ساٹھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ سے انکار کرکے، مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ کرنے والے سرجن کی کتھا۔
قاضی آصف
کچھ عرصہ قبل ایک خوبصورت شام، کراچی پریس کلب کی چھت پر اسلام آباد سے آئے ہوئے صحافی اور ڈاکٹر دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں جب قربان بلوچ نے بتایا کہ کبھی آپ نے یہ سنا کہ ملک کے ٹاپ کلاس کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن ساٹھ لاکھ روپے مہینہ تنخواہ سے انکار کر دے؟
مجھے آپنے کانوں پر اعتبار نہیں آیا۔میں نے سوالیہ نظروں سے قربان کی طرف دیکھتا رہا، انہوں نے محسوس کیا کہ میں ان کی بات پر اعتبار نہیں کر رہا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، میں کوئی جھوٹ نہیں بول رہا۔ یہ سچ ہے۔ وہ سرجن میرے آبائی شہر سے ہے۔ قربان نے مجھے جو بتایا، اس کو میں نے مان تو لیا لیکن،،،کھٹکا لگا رہا۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی لوگ ہیں، کون، اعتبار کرے؟
ہمارے غریب ملک میں کچھ ایسی مثالیں ہیں جس پر دنیا حیرت میں رہتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایدھی ایمبولینس سروس، دنیا میں سب سے بڑے مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ ڈاکٹر ادیب رضوی کا سینٹر اور دنیا میں پہلا مفت لیور کڈنی ٹرانسپلانٹ سینٹر گمبٹ اور دنیا میں سب سے بڑی دل کا مفت اعلاج اور بائی پاس آپریشن کا ادارہ این آئی سی وی ڈی یہ پاکستان اور خاص طور پر سندھ ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ سچ اور حقیقت ہے۔
ایک تصور کہ پاکستان میں کچھ نہیں، اور خاص طور پر سندھ میں فقط کرپشن اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن کئی ایسی مثالیں ہیں جس پر میڈیا اوردیگر اداروں کی توجہ نہیں جاتی۔کونکہ ان کو سندھ اور پاکستان کا فقط منفی رخ ہی دکھانا ہے۔
قربان بلوچ نے اسی محفل میں شامل ڈاکٹرجو ہمارا دوست ہیں، اس کی طرف اشارہ کرکے کہا، ساٹھ لاکھ روپے ماہانہ انکار کرنے والا یہی آپ کے قریب بیٹھا کڈنی سرجن ہے۔
وہ محفل ختم ہوئی، کافی وقت گذر گیا۔ آج ہم سب کے انتہائی محترم دوست ڈاکٹر محمد خان ببر کا جنم دن ہے۔ میں نے ان کو ہیپی برتھ ڈے کہا اور کراچی پریس کلب پر قربان بلوچ کی بات دہرائی۔ ڈاکٹر محمد خان ببر نے بتایا کہ جب انہوں نے دوہزار پندرہ میں ڈاکٹر ادیب رضوی سے اجازت لے کر گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس جوائن کیا تو لاہور سے ایک بڑے اسپتال کی جانب سے رابطہ کیا گیا کہ وہ ان کو ماہانہ چالیس لاکھ روپے دینے کو تیار ہیں، وہ لاہور آجائیں۔ ڈاکٹر محمد خان نے انکار کیا کہ انہیں یہیں کام کرنا ہے۔ پھر دو ہزار سترہ میں، ڈاکٹر محمد خان کے جاننے والے سے لاہور کی اسی اسپتال والوں نے رابطہ کیا اور ڈاکٹر سے مذاکرات کے دوران ساٹھ لاکھ روپے مہینہ دینے کی آفر کی۔ اس وقت لاہور میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کے فی مریض تیس لاکھ روپے وصول کئے جاتے تھے۔ اور یہاں سندھ میں یہ ٹرانسپلانٹ مفت میں ہو رہا تھا۔
میں نے ڈاکٹر محمد خان کو جنم دن مبارک دینے کے ساتھ پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب، آپ نے ساٹھ لاکھ روپے ماہانہ لینے سے انکار کیا، یہاں کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ انہوں نے کہا چار لاکھ روپے کے قریب ہے، ٹیکس وغیرہ کاٹیں تو اور کم ہوجائیگی۔
میرا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ سندھ اور پاکستان میں سب کچھ بربادی نہیں۔ ابھی بہت کچھ ہے۔
ڈاکٹر محمد خان سندھ کے دور دراز علاقے جوہی سے تعلق رکھتے ہیں، بچپن سے مظلوم و محکوم عوام سے محبت، ان کی خدمت، اور غربت ختم کرنے کا جنون جاگا۔ اسی ساتھ میں شامل ہوئے جو غریبت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ مظلوموں کے ساتھ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی بنیادی طور پر کوئی امیر خاندان سے نہیں۔ اپنی محنت اور عوام سے محبت کی لگن میں وہ مہارت حاصل کی جو ایک خواب اور پاکستان کی ضرورت ہے۔
وہ ڈاکٹر ادیب رضوی کی ٹیم میں شامل ہوئے، کراچی میں کئی دہائیاں ایس آئی یو ٹی میں کام کیا۔ غریبوں کے مفت آپریشن کیئے۔ یہ ڈاکٹر ادیب رضوی کا کمال ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر محمد خان، ڈاکٹر مرلی دھر سمیت بہت سے کمیٹیڈ ڈاکٹر تیار کئے اور اب دنیا کے مانے ہوئے کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن ہیں۔ لیکن سب سے بہتر یہ بات کہ انہوں نے مال بنانے کیلئے یہ مہارت حاصل نہیں کی بلکہ، ننگے پائوں، پھٹے کپڑوں، جھونپڑیوں میں رہنے والوں، ایک وقت کا کھانا کھانے کی سکت نہ رکھنے والوں سے محبت اور خدمت کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک نبھا رہے ہیں۔ کمانا چاہیں تو کروڑ پتی بننا مسئلہ نہیں لیکن وہ یہیں مطمئن ہیں۔ مفت کڈنی ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں، اور اپنے ضمیر اور نظریے پر خوش ہیں۔ یہی ہمارے سماج کا فخر ہیں۔ یہی تاریخ کے مثال ہیں۔ جنم دن مبارک ہو، ڈاکٹر محمد خان ببر صاحب۔