sisters) when they were only four years old. After consuming poisoned sweets, both sisters were rushed to the hospital, but Zohra tragically didn’t make it.

In the midst of the devastating loss of a twin sister, it was music that offered Akhar refuge. While her mother insisted that she learn conventional Hindustani Classical Music, it was in other forms like the ghazal or thumri where she could truly express herself. Unfortunately, like many female singers of the time, she also endured a lot of physical abuse at the hands of her masters.

“Worse, Bibbi, or Akhtari Bai Faizabadi as she was by then known, was raped by a raja of one of the states of Bihar who was a patron of classical music. She gave birth to a girl, Shamima. Mushtari, determined that her daughter would not face the world as an unwed mother, pretended the baby was her own and Shamima became Akhtar’s sister. The singer stood by this story until her death,” says this 2008 profile in Mint.

All these events happened by the time she reached 13 years of age. However, her musical gift grew from strength to strength. She performed for the first time in front of an audience at a concert for the victims of 1934 Nepal-Bihar Earthquake, where Sarojini Naidu heaped praise on her singing talents. Akhtar even had a short stint in the film industry till the early 1940s, but left because her mother would have none of it.




But Akhtari Bai managed to escape the matriarchal hold by arranging a marriage for herself into high society. She did this knowing that the price of respectability was a life in purdah, giving up the arts and individual freedom,” writes Mehru Jaffer for Women’s Feature Service.


For eight years, she gave up music. However, following multiple miscarriages and the death of her mother, she was devastated both mentally and physically. Doctors felt that it was only music that would give her an outlet for this grief, and soon she returned to music.

This gave her a second lease of life, and it was during this phase that she got into singing serious poetry. She even shifted her audiences from largely private mehfils to the public venues and eventually the All India Radio, which broadcasted her voice through vast swathes of this country.

Having mesmerised audiences through the length and breadth of India with her unforgettable performances, she eventually passed away on 30 October 1974, suffering a heart attack during a performance in Ahmedabad at the age of just 60.

It is noted critic Raghava Menon who best captures the essence of her greatness.

“Akhtar was constantly caught up in a male-dominated world. She could never escape, even in the middle class, for there were inescapable social stigmas. But, it seems to me, she had an understanding of the predicament of the human being, and she used her life as a source of understanding of the masses who have looked for things, searched for things, gone on a journey to discover things and, in some cases, come back empty handed, finally realising that the important thing is the journey. She seemed like that to me. She was a remarkable, highly evolved woman,” he once said.

زندگی کے سفر میں سب سے بھاری سامان خالی جیب ہوا کرتی ہے۔

 زندگی کے سفر میں سب سے بھاری سامان خالی جیب ہوا کرتی ہے۔

یہ بہت کڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو بچپن سے اہتمام رکھا جاتا ہے کہ بڑے ہو کر کہیں غلطی سے امیر ہونے کی سوچ چھو کر بھی نہ گزرے۔
پیسہ کمانا الگ معاملہ ہے اور امیر ہونا ایک بالکل علیحدہ چیز ہے۔ روزی روٹی کے لیے سب کوشش کرتے ہیں۔ تھوڑی بہت تنخواہ ملتی ہے تو سمجھیے سفر چالو ہو گیا۔ لیکن مسافر یہ نہیں سوچتا کہ گزارا ہونا اور فراغت ہونا، بے فکری ہونا، یہ دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔
آپ کو بچپن سے ان بزرگوں کے قصے پڑھائے جاتے ہیں جو شدید غربت میں بھی عزت دار زندگی گزارتے تھے۔ جن کے کپڑے پھٹے ہوتے تو وہ پیوند لگا لیتے مگر نئے لباس کا نہ سوچتے۔ جن کے لیے پیسے سے زیادہ اہم ان کا مقصد تھا۔ ایسے بادشاہوں کا بتایا جاتا ہے جو خود بھوکے رہتے لیکن ان کی رعایا پیٹ بھر کے سوتی تھی۔
سوچیے کبھی کوئی امیر آدمی کورس کی کتابوں میں ہیرو دیکھا ہے آپ نے؟ ایک ہوتا تھا وہ حاتم طائی۔ اس کا بھی چکر یہ تھا کہ سخاوت کے مارے وہ بھی مفلسی کے کنارے چھوتا پھرتا تھا۔ حاتم کے علاوہ اگر کسی امیر آدمی کا ذکر ہیرو کے طور پہ آئے گا تو یا اس نے اپنے خزانوں کے منہ غریبوں کے لیے کھول دیے ہوں گے یا کوئی اور ایسا کام کیا ہو گا جسے فلاح عامہ کہتے ہیں۔
کوئی ایسا امیر انسان جس نے خود اپنا پیسہ انجوائے کیا ہو وہ کبھی ہمارا ہیرو نہیں ہوتا۔ اسی چکر میں ہم نے قائد اعظم کی تنخواہ بھی ایک روپیہ مشہور کر دی۔ ہمارے نیک بادشاہ ٹوپیاں سیتے تھے اور باقی سب نے بھی تاریخ کو ٹوپیاں کرا دیں۔
ہم ساری عمر اسی وجہ سے کنفیوز رہتے ہیں۔ امیر آدمی کا تصور ہمارے دماغ میں ایک ولن جیسا ہوتا ہے۔ سوچیں، کبھی اگر کوئی آپ کو سیٹھ کہے، تو کیا آپ کمفرٹیبل ہوں گے؟ یا اسے بھی چھوڑیں، آپ اپنی دفتری زبان دیکھ لیں۔ خط کتابت میں لکھا جائے گا فدوی یہ عرض کرتا ہے، احقر کی گذارش ہے، کمترین یہ چاہتا ہے، اور پھر، یہاں سے گزر کے لٹریچر میں آئیں گے تو باقاعدہ فقیر، درویش، حقیر وغیرہ کہلانے کی ٹرائے ماریں گے۔ کیوں؟ آپ حقیر، فقیر کی جگہ اپنا نام ہی کیوں نہیں لکھ دیتے یا لفظ میں کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ کیا چکر ہے؟ کیوں پوری قوم غربت کو گلوریفائے کر کے گھوم رہی ہے؟ میں نواب حسنین، سیٹھ حسنین یا کوئی بھی دولت مند قسم کا ٹائٹل تک حاصل کیوں نہیں کرنا چاہتا؟
اس کی وجہ وہی ہے کہ ہمارے یہاں امیر ہونا باقاعدہ ایسا گناہ ہے جس پر شرمندگی جائز ہے۔ مذہب میں بھی امیروں کی پکڑ زیادہ دکھائی جاتی ہے، کورس میں بھی انہیں ٹھڈے مارے جاتے ہیں، باقی کسر ڈرامے یا فلموں نے پوری کرنی ہوتی ہے۔
اب ہوتا کیا ہے۔ ہمارا کانسیپٹ کلئیر نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھئی اصل میں ہم قناعت پسندی کر رہے ہیں جب کہ ہم جو کر رہے ہوتے ہیں اسے غربت میں چادر کھینچ قسم کا گزارہ کہتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہم سفید پوشی کا بھرم رکھ کے معزز ہو رہے ہیں جب کہ اصل میں صدیوں کی بھوک ہماری آئندہ نسلوں کے دماغوں میں بھی جگہ بنا رہی ہوتی ہے۔ ہم اپنی طرف سے تھوڑا پیسہ آنے پہ حاتم طائی بننے کی خواہش کرتے ہیں، مرنے کے بعد بچے گالیاں دیتے ہیں کہ باپ ماں نے ہاتھ آیا پیسہ بھی نہیں سنبھالا۔
عقل کو ہاتھ ماریں۔ غربت میں عظمت ٹائپ کے سبق پڑھانا بند کریں بچوں کو۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری پوری نسل قناعت مارکہ غریبوں میں بدل گئی ہے۔ جو فقٹے ہیں لیکن جنہیں لگتا کہ ان کی جہان میں بادشاہی ہے، جب زندگی میں اونچ نیچ ہوتی ہے وہاں ہاتھ پاؤں پھولتے ہیں کہ پیسے نہیں ہیں تو اب کریں کیا۔ ایک نوکری کرتے ہیں اور ٹھنڈے ٹھنڈے شام کو گھر میں بیٹھ کے مالی مسئلوں پہ دماغ لڑاتے ہیں۔ شام کو آخر دوسرا اور رات کو تیسرا کام کیوں نہیں کرتے؟ کیوں کہ بھائی قناعت میں عزت، غربت میں عظمت، کنگلے پن میں بادشاہی، ملنگی میں سرداری، درویشی میں نوابی اور فقیری میں امیری ٹائپ کے نشے خود بڑے ہمارے ہم کو لگا کر گئے ہیں۔
ہم لوگ بی اے کر کے نوکری کا خواب آخر کیوں دیکھتے ہیں؟ کوئی بچہ کبھی دکاندار بننے کا خواب کیوں نہیں دیکھتا؟ کبھی آپ نے سوچا کہ آپ بچے کو پراپرٹی ڈیلنگ سکھائیں گے یا آپ کا بچہ گوشت کی دکان کھولے گا بڑا ہو کے؟ قصائی تک چاہے گا کہ بیٹا بابو بنے کاروبار کو مت پھیلائے۔ کیوں؟
یقین کیجیے اس مصنوعی رویے نے ہماری مت ماری ہوئی ہے۔ بچے کو بتائیں کہ بیٹا پیسہ کیوں اہم ہے، اسے کمانا کیوں ضروری ہے، اسے بچانا کیوں ضروری ہے، اس سے آپ کی ساری فکریں دور کیسے ہوتی ہیں ۔۔۔۔ نہ ۔۔۔ ایک منٹ!
وہ کیا تھا، پیسہ ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا، پیسہ ہاتھ کا میل ہے، باقاعدہ لاحول ولا قوة! اے شدید مطمئن غریب لوگو، یہ دو تین کہاوتیں اس سارے فساد کی جڑ ہیں۔ بتاؤ بچوں کو وہ سب کچھ جو بہت بڑے ہونے کے بعد تمہیں خود سمجھ میں آیا ہے! پیسہ ہے تو ہر مسئلے کے بہت سے ممکنہ حل ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ پیسہ ہاتھ کا میل نہیں ہے بلکہ پیسے کمانے والے میلے ہاتھوں میں عظمت ہے۔ عظمت بھی کیا ہے، یہ ایک اور غلط جذباتی لفظ ہے، یوں کہیں کہ پیسے کمانے والا میلا ہاتھ کم روپے کمانے والے صاف ہاتھ سے بہتر ہے، پیسے سے محبت خریدی نہیں جا سکتی لیکن گاڑی بنگلہ ہو تو ڈھیر محبتیں ایک وقت میں ہیلو ہائے کر لیا کرتی ہیں اور وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک غریبی کے تقدس کی بات ہے تو یار خدا اس غربت سے بچائے جس میں بھوکے پیٹ ایک روٹی دیکھنے سے ایمان خراب ہوتا ہو اور وہ امارت نصیب کرے جس میں بندہ خود آٹے کی بوریاں بانٹنے والا بن سکے بھلے ساتھ تصویریں بھی کھنچواتا پھرتا ہو۔
یہ سب مجھے چالیس برس کی عمر میں سمجھ آیا ہے۔ کوئی بول بچن نہیں کرا رہا، میں خود ملنگ ٹائپ آدمی ہوں۔ ایسا ملنگ جیسے گاندھی جی تھے۔ جن کی درویشی کو مینٹین رکھنے کے لیے ساتھ سیکیورٹی والوں کا خرچہ بھی ہوتا تھا اور تن پہ جن کے کپڑا نہیں تھا کوئی ہوتا۔ جن کو بکری کا دودھ ناشتے میں پلانے کے لیے الگ سے بکریاں پالی بھی جاتی تھیں۔ کسی اپنے ملنگ، درویش یا فقیر کی مثال دوں گا تو مارا جاؤں گا، اس لیے گاندھی جی پہ گزارا کریں، پرایوں کو رگڑا لگانا آسان ہے۔
تو خیر، کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ فقیری کی عیاشیاں آپ نے کر لیں، ہم نے کر لیں، بچوں کو اس آگ میں نہ جھونکیں۔ پیسے کو برا کہنے سے پیسہ برا تو نہیں ہوتا بس آپ کی نسلوں سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اپنا نقصان کر لیا، ان کا مت کریں۔ انہیں آن لائن کوئی چیز بیچنے کی ترغیب دیں، کوئی ہنر پڑھائی کے ساتھ سکھائیں، ان کے ذہن میں ڈالیں کہ میاں پندرہ سولہ سال کے ہو جاؤ تو اللہ کا نام لو اور شروع کرو کوئی کمانے کا دھندہ، پڑھائی وڑھائی ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔ شاید اس طرح بائیس تئیس سال کا ایک ڈگری یافتہ نوجوان خالی جیب کا بھار لیے زندگی کے لمبے سفر کی شروعات نہ کرے!
اولاد کو پیسے کمانے پر لگائیں، غربت میں عظمت کے بھاشن مت دیں.
حسنین جمال

Urdu Poetry